آر ایس ایس سے وابستہ میگزین نے ایمیزون پر ملک میں تبدیلی مذہب کے لیے فنڈنگ  کرنے ​​کا الزام لگایا

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے وابستہ میگزین آرگنائزرنے اپنے تازے شمارے کی کور اسٹوری میں ای– کامرس کمپنی ایمیزون پر ہندوستان کی شمال–مشرقی ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے لیے فنڈنگ مہیاکرنے کا الزام لگایا ہے۔ کمپنی نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے وابستہ میگزین آرگنائزرنے اپنے تازے شمارے کی کور اسٹوری میں ای– کامرس کمپنی ایمیزون پر ہندوستان کی شمال–مشرقی ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے لیے  فنڈنگ مہیاکرنے کا الزام لگایا ہے۔ کمپنی نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

دی آرگنائزر کے حالیہ شمارے کا سرورق۔ (بہ شکریہ: Facebook/@eOrganiser)

دی آرگنائزر کے حالیہ شمارے کا سرورق۔ (بہ شکریہ: Facebook/@eOrganiser)

نئی دہلی: راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے وابستہ میگزین دی آرگنائزر نے اپنے تازہ شمارے کی کور اسٹوری میں ای–کامرس کمپنی ایمیزون پر ملک کی شمال–مشرقی ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے لیے  فنڈنگ مہیا کرنےکا الزام لگایا ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، ‘امیزنگ کراس کنکشن’ کے عنوان سے ایک کور اسٹوری میں، میگزین نے یہ بھی الزام لگایا کہ کمپنی کے ‘امریکن بیپٹسٹ چرچ’ نامی تنظیم کے ساتھ مالیاتی  روابط ہیں، جس کے بارے میں میگزین کا دعویٰ ہے کہ وہ اس خطے میں ‘تبدیلی مذہب کا ماڈیول’ چلا رہی تھی۔ ایمیزون نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

میگزین کا کہنا ہے کہ ‘ای کامرس کی بڑی کمپنی ایمیزون امریکی بیپٹسٹ چرچ (اے بی ایم ) کے ذریعے چلائے جانے والے کرسچن کنورژن ماڈیول کو فنڈ فراہم کر رہی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ہندوستان کے بڑے مشنری تبدیلی مذہب کے مشن کو فنڈ فراہم کرنے کے لیے ایم این سی کمپنیوں اوراے بی ایم کے ذریعےمنی لانڈرنگ  رِنگ چلائی جا رہی ہو۔

میگزین نے یہ بھی الزام لگایا کہ اے بی ایم ہندوستان میں آل انڈیا مشن (اے آئی ایم) کے نام سے ایک محاذ چلا رہا  تھا۔ میگزین نے دعویٰ کیا کہ ‘یہ اس کی فرنٹل تنظیم ہے جس نے اپنی ویب سائٹ پر کھلے عام دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے شمال–مشرقی ہندوستان میں 25000 لوگوں کو عیسائی بنایا ہے۔

ایمیزون کے توسط سے، ایمیزون سمائل لوگو کے ساتھ،اے آئی ایم  کی فنڈنگ اپیل کی ایک مبینہ ٹوئٹر پوسٹ کا حوالہ دیتے ہوئے میگزین نے کہا، ‘ایمیزون ایک ہندوستانی کی طرف سے ہر خریداری کےعوض میں  رقم عطیہ کر کے آل انڈیا مشن آف کنورژن ماڈیول کو اسپانسر کر رہا ہے۔

انڈین ایکسپریس کے رابطہ کرنے پر ایمیزون کے ترجمان نے کہا، ایمیزون انڈیا کا آل انڈیا مشن یا اس سے وابستہ اداروں سے کوئی تعلق  نہیں ہے اور نہ ہی ا ایمیزون انڈیا مارکیٹ پلیس پر ایمیزون سمائل پروگرام چلاتاہے۔ جہاں ایمیزون سمائل پروگرام چلایا جاتا ہے، وہاں صارفین ان چیرٹی، جنہیں این جی اوکے ذریعے رجسٹرڈکیا گیا ہے، میں سے کسی کو بھی عطیہ کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ ایمیزون سمائل پروگرام میں شرکت کرنے والے کسی بھی چیرٹی کے خیالات کی توثیق نہیں کرتا ہے۔

دوسری جانب آرگنائزر نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) نے ستمبر میں شائع ہونے والے میگزین کی رپورٹ کے بعد اس معاملے کا نوٹس لیا ہے۔

دی انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے این سی پی سی آر کے چیئرمین پریانک قانون گو نے کہا کہ کمیشن کو ستمبر میں اروناچل پردیش سے یتیم خانوں کے ذریعے غیر قانونی تبدیلی مذہب  اور مبینہ طور پر ایمیزون کے ذریعے فنڈز فراہم کرنے کی شکایت موصول ہوئی تھی۔

انہوں نے کہا، ہم نے فوری طور پر اس معاملے کا نوٹس لیا اور ستمبر میں ایمیزون کو نوٹس بھیجا۔ لیکن ایمیزون نے جواب نہیں دیا… پھر میں نے اکتوبر میں ایمیزون کو ایک سمن جاری کیا اور ایک  نومبر کو کمیشن کے دفتر میں ایمیزون انڈیا کے تین ایگزیکٹوز سے ملاقات کی۔

انہوں نے مزید کہا، ایمیزون کے نمائندوں نے ہمیں بتایا کہ ایمیزون انڈیا اور آل انڈیا مشن کے درمیان کوئی تعلق  نہیں ہے اور ایمیزون انڈیا سے این جی اوز کو کوئی پیسہ نہیں جاتا ہے۔ انہوں نے ایمیزون امریکہ سے بات کی اور نومبر کے پہلے ہفتے میں ہمیں جواب دیا… ایمیزون انڈیا نے کہا کہ ایمیزون امریکہ نے آل انڈیا مشن کو کچھ فنڈز دیے ہیں۔ انہوں نے ہمیں آل انڈیا مشن کا ایک پتہ بھی دیا ہے جو بیرون ملک کا لگتا ہے۔ اب ہم اس کی مزید تحقیق کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ این سی پی سی آر کی تحقیقات کے دوران کمیشن نے پایا کہ ‘آل انڈیا مشن ہندوستان میں غیر قانونی یتیم خانے چلا رہا ہے’ اور ‘وہ ان یتیم خانوں کے ذریعے بچوں کا مذہب تبدیل کروا رہے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ان کی تحقیقات کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ جب ہم نے ویب سائٹ کی چھان بین شروع کی تو سائٹ بلاک کر دی گئی اور ہمیں تفتیش روکنی پڑی۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، اس کے ذریعے چیک کرنے پر پایا گیا کہ اے آئی ایم کی ویب سائٹ نہیں چل رہی تھی۔ اے بی ایم نےبھی  اخبار کی طرف سے اس کی  ویب سائٹ پر لکھی گئی ای میل آئی ڈی پر بھیجے گئے میل کا بھی جواب نہیں دیا۔

اس سے قبل ستمبر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں دی آرگنائزر نے دعویٰ کیا تھا کہ جھارکھنڈ میں اے آئی ایم کے دو محاذ ہیں اور اس کے بانی ‘ہندوستان کو بدنام کرنے کی مسلسل مہم’ چلا رہے تھے اور ایک مرکز بھی چلا رہے تھے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ایمیزون کو آر ایس ایس سے وابستہ میگزین یا تنظیم نے نشانہ بنایا ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں آر ایس ایس سے وابستہ سودیشی جاگرن منچ کے قومی کنونشن میں منظور کی گئی قرارداد میں ایمیزون کے ساتھ ساتھ فلپ کارٹ، والمارٹ اور دیگر ای–  کامرس کمپنیوں کے کاموں کی سی بی آئی جانچ کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔

اس وقت یہ الزام لگایا گیا تھا کہ یہ کمپنیاں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کاروبار کر رہی ہیں۔

اس سے پہلے ستمبر 2021 میں آر ایس ایس سے منسلک ‘پانچجنیہ’ میگزین نے ایمیزون کو ‘ایسٹ انڈیا کمپنی 2.0’ قرار دیا تھا۔ میگزین کے ایک مضمون میں کہا گیاتھا کہ ‘ایسٹ انڈیا کمپنی نے 18ویں صدی میں ہندوستان پر قبضہ کرنے کے لیے جو کچھ کیا وہ آج ایمیزون کی سرگرمیوں میں نظر آتا ہے۔’

Next Article

کبھی اینٹی نیشنل، کبھی دہشت گرد اور کبھی ماؤ نواز تنظیموں سے تعلقات: کیسے بدلتی رہی صحافی کی حراست کی بنیاد

سات مئی کو ناگپور پولیس نے کیرالہ سےتعلق رکھنے والے 26 سالہ صحافی رجاز ایم شیبا صدیق کو آپریشن سیندور کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیا۔ تین بار پولیس ریمانڈ میں  لیے جانے کے بعد، ان کی حراست کی وجوہات مسلسل بدلتی رہی ہیں۔ان پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤسٹ)، جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) اور حزب المجاہدین سمیت متعدد کالعدم تنظیموں کے ساتھ مبینہ روابط کا الزام  عائد کیا گیاہے۔

کیرالہ کے صحافی رجاز ایم شیباصدیقی کو ناگپور پولیس نے جمعرات 8 مئی کو گرفتار کیا تھا۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

کیرالہ کے صحافی رجاز ایم شیباصدیقی کو ناگپور پولیس نے جمعرات 8 مئی کو گرفتار کیا تھا۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: 7 مئی کو ناگپور پولیس نے کیرالہ سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ صحافی رجاز ایم شیبا صدیق کو آپریشن سیندور (پاکستان اور پی او کے میں دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے پر ہندوستان کی فوجی کارروائی) کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیا تھا۔ ان کی گرفتاری اور تین بارپولیس ریمانڈ  میں لیے جانےکے بعد،  ان کی حراست کی وجوہات مسلسل بدلتی رہی ہیں۔

پولیس نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا تھا کہ ان کی گرفتاری ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ‘اینٹی انڈین آرمی’ اور ‘اینٹی انڈیا’ پوسٹ کرنے اور ‘دو پستول’ لہراتے ہوئے اپنی ایک انسٹاگرام فوٹو شیئر کرنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ ان پر جلد ہی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤسٹ)، جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) اور حزب المجاہدین سمیت متعدد کالعدم تنظیموں کے ساتھ مبینہ روابط کا الزام لگایا گیا۔

پولیس نے اب الزام لگایا ہے کہ ان کا تعلق پونے میں واقع کلچرل گروپ کبیر کلا منچ (کے کے ایم) سے ہے، جو دلت اور بہوجن نوجوانوں کی تنظیم ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں، کے کے ایم اپنے تنقیدی خیالات کی وجہ سے جانچ  ایجنسیوں کی  نگرانی میں رہی ہے اور آخر کار اس پر ممنوعہ ماؤنواز تنظیم کا ‘فرنٹل’ ہونے کا الزام لگایا گیا۔

گزشتہ 15 مئی کو پولیس نے رجاز کو شام 7 بج کر 15 منٹ پر عدالت میں پیش کیا۔ جب تک ان کی حراست کا حکم جاری ہوا، تب تک رات کے تقریباً 10 بج چکے تھے۔ پولیس نے اضافی 10 دنوں کے لیے ان کی حراست کی درخواست کی، لیکن عدالت نے تین دن کی ہی اجازت دی۔

کیرالہ یونیورسٹی میں سوشل روک  کی پڑھائی کرنے والے رجاز  نیوز پلیٹ فارم مکتوب اور کاؤنٹر کرنٹ کے لیے لکھتے رہے ہیں۔ ان کےمضامین بنیادی طور پر دیگر مسائل کے علاوہ جیلوں میں پولیس کی زیادتیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مرکوز رہے ہیں۔ رجاز کے دوستوں اور ساتھ کام کرنے والوں کے مطابق، ایک نوجوان طالبعلم کے طور پر وہ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی) کا حصہ تھے۔ بعد میں وہ مایوس ہو گئے اور ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (ڈی ایس اے) میں شامل ہو گئے، ایک ایسی تنظیم جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ شدت پسند  بائیں بازوکی طرف  جھکاؤ  رکھتی ہے۔

پونے کا دورہ

پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ 2023 میں رجازنے پونے کا دورہ کیا تھااور کے کے ایم کے ارکان سے ملاقات کی تھی۔ کے کے ایم کے تین آرٹسٹ– جیوتی جگتاپ، ساگر گورکھے، رمیش گائچور – ایلگار پریشد کیس میں جیل میں بند ہیں۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرنا چاہتے ہیں کہ کیا رجاز دو دیگر لوگوں – سنتوش شیلار عرف ‘پینٹر’ اور پرشانت کامبلے عرف ‘لیپ ٹاپ’ سے ملنے پونے گئےتھے۔جہاں شیلار کو گزشتہ سال گرفتار کیا گیا تھا، وہیں کامبلے کو اس ماہ کے شروع میں گرفتار کیا گیا- دونوں کی گرفتاریاں 2011 کے کے ایم معاملے کے سلسلے میں ہوئی ہیں، جو ابھی زیر التواء ہے۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ شیلار اور کامبلے دونوں انڈر گراؤنڈ تھے۔ پولیس کے مطابق، شیلار کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ بیمار پڑگیا اور علاج کے لیے باہر آیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ کامبلے تھانے ضلع کے ایک دور دراز گاؤں میں کام کررہا تھا اور اسے وہیں سے گرفتار کیا گیا۔

پولیس کے مطابق، یہ دونوں پونے سے فرار ہوئے تھے، تاہم اب رجاز کی ریمانڈ کی درخواست میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس بات کی تفتیش کرنا چاہتے ہیں کہ کیا رجاز دونوں سے ملنے پونے گیا تھا۔

اپنی گرفتاری سے قبل، رجاز ‘ریاستی جبر کے خلاف مہم’ کے زیر اہتمام ایک پریس کانفرنس میں شرکت کے لیے دہلی گئے تھے۔ پولیس نے اب اس پلیٹ فارم کو بھی ایک ‘فرنٹل آرگنائزیشن’ برانڈ کیا ہے، اس کے باوجود ان کے دعوؤں کی حمایت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔ کانفرنس کے بعد رجاز ایک خاتون دوست سے ملنے ناگپور آئے اور دونوں کو شہر کے ایک ہوٹل سے اٹھایا گیا۔ رجاز کو گرفتار کر لیا گیا، جبکہ خاتون کو کئی گھنٹے کی پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ان کا بیان ریکارڈ کر لیا ہے۔

بندوقیں

ناگپور پولیس نے رجاز کو تین بار حراست میں لیا ہے۔ پہلے ریمانڈ اور ایف آئی آر میں صرف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دفعات شامل تھیں۔ ان پر بی این ایس کی دفعہ 149 کے تحت ‘حکومت ہند کے خلاف جنگ چھیڑنے کے ارادے سے اسلحہ یا دیگر مواد اکٹھا کرنے’ کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ دیگر الزامات میں بی این ایس کی دفعہ 192، 353(1)(بی،353(2)اور 353(3) کے تحت’دنگا بھڑکانے کے ارادے سے اشتعال انگیزی’اور ‘عوامی شرپسندی کو بڑھاوا دینے والے بیان’ شامل تھے۔

ان میں سے دفعہ 149 سب سے سنگین تھی۔ یہ الزام ایک انسٹاگرام اسٹوری سے شروع ہوا جس میں رجاز کو دو پستول پکڑے ہوئے دیکھا گیا تھا، جس کا کیپشن تھا’اپنے دفاع کے لیے لائسنس یافتہ’۔ ایف آئی آر کے وقت پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ اسلحہ اصلی تھا یا نہیں۔

تاہم، آٹھ دن اور تین حراست کے بعد، پولیس نے ناگپور کے ایک مقامی دکان کے ملازمین سے پوچھ گچھ کی، جہاں رجاز مبینہ طور پر ایک خاتون دوست کے ساتھ گیا تھا اور پستول کے ساتھ تصویر کھنچوائی تھی۔ دکان کے عملے اور مالکان نے تصدیق کی کہ پستول ایئر گن تھے اور یہ دونوں وہاں گئے تھے، تصویر بنوائی اور چلے گئے۔ اس کے باوجود ان کے خلاف دفعہ 149 لاگو ہے۔

ٹیرر اور لٹریچر

تیسری حراست کے دوران پولیس نے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کی دفعہ 38 اور 39 شامل کیں۔ دفعہ 38 ایک ‘دہشت گرد تنظیم’ کی رکنیت سے متعلق ہے، جبکہ دفعہ 39 ایک دہشت گرد تنظیم کی حمایت سے متعلق ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ رجاز مختلف نظریات کی حامل کئی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں، جو ان کی گرفتاری کے بعد کی گئی چھاپے ماری کے دوران ان کے فون اور ان کی کوچی کی رہائش گاہ سے برآمد ہونے والے مبینہ لٹریچر اورپرچے پرمبنی ہے۔

رجاز کے فون پر ملنے والے لٹریچر کے مواد کی ریمانڈ درخواست میں مکمل تفصیل نہیں ہے اور اسے ‘مشتبہ’ قرار دیا گیا ہے۔ پولیس نے رجاز کے گھر سے دو کتابیں برآمد کیں – ایک کارل مارکس کی اور دوسری کے مرلی کی کریٹکنگ برہمنواد۔ رجاز کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ یہ کتابیں ان کے والد کی ہیں، جو سوشل سائنس کے ایک ریٹائرڈ استاد ہیں، اور ان میں سے کسی پر بھی پابندی نہیں ہے۔

رجاز کے پاس موجود دیگر کتابوں میں جی این سائی بابا کی ہو ڈیفائیڈ ڈیتھ: لائف ایند ٹائمز، دی گریٹ لیگیسی  آف مارکسزم-لینن ازم: لینن آن دی سوشلسٹ اسٹیٹ  اینڈ اونلی پیپل میک دیئر اون ہسٹری اور مرحوم مارکسی دانشور اعجاز احمد کا لکھا ایک تعارف شامل ہیں ۔ یہ کتابیں بھی وسیع پیمانے پر دستیاب ہیں۔

ریمانڈ کی درخواست میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ رجاز ممنوعہ ماؤنواز تنظیم کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے میں مدد کر رہا تھا۔ پولیس کا یہ دعویٰ رجازکی گرفتاری کے وقت ان کے پاس سے ملے نظریہ میگزین کے ایک پمفلٹ پر مبنی ہے ۔

سوشل میڈیا پر سرگرم نظریہ کو ماؤ نواز نظریات کی حمایت کے لیے جانا جاتا ہے اور اس نے حال ہی میں کالعدم پارٹی کے جنگ بندی اور امن مذاکرات کے مطالبات کی حمایت کی ہے۔ تاہم،نظریہ نہ تو کالعدم تنظیم ہے اور نہ ہی حکومت نے اسے ‘فرنٹ’ تنظیم قرار دیا ہے۔ دی وائر نے پمفلٹ میں درج فون نمبر پر رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

ناگپور پولیس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ رجاز کے مرلی کے قریبی رابطے میں رہا ہے، جنہیں پہلے ماؤنوازوں سے تعلقات کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، لیکن رہائی کے بعد سے وہ کوچی میں رہتے ہیں، جو رجاز کے گھر کے بہت قریب ہے۔ پولیس کا الزام ہے کہ مرلی ماؤنواز مرکزی کمیٹی کا رکن ہے، لیکن ریمانڈ کی درخواست میں کسی ثبوت کے ساتھ اس دعوے کی تائید نہیں کی گئی ہے۔ مرلی نے کالعدم تنظیم کے ساتھ کسی بھی موجودہ روابط سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ماضی میں اس تحریک میں شامل تھے۔

پولیس نے انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 67 کو بھی لاگو کیا ہے، جو الکٹرانک شکل میں’فحش مواد’کی اشاعت یا ترسیل سے متعلق ہے۔ پولیس نے یہ واضح نہیں کیا کہ رجاز سے ضبط کیے گئے الکٹرانک آلات سے کون سا فحش مواد ملا ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

ایس پی لیڈر کا بی جے پی پر طنز، بولے- ویومیکا سنگھ کی کاسٹ پتہ ہوتی تو انہیں بھی گالیاں دیتے

ایس پی کے قومی جنرل سکریٹری اور ایم پی رام گوپال یادو نے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کرنل صوفیہ قریشی پر بی جے پی کے وزیر کنور وجئے شاہ کے تبصرے پر طنز کیا اور کہا کہ اگر بی جے پی کو دوسرے افسران کی کاسٹ  کے بارے میں  پتہ ہوتا تو وہ انہیں بھی گالیاں دیتے۔

سماج وادی پارٹی کے سینئر لیڈر اور راجیہ سبھا ایم پی رام گوپال یادو۔ (تصویر: X.com/@proframgopalya1)

سماج وادی پارٹی کے سینئر لیڈر اور راجیہ سبھا ایم پی رام گوپال یادو۔ (تصویر: X.com/@proframgopalya1)

نئی دہلی: مدھیہ پردیش میں اپنے ایک وزیر کی جانب سے کرنل صوفیہ قریشی کے بارے میں فرقہ وارانہ طور پرتضحیک آمیز تبصرہ کرنے کے بعد بیک فٹ پر آئی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 15 مئی کو سماج وادی پارٹی کے سینئر اپوزیشن لیڈر رام گوپال یادو کے خلاف ایک ریلی نکال کر ماحول بدلنے کی کوشش کی۔

معلوم ہو کہ رام گوپال یادو نے آپریشن سیندور میں شامل افسران کے ذات پات کے پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے بی جے پی کو نشانہ بنایا تھا۔

جمعرات (15 مئی) کو یوپی کے مراد آباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے سماج وادی پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری اور راجیہ سبھا کے رکن یادونے بی جے پی پر ان کے وزیر کنور وجئے شاہ کی جانب سے کرنل قریشی کو ‘دہشت گردوں کی بہن’ کہنےکو لے کر طنز کیا۔

قابل ذکر ہے کہ کنور وجئے شاہ کے متنازعہ بیان کو لے کر مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے پولیس کو مزید کارروائی کے لیے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا ہے۔

رام گوپال یادو نے اپنی تقریر میں سب سے پہلے بی جے پی کی جانب سے آپریشن سیندور کا جشن منانے کے لیے ملک بھر میں شوریہ ترنگا یاترا شروع کرنے پر تنقید کی اور کہا کہ جموں و کشمیر میں دراندازی کے واقعات اب بھی جاری ہیں۔

یادو نے کہا، ‘دہشت گرد ہر روز مارے جا رہے ہیں۔ وہ پاکستان سے آرہے ہیں۔ اور وہ (بی جے پی) ترنگا یاترا نکال رہے ہیں۔ یہ صرف الیکشن کے لیے کر رہے ہیں۔’

اپنے بیان میں انہوں نے کرنل قریشی کے حوالے سے وزیر شاہ کے ریمارکس اور ہائی کورٹ کے حکم کا حوالہ دیا اور کہا کہ اگر انہیں دوسرے افسران کی کاسٹ معلوم ہوتی تو وہ انہیں بھی گالیاں  دیتے۔

ایس پی ایم پی یادو نے کہا، کرنل قریشی کو ان کے وزیر نے  گالی تک  دی، ہائی کورٹ نے ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ویومیکا سنگھ کون ہیں اور نہ ہی وہ ایئر مارشل اودھیش کمار بھارتی کے بارے میں جانتے تھے، جو اس آپریشن کے انچارج تھے، ورنہ وہ انہیں بھی گالیاں دیتے۔ میں  آپ کو بتا دوں کہ ویومیکا سنگھ ہریانہ سے تعلق رکھنے والی جاٹو چمار ہیں۔ ایئر مارشل اے کے بھارتی پورنیہ کے یادو ہیں۔ تینوں کا تعلق پی ڈی اے سے تھا۔ ایک کو گالی دی گئی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ وہ مسلمان ہے، ایک کو راجپوت سمجھا گیا، اس لیے کچھ نہیں کہا گیا اور دوسرے کے بارے میں ان کے پاس کوئی معلومات نہیں ہے۔’

پی ڈی اے سے مراد ایس پی سربراہ اکھلیش یادو کی انتخابی حکمت عملی ہے – جس میں بی جے پی کے ہندوتوا ایجنڈے کے خلاف پسماندہ ذاتوں، دلتوں اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو متحد کرنا شامل ہے۔ رام گوپال یادو اکھلیش یادو کے چچا ہیں۔

حملہ آور بی جے پی

کرنل قریشی کے خلاف شاہ کے تبصرے سے بیک فٹ پر آئی  بی جے پی نے یادو پر حملہ کرتے ہوئے  ان پر ذات پات کے چشمے سے فوج کی توہین کرنے کا الزام لگایا۔

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا، ‘فوج کی وردی کو ذات پات کے چشمے سے نہیں دیکھا جاتا۔ ہندوستانی فوج کا ہر سپاہی ‘راشٹردھرم’ نبھاتا ہے اور کسی ذات یا مذہب کا نمائندہ نہیں ہوتا۔’

ایس پی پر حملہ کرتے ہوئے آدتیہ ناتھ نے مزید کہا، ‘سماج وادی پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری کا ایک بہادر بیٹی کو ذات کی حدود میں باندھنا نہ صرف ان کی پارٹی کی تنگ نظری کا مظاہرہ ہے، بلکہ یہ فوج کی بہادری اور ملک کی شان کی بھی شدید توہین ہے۔

آدتیہ ناتھ نے کہا، ‘یہ وہی ذہنیت ہے جو اپیزمنٹ اور ووٹ بینک کی سیاست کے نام پرحب الوطنی کو بھی تقسیم کرنے کی ہمت رکھتی ہے۔’

بی جے پی کے اتر پردیش کے صدر بھوپیندر چودھری نے کہا کہ دہشت گردوں اور پاکستان کے حوصلے کو توڑنے والی ملک کی بیٹی ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کے بارے میں یادو کا ‘ذات پرستانہ بیان’ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ فوج کی بے مثال ہمت، بہادری اور مادر وطن کی شان  کی بھی شدید توہین ہے۔

چودھری نے کہا، ‘رام گوپال یادو شاید بھول گئے ہیں کہ آپریشن سیندور کو کامیابی کے ساتھ مکمل کر کے ملک کی بیٹی نے مادر وطن کی آن بان  اور شان کو پوری دنیا میں پھیلانے کا ایک منفرد کام کیا ہے، جو اپنے آپ میں بے مثال اور قابل تعریف ہے۔’

بی ایس پی نے بھی مذمت کی

بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی، جو خود جاٹو دلت ہیں، نے یادو اور بی جے پی دونوں کو ان کے ‘شرمناک اور قابل مذمت’ بیان پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا،’پورا ملک متحد ہے اور پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف ہندوستانی فوج کے آپریشن سیندور کی بہادری پر فخر ہے۔ ایسے میں فوج کو مذہب اور ذات کی بنیاد پر تقسیم کرنا انتہائی نامناسب ہے۔’

معاملے کو بڑھتے دیکھ کر رام گوپال یادو نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے وضاحت  پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کے بیان کو سنے بغیر توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔

انہوں نے وضاحت پیش  کرتے ہوئے کہا کہ شمالی ہند کی کچھ ریاستوں بالخصوص اترپردیش میں جہاں مذہب، ذات اور طبقے کی بنیاد پر لوگوں کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کیے جا رہے ہوں، ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر انکاؤنٹر کیے جا رہے ہوں، ذات، مذہب اور طبقے کی بنیاد پر گینگسٹر ایکٹ لگا کر جائیدادیں ضبط کی جا رہی ہوں، خواتین پر تشدد کیا جا رہا ہو،ذار اور  مذہب دیکھ کر افسران اور ملازمین کی پوسٹنگ کی جاتی ہوں ایسی ذہنیت کے لوگوں کے بارے میں میں نے کل ایک پروگرام میں کہا تھا کہ کرنل صوفیہ کا مذہب نام سےپہچان لیے اس لیے گالی دی گئی، سکریٹری خارجہ مصری کو گالی دی گئی، اگر ان گالی بازوں کو پتہ چل جاتا کہ ویومیکا سنگھ جاٹو ہیں اور ایئر مارشل اودھیش بھارتی یادو ہیں تو یہ  ان افسران کو بھی گالیاں دینے سے  باز نہیں آتے۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

آپریشن سیندور: بحران کے دوران قوم پرستی اور اجتماعی شعور کا امتحان

بائیس  اپریل کے بعد کے ہفتوں میں ثابت ہوا کہ ہم ایک سماج کے طور پر ہوش مند اور ذی شعور نہیں ہیں۔ کوئی بھی غیر معمولی واقعہ ہمیں جڑ سے ہلا دے سکتا ہے۔ اس ساری صورتحال میں غصے کی جو نئی لہر دہشت گردی اور پاکستان مخالف جذبات کے نام پر دیکھی گئی اس نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ ہندوستان کا سب سے بڑا مسئلہ مسلمانوں سے نفرت ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی 13 مئی کو ہندوستانی فضائیہ کے آدم پور بیس میں۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)

وزیر اعظم نریندر مودی 13 مئی کو ہندوستانی فضائیہ کے آدم پور بیس میں۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)

بحران کا ہر لمحہ شہری اور معاشرے کو اپنے کردار، حتیٰ کہ اپنی شناخت کے جائزے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ لیکن سرکاری طور پر ہم بحران کے لمحے سے باہر نہیں نکلے ہیں۔ اگر ہم اس پر یقین کرتے ہیں تو اب بھی نکلنے والے نہیں۔ آپریشن سیندور جاری ہے، بھلے ہی اس میں اب تھوڑا سا وقفہ آگیا ہو۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ آپریشن سیندور پاکستان کے خلاف تھا یا ہے؟ اس کا استعمال  ہندوستان میں کیسے کیا جا رہا ہے؟

بھارتیہ جنتا پارٹی نے کہا ہے کہ بحران کی اس گھڑی میں بھی کانگریس سوال پوچھنے سے باز نہیں آرہی۔ اس سے پہلے جب ایک رپورٹر نے فضائیہ کے افسر سے اس تصادم میں ہندوستان کو ہونے والے نقصان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم تصادم کے وقت تفصیلات نہیں بتا سکتے۔ اب جبکہ سرکاری طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ ہنگامی حالات  جاری ہیں، توآپ حکومت سے کوئی سوال نہیں پوچھ سکتے۔ جس کی وجہ سے ہم ہر معاملے پر حکومت کو ماننے یا اس کا ساتھ دینے کومجبور ہیں۔

جوبھی سوال کرنے کی جرٲت کرے گا یا حکومت کے بیانیے سے انحراف کرے گا اس کے خلاف فوراً مقدمہ چلایا جا سکتا ہے یا اسے جیل رسید کیا جا سکتا ہے۔ یہ سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہے گا۔ اس کے باعث معاشرے نے خود اپنا دماغ بند کر لیا ہے اور اسے  وہ قوم کی خدمت مان بیٹھا ہے۔

بیشتر دفاعی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ 6-7 مئی کی شب ہندوستانی حکومت کے حکم پر یہاں کی فوج نے پاکستان میں جو کارروائی کی وہ کچھ بھی اہم یا فیصلہ کن طور پرحاصل کرپانے میں ناکام رہی ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کارروائی دراصل فوجی طاقت کا غلط استعمال اور ضیاع ہے۔ ان کے مطابق، حکومت نے اپنے ملک میں تشدد یا دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکنے میں اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال کر کے غلطی کی ہے۔

لیکن ان کے برعکس نہ صرف بڑا میڈیا بلکہ ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتیں سرکاری کارروائی کی حمایت کر رہی ہیں۔ یہی نہیں، اس حکومت کے بہت سے ناقدین، جو مستقبل میں بھی اس کے ناقد رہیں گے، اس کارروائی کے دوران حکومت کو بار بار یہ یقین دلاتے رہے کہ اگرچہ وہ اس کے ناقد ہیں، لیکن اس وقت ہر قدم پر اس کے ساتھ ہیں۔ ایسا کیوں ہوا کہ اس بحران کی گھڑی میں ماہرین نے تو اپنا دماغ ٹھنڈا رکھا اور حکومت کا باریک بینی سے جائزہ لیتے رہے لیکن باقی سرکاری قوم پرستی کے سیلاب میں بہہ گئے؟

اس کا جواب ایک سوال میں پوشیدہ ہے۔ کچھ دوستوں نے پوچھاکہ آپ ہی بتائیں، بے چاری  حکومت کیا کرتی؟ کچھ تو کرنا ہی  تھا نا؟

کچھ تو کرنا تھا، اس کے دباؤ میں وہ یہ بھول گئے کہ 22 اپریل کے قتل عام کو ٹالا جا سکتا تھا اگر حکومت وہ کرتی جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ وہ کام لوگوں کی حفاظت کے انتظامات کرنا تھا۔ فوجی اور نیم فوجی دستے کشمیر کے چپے چپے میں گشت کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ پھر بائی سرن جیسی جگہ پر ایک بھی سپاہی کیوں نہیں تھا جہاں ہزاروں لوگ جمع ہوتے ہیں؟

جو حکومت اپنی روزمرہ کی ذمہ داریاں نبھانے میں اتنی لاپرواہ یا غیر ذمہ دار ہو وہ بحران کے وقت صحیح فیصلے کیسے کر سکتی ہے؟

ہم اس سادہ سی بات کو بھول گئے۔ پھر 6-7 مئی کو ایک غیر معمولی صورتحال پیدا کر دی گئی  اور یہ سوال غائب ہوگیا۔ سوال یہ تھا کہ 26 افراد کو قتل کرنے والے کون تھے؟ کہاں غائب ہو گئے؟ حکومت ان کا سراغ لگانے کے لیے کیا کر رہی ہے؟ اصل مجرموں کو پکڑنے میں ناکامی کو چھپانے کے لیے پاکستانی ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی۔

حکومت کے اس اقدام کی حمایت کے لیے ایک عمومی اصول پر زور دیا گیا۔ یعنی پاکستان  ہندوستان میں دہشت گرد بھیجتا ہے۔ لیکن یہ قتل بھی ان میں سے کچھ  نے کیا تھا، کیا اس کے لیے خاطرخواہ ثبوت ہیں؟

جیسے ہی آپ یہ سوال پوچھیں گے قوم پرست آپ پر حملہ کر دیں گے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ پاکستان میں حکومت پاکستان کے خلاف سرگرم دہشت گردوں نے ایسا اس لیے کیا ہو کہ ہندوستان پاکستان پر حملہ کرے اور وہ کمزور ہو جائے۔ کیا یہ دور کی کوڑی ہے؟ جو بھی ہو، ہم نے اس سوال کو کیوں چھوڑ دیا؟

پاکستان نے پوچھا کہ اگر ہندوستان کے پاس اس حملے سے متعلق کوئی معلومات اور ثبوت ہیں تو وہ اسے ظاہر کرے۔ اس نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں کسی بھی تحقیقات کے لیے تیار ہیں۔ لیکن ہندوستانی حکومت نے اس کو نظر انداز کیا اور اپنے لوگوں کو بتاتی رہی کہ اس کے پاس پاکستان کے جرم کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ لیکن وہ ثبوت دینے کو تیار نہیں۔

اس نے یہ کہہ دیا کہ پاکستان خود  دہشت گرد ملک ہے، اس لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔ چونکہ ہمارے ذہنوں میں پاکستان کا منفی امیج ہے، اس لیے ہم  ہر ایسے واقعے کے لیے اس کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

یہ ہماری پرانی عادت ہے۔ ہم نے پلوامہ کا حساب حکومت سے سے نہیں مانگاکیونکہ ہندوستان نے پاکستان کے اندر بالاکوٹ پر حملہ کر دیا تھا۔ اس طرح پلوامہ کا بدلہ لے لیا گیا۔ عوام کو اس انتقام کا نشہ دینے کے بعد حکومت پلوامہ حملے کی وضاحت کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتی اور ہم  بھی نہیں پوچھتے کہ ہمارےجوانوں کو مارنے والے کون تھے۔

چھ سات مئی کے بعد ہندوستانی ٹی وی اور میڈیا کے شور شرابےسے دور کچھ لوگ بین الاقوامی ردعمل کو غور سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ نوٹ کررہے ہیں کہ 22 اپریل کو پہلگام قتل عام کے بعد ہندوستان کے لیےجو بین الاقوامی ہمدردی کا اظہار ہوا تھا، اس نے 6-7 مئی کو ہندوستانی حملے کے بعد محتاط خاموشی کا راستہ اختیار کیا۔ سب نے دیکھا کہ ہندوستانی جہاز بھلے پاکستان کی حدود میں داخل نہ ہوئے ہوں، پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی تو ہوئی  ہی تھی۔

پاکستان کا دفاعی اقدام متوقع تھا۔ وہ ہمیں برا لگے، لیکن دنیا نے اسے فطری مانا۔ اس کارروائی میں ہندوستان کے سرحدی علاقوں کو نقصان پہنچا اور کئی ہندوستانی مارے گئے۔ ہندوستانی حکومت نے یہاں بھی غفلت کا مظاہرہ کیا۔ اگر وہ حملہ کرنے جا رہی تھی تو اسے اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ جوابی حملہ ہو گا اور سرحدی علاقوں میں لوگوں کی حفاظت کے لیے انتظامات کیے جانے چاہیے۔ وہ نہیں کیا گیا اور ہندوستانی حکومت نے انہیں پاکستانی حملوں کے سامنے چھوڑ دیا۔

ہندوستان اپنی کارروائی کے لیے نہ صرف اپنے پڑوسیوں، بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک سے کھلی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اس کے وزراء نے تقریباً ہر ملک کے دروازے کھٹکھٹائے، لیکن کسی نے کھل کر پاکستان کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی ہندوستان کے اقدام کی حمایت کی۔

ہندوستانی حکومت کے اس جارحانہ اقدام کی حمایت صرف ہندوستانی ٹی وی چینل اور میڈیا کر رہے تھے۔ دراصل وہ ہندوستانی فوج سے کہیں آگے جا کر پاکستان کو تقریباً فتح کر چکا تھا۔

ہندوستان کے ساتھ صرف اسرائیل آیا۔ نہ امریکہ، نہ روس اور نہ ہی کسی یورپی ملک نے ہندوستان کے اس حملے کی حمایت کی۔ بلکہ سب نے مشورہ دیا کہ دونوں ممالک کو مل کر تنازعات کو جلد از جلد ختم کرنا چاہیے۔ اس طرح ہندوستان اس کارروائی کے بعد دنیا میں اکیلاپڑ گیا۔ کسی بھی ملک نے پاکستان کی جوابی کارروائی کی مذمت نہیں کی۔ آخر اسے اپنی خودمختاری کی حفاظت کا حق حاصل تھا۔یہ ہم نہ مانیں، دنیا تویہی  مانتی ہے۔

ہندوستان کہتا رہا کہ اس نے صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیاتھا،  فوجی ٹھکانوں پر نہیں، لیکن دنیا پاکستان کے اس دعوے سے غیر متفق نہیں تھی کہ ہندوستان نے اس کی سرحد کی خلاف ورزی کی ہے، اس کی خودمختاری پر حملہ کیا ہے اور پاکستان کو اپنی خودمختاری کی حفاظت کا حق ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس کارروائی کو ایسے پیش کیا جیسے ہندوستان جنگ میں داخل ہو گیا ہو۔ اور اس کا مقصد پاکستان کو تباہ کردینا ہے۔ اس کے برعکس فوج کہتی رہی کہ اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یعنی ہندوستان کی حکمران سیاسی جماعت نے ایک بات کہی  تھی اور فوج نے کچھ اور۔

بی جے پی اور میڈیا کے ملک میں جنگی جنون پیدا کرنے کے دو دن بعد جب امریکی صدر نے اعلان کیا کہ انہوں نے دونوں ممالک کو تنازعات سے بچنے کے لیے راضی کر لیا ہے تو سب سکتے میں آ گئے۔ پاکستان نے فوری طور پر امریکہ کا شکریہ ادا کیا اور جنگ بندی کا اعلان کیا۔ اس کے بعد ہندوستان نے بھی امریکہ کا نام لیے بغیر اس کی تصدیق کی۔ اس طرح ایک ہی جھٹکے میں ہندوستان کو پاکستان کے برابر لا کھڑا کیا گیا۔

ہم خود کو اپنی نگاہ میں اونچا مان لیں، لیکن اب دنیا ہندوستان اور پاکستان ایک ساتھ ہی بول رہی ہے۔ یہ اس تصادم کا ماحصل ہے۔ دنیا میں ہمارا قد بڑھانہیں بلکہ کم ہوگیا ۔ امریکہ بار بار کہہ رہا ہے کہ اس نے دونوں ممالک کو دھمکی دی کہ وہ ان کے ساتھ تجارت نہیں کریں گے اس لیے دونوں نے محاذ آرائی ختم کر دی۔ ہندوستان  اس کا مقابلہ کرنے کے قابل بھی نہیں ہے۔

ہندوستانی حکومت اپنے عوام کو بتا رہی ہے کہ ہندوستان کے حملوں سے خوفزدہ پاکستان نے جنگ بندی کی فریاد کی۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ ہندوستان بھی روز روز پاکستانی ڈرون حملوں کی لہروں کو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اگرچہ شمالی ہندوستان میں لوگوں کا راشٹروادی خون ابل رہا ہو، پاکستان کی سرحد سے متصل علاقوں میں خوف و ہراس اور بے چینی بڑھ رہی تھی۔ یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکتا تھا۔ ہندوستان بھی توقف چاہتا تھا۔

لیکن اس وقفے نے قوم پرستوں کو سخت مایوس کیا۔ جنگ کی پیاس نہ بجھ سکی۔ اس مایوسی کا اظہار قوم پرستوں کے ذریعے خارجہ سکریٹری وکرم مصری پر نفرت انگیز آن لائن حملوں سے ہوا۔ گویا انہوں نے خود ہی بریک لینے کا فیصلہ کر لیاہو۔ ان کے اہل خانہ اور بیٹی کو فحش حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی حکومت نے اپنے سکریٹری کے خلاف اس نفرت انگیز مہم پر تنقید نہیں کی۔ آخر وہ اپنے حامیوں کو کچھ کیسے کہہ سکتی تھی؟

پھر وزیراعظم کی انٹری ہوئی۔ اپنی خاموشی توڑتے ہوئے پاکستانیوں کے خون کے پیاسے اور توقف سے مایوس اپنی عوام کومطمئن کرنے کے لیےوزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ 22 اپریل کے قتل عام کا بدلہ لے لیا گیا ہے۔ جنہوں نے ہماری ماؤں بہنوں کے ماتھے کا سیندور اجاڑا تھا ان سے بدلہ لیا گیا ہے ۔ بار بار سیندور لفظ  پر زور دے کر انہوں نے ہندوستان کی اس کارروائی کو ہندو رنگ  دیا۔

انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ آپریشن سیندورور جاری ہے۔ ہم نے اسے صرف روکا ہے، لیکن اسے ختم نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن سیندور اب ‘نیو نارمل’ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ہندوستان میں کہیں بھی دہشت گرد حملہ ہوتا ہے تو آپریشن سیندور دوبارہ شروع ہوگا۔ یہی بات ایک روز قبل فوجی حکام نے بھی کہی تھی۔ انہوں نے کہا تھاکہ اب کسی بھی دہشت گردانہ حملے کو ہندوستان کی خودمختاری پر حملہ تصور کیا جائے گا۔

یہ بہت خطرناک نظریہ ہے۔ اس کا مطلب اب یہ ہے کہ اگر پولیس اپنا کام نہیں کرتی ہے تو فوج اس کی تلافی کرے گی۔ اس سے پاکستان کے ساتھ ہندوستان کے سرحدی علاقے ہمیشہ کے لیے غیر محفوظ ہو جاتے ہیں۔ ایک مستقل جنگ جیسی صورتحال پیدا کر دی  گئی ہے۔ اس کی آڑ میں حکومت اب عوام سے غیر مشروط حمایت کا مطالبہ کرے گی۔ کسی بھی قسم کی تنقید کو ملک دشمن قرار دیا جائے گا۔ اپوزیشن کی غیر مشروط حمایت کے باوجود حکومت نے خصوصی پارلیامانی اجلاس بلانے کے مطالبے کو نظر انداز کر دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جمہوری عمل ملتوی ہو چکا ہے۔

سوال پوچھنا منع ہے۔ کیونکہ سوالات کے جوابات سے ریاست کی کمزوری آشکار ہوگی اور دشمن اس کا فائدہ اٹھائے گا۔

اپوزیشن بھی قوم پرستی کے طوفان سے ہل گئی اور بار بار حکومت کو 22 اپریل کا بدلہ لینے کے لیے کچھ نہ کرنے کا طعنہ دیا۔ انہوں نے بغیر کوئی  ثبوت مانگے اس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا۔ ہندوستان کے بہت سے ذی فہم  لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ان کے پاس حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا۔

اپوزیشن نے حکومت پر نظر رکھنے کا اپنا فرض چھوڑ دیا، لیکن بی جے پی نے ہندوستانی کارروائی کو ہائی جیک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ توقف کے بعد، اس نے قوم پرستوں کے جنون کو برقرار رکھنے کے لیے ترنگا یاترا شروع کر دی  ہے۔ اپوزیشن حکومت سے بنیادی اور حقیقی سوالات پوچھنے کی ہمت نہیں کر پا رہی۔

جنگ کا خوف پیدا کر کے نئی وفاداریاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ محکمہ تعلیم نے تعلیمی اداروں کو ‘نیشن فرسٹ’ مہم چلانے کو کہا ہے۔ دہلی یونیورسٹی میں وائس چانسلر کےتئیں وفاداری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ وہ پہلے ہی وزیر اعظم سے اپنی وفاداری کا اظہار کر چکے ہیں۔

سرکاری  دعوؤں کو پرکھنے کے بجائے میڈیا اس کا پرچارک  بن گیا ہے۔ لوگ عوام میں بولنے اور لکھنے سے ڈر رہے ہیں۔ کسی بھی ناقد کو خاموش کرنے کی ہرممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ دی وائر، مکتوب میڈیا، آؤٹ لک، چینل 4 پی ایم، ڈاکٹر مادری کاکوٹی، نہا سنگھ راٹھور کو یا تو خاموش کیا گیا یا ان کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی۔

حکومت پر تنقید کرنے پر لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ ابھی ہریانہ ویمن کمیشن نے اشوکا یونیورسٹی کے استاد علی خان کے خلاف کارروائی شروع کی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہندوستان میں آزادانہ سوچ کی جگہ مزید محدودہو گئی ہے۔

ہم پاکستان میں تو جمہوریت چاہتے ہیں لیکن اپنے یہاں اس کی قربانی دینے کو تیار بیٹھے ہیں۔

پہلگام قتل عام اور ہندوستانی حملے اور اس کے بعد کے درمیان جو کچھ ہو رہا تھا اس سے بھی ہمارے سماجی کردار کے بارے میں کچھ پتہ چلتا ہے۔ 22 اپریل کے بعد ہندوستان بھر کے مسلمانوں اور کشمیر کے لوگوں نے اپنے رنج وغم کا اظہار کیا۔ لیکن اس کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے کا سیلاب آ گیا۔ کشمیریوں پر حملے شروع ہو گئے۔ خاص طور پر بنگالی مسلمانوں پر سرکاری حملے شروع ہو گئے۔ انہیں احمد آباد میں گرفتار کیا گیا اور سڑک پر ان کی پریڈ کروائی گئی۔

اس سب کے بارے میں نہ تو حکومت نے کچھ کہا اور نہ ہی میڈیا نے اس پر تنقید کی۔ سکریٹری خارجہ 22 اپریل کے حملہ آوروں کی ہندوستان میں فرقہ وارانہ تصادم پیدا کرنے کی سازش کو ناکام بنانے پر ہندوستانی عوام کی تعریف کررہے تھے۔ لیکن یہ سچ نہیں تھا۔

ہندوستان  میں بی جے پی کے حامیوں نے مسلم مخالف نفرت پھیلائی اور مسلمانوں پر حملہ کیا۔ کشمیریوں کے خلاف نفرت کی مہم تیز ہو گئی۔ مسلمانوں نے یقیناً اپنا صبر برقرار رکھا اور ہندوتوا کی اس نفرت کو برداشت کیا۔ یونیورسٹیوں نے اپنے اداروں میں ہم آہنگی برقرار رکھنے اور کشمیری طلبہ کو یقین دلانے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ وہ قوم پرست پروپیگنڈے میں بھی ضرور شامل ہو گئے۔

بائیس  اپریل کے بعد کے 3 ہفتوں نے ثابت کر دیا کہ ہم بحیثیت معاشرہ بالغ اور ہوش مندنہیں ہیں۔ کوئی بھی غیر معمولی واقعہ ہمیں جڑ سے  ہلا دے  سکتا ہے۔ حکومت کسی بھی صورتحال کو غیر معمولی بنا کر ہماری مکمل وفاداری حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ ہم اپنی تنقیدی بصیرت یا صوابدید کو معطل کرنے کے لیے بھی تیار ہو سکتے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں دہشت گردی کے نام پر مسلم دشمنی اور پاکستان مخالف جذبات کی نئی لہر نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ ہندوستان کا سب سے بڑا مسئلہ مسلمانوں کے تئیں نفرت ہے اور اس سے چھٹکارا حاصل کیے بغیر ہندوستان میں سماجی ہوشمندی  ناممکن ہے۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)

Next Article

یوپی: آپریشن سیندور پر ’اینٹی نیشنل‘ اور ’گمراہ کن‘ پوسٹ کرنے کے الزام میں دو درجن سے زیادہ افراد گرفتار

آپریشن سیندور کو لے کر ہندوستان اور پاکستان کے مابین فوجی کشیدگی کے درمیان یوپی پولیس نے گزشتہ ہفتے ‘اینٹی نیشنل’ اور ‘گمراہ کن’ سوشل میڈیا پوسٹ کے سلسلے میں  کارروائی کی ہے۔ اس میں آگرہ میں تاج محل کو جلانے کاایک اے آئی جنریٹیڈفرضی ویڈیو، پاکستانی فوج کی حمایت کرنے والی تصویریں، ویڈیو اور ڈسپلے پکچر وغیرہ شامل ہیں۔

جموں کے پونچھ ضلع میں 9 مئی کو ہندوستان-پاکستان سرحد پر واقع ایک گاؤں میں ایک مقامی رہائشی اپنے گھر پر توپ کی گولہ باری کے  اثرات کو اپنی ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں سے باہر دیکھتے ہوئے۔ (تصویر: ناظم علی منہاس)

جموں کے پونچھ ضلع میں 9 مئی کو ہندوستان-پاکستان سرحد پر واقع ایک گاؤں میں ایک مقامی رہائشی اپنے گھر پر توپ کی گولہ باری کے  اثرات کو اپنی ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں سے باہر دیکھتے ہوئے۔ (تصویر: ناظم علی منہاس)

نئی دہلی: آپریشن سیندور کے بعد ہندوستان اور پاکستان کےمابین فوجی کشیدگی کے درمیان اتر پردیش پولیس نے گزشتہ ہفتے ‘اینٹی نیشنل’ اور ‘گمراہ کن’ سوشل میڈیا پوسٹ کےسلسلے میں  کارروائی کی ہے۔

اس میں آگرہ میں تاج محل کو جلانے کا ایک اے آئی جنریٹیڈفرضی ویڈیو؛ شاہجہاں پور میں ایک ‘دہشت گردانہ حملہ’ جو حقیقت میں کبھی ہوا ہی نہیں؛پاکستانی فوج کی حمایت کی تصویریں، ویڈیو اور ڈسپلے پکچرز وغیرہ شامل ہیں۔

پولیس نے بتایا کہ انہوں نے اب تک ریاست بھر سے کم از کم 25 افراد کو سوشل میڈیا پر ‘اینٹی نیشنل’ اور ‘گمراہ کن’ پوسٹس کے ذریعے افواہیں پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ 40 سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے خلاف کارروائی کر کے انہیں بلاک کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔

اس کارروائی میں مبینہ طور پر پاکستان کی حمایت کرنے والا مواد شیئر کرنے یا پوسٹ کرنے پر لوگوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ اس میں مورفڈ اور اے آئی جنریٹیڈ پوسٹ بھی شامل ہیں۔

یوپی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کی پوسٹ کی شناخت کے لیے 24 گھنٹے سوشل میڈیا پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

اس سلسلے میں بریلی میں پولیس نے فخرالدین نامی ایک شخص کو گرفتار کیا ہے،جنہوں نے انسٹاگرام پر پاکستانی فوج کی تعریف کرتے ہوئے ایک ویڈیو شیئر کیا تھا۔ اس ویڈیو میں پاکستانی جھنڈا دیکھا گیا تھا۔

بریلی کی پولیس سپرنٹنڈنٹ (جنوبی) انشیکا ورما نے کہا کہ فخرالدین کو اپنے فیس بک پروفائل پر ‘اینٹی نیشنل’ مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دفعہ 353 (2) کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے، جو مختلف مذہبی، نسلی یا علاقائی گروہوں یا ذاتوں کے درمیان عداوت، نفرت یا تعصب پیدا کرنے کے امکان والےجھوٹے بیان، افواہ یا خطرناک خبریں بنانے، شائع کرنے یا پھیلانے سے متعلق ہے۔

بعد میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شیئر کیا گیا، جس میں فخرالدین کو پولیس کی حراست میں دکھایا گیا، جس میں وہ  واضح طور پر غیر آرام دہ حالت میں’پاکستان مردہ باد’ چلا رہے تھے۔

پاکستانی چینل کی کلپ اور ویڈیو پوسٹ شیئر کرنے پر کارروائی

اس کے علاوہ سنبھل میں جماعت علی نامی شخص کو گرفتار کیا گیا، جن پر مبینہ طور پر ایک فیس بک ویڈیو شیئر کرنے کا الزام ہے، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان نے ایک ہندوستانی رافیل لڑاکا طیارہ مار گرایا ہے اور ہندوستانی پائلٹ کو بندی بنالیا ہے۔

ان کے خلاف درج ایف آئی آر کے مطابق، علی پر ایک پاکستانی چینل کی کلپ شیئر کرنے کا الزام ہے ،جس میں 2019 میں بالاکوٹ فضائی حملے کے بعد ہندوستانی لڑاکا پائلٹ ابھینندن ورھمان کے گرفتار کیے جانے کے ساتھ رافیل جیٹ کو مبینہ طور پر گرائے جانے کا موازنہ کیا گیا تھا۔

الکٹرک ٹاور پر کام کر کے اپنی روزی کمانے والے علی کے خلاف بی این ایس کی دفعہ 152 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، جو ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والی کارروائیوں سے متعلق ہے۔

پولیس نے اپنی شکایت میں کہا ہےکہ ان کا فعل ہندوستان کے خلاف علیحدگی پسندی کے جذبات کو جنم دے سکتا ہے اور یہ ہندوستان کے اتحاد اور سالمیت پر کاری ضرب ہے۔

بریلی میں 22 سالہ درزی محمد ساجد کو بھی پاکستان کی حمایت میں ویڈیو پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا۔

شاہجہاں پور میں تین سوشل میڈیا پروفائل کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے، جن میں ایک ‘انکت کمار 71010’ اور ‘پروندا.2023’ شامل ہے۔ ان پر ضلع میں مبینہ دہشت گردانہ حملے کا فرضی ویڈیو پوسٹ کرنے کا الزام ہے۔

پولس نے تاج محل پر حملے کا اے آئی جنریٹیڈ ویڈیو پوسٹ کرنے پر کئی سوشل میڈیا صارفین کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا ہے۔

باغپت میں پاکستان کے حق میں پوسٹ کرنے کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان کی پوسٹ پاکستان کی حمایت کو فروغ دیتی ہے اور حکومت کے خلاف ہے۔

اسی طرح کوشامبی میں افسر علی گھوسی نامی ایک شخص کو ایک کارٹون پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے، جس میں ایک شخص کو ہندو دیوتا کوقتل کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور اس کا کیپشن ‘پاکستان زندہ باد’ دیا گیا ہے۔ تاہم، اس کا فریم بنگلہ دیش کا لگتا ہے، جیسا کہ قومی پرچم سے ظاہر ہوتا ہے۔

پاکستانی فوج کو ‘طاقتور’ کہنے اور پاکستانی پرچم کااستعمال کرنے کا الزام

اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے نوشاد کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے جس میں پاکستانی فوج کو ‘طاقتور’ بتایا گیا تھا۔

بریلی میں ساجد نامی شخص کو سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر’پاکستان زندہ باد’ پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ بعد ازاں، سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیے گئے ایک ویڈیو میں اسے پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں ‘پاکستان مردہ باد’ کے نعرے لگاتے ہوئے دکھایا گیا۔

مظفر نگر میں ذیشان نامی شخص کو ہندوتوا گروپوں کے احتجاج کے بعد گرفتار کیا گیا،جس میں اس پر ایک ویڈیو پر پاکستان کے حق میں تبصرہ پوسٹ کرنے کا الزام لگایا گیا۔

ایک اور شخص محمد ریاض کو سنبھل میں مبینہ طور پر پاکستانی پرچم کو اپنی اسٹوری  میں استعمال کرنے اور ریل شیئر کر کے ہندوستان کے خلاف فوجی کارروائی میں کھلے عام پاکستان کی حمایت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

اس معاملے پر سنبھل کے ایس پی کرشن بشنوئی نے کہا، ‘اپنی پوسٹ میں انھوں نے کہا ہے کہ ‘چاہے جو ہو جائے، ہم صرف پاکستان کا ساتھ دیں گے۔’

پولیس افسر نے کہا کہ ریاض کی پوسٹ جان بوجھ کر کی گئی ،جس میں’ہندوستان میں علیحدگی پسند رجحانات’ کو فروغ دیا گیا۔

میرٹھ میں کچھ دائیں بازو کے گروپوں کی جانب سےدلشاد نامی شخص کے وہاٹس ایپ ڈسپلے پکچرکے طور پر پاکستانی پرچم والی ایک لڑکی کی تصویر پراعتراض کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا۔

مظفر نگر میں انور جمیل نامی شخص کو سوشل میڈیا پر ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگانے کا ایک بغیر تاریخ والا ویڈیو شیئر کیے جانے کے بعد گرفتار کیا گیا۔

اپنے چھوٹے سے ویڈیو کے ‘وائرل’ ہونے کے بعد، جمیل نے ایک کلپ اپلوڈ کرکے واضح کیا کہ متنازعہ ویڈیو پرانا تھا اور اس نے یہ تبصرہ آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ کے دوران اپنے دوست کے ساتھ شرط لگانے کے حصے کے طور پر کیا تھا۔

مظفر نگر سٹی سرکل آفیسر راجو کمار ساب نے کہا کہ اس ویڈیو کی تصدیق کی جا رہی ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

’ہندوستان نے بغیر کسی قانونی عمل کے 38 روہنگیا پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا‘: سپریم کورٹ میں عرضی دائر

مشتبہ حالات میں پورٹ بلیئر لے جائےجانے کے بعد، روہنگیا پناہ گزینوں کوہندوستانی بحریہ کے ایک جہاز پر چڑھایا گیا اور پھر انہیں میانمار کے قریب سمندر میں پھینک دیا گیا۔

روہنگیا مہاجرین کشتیوں سے اترتے ہوئے۔ (تصویر: فلکر/پراچتائی، CC BY-NC-ND 2.0 DEED)

روہنگیا مہاجرین کشتیوں سے اترتے ہوئے۔ (تصویر: فلکر/پراچتائی، CC BY-NC-ND 2.0 DEED)

نئی دہلی: میرے بھائی (میانمار میں) ہمارے گاؤں کوجلائے جانے کے بعد ہندوستان آئے تھے۔ پاؤں میں گھاؤ ہونے کے باوجود انہوں نے ہندوستان پہنچنے کے لیے کئی دنوں تک پیدل سفر کیا تھا۔ اس دوران ہمارے والدین کا انتقال ہو گیا تو انہیں راستے میں ہی دفن کیا گیا۔ یہاں آنے کے بعد وہ  بس زندگی کوکسی طرح جی رہے تھے۔ پچھلے دنوں  جب (دہلی) پولیس آئی اور کہا کہ بایو میٹرک کے لیےچلنا ہے، تو انہوں نے بھروسہ کر لیا اور چلے گئے۔ یہ آخری بار تھا جب ہم نے انہیں دیکھا تھا۔ *امینہ، نے کہا،جن کے بھائی ان 38 روہنگیا پناہ گزینوں کے گروپ میں شامل تھے جنہیں مبینہ طور پر ہندوستانی حکام نے بین الاقوامی سمندری علاقے میں پھینک دیا۔

اب، سپریم کورٹ میں دو پناہ گزینوں کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ نابالغ – جن میں 15-16 سال کی بچیاں بھی شامل تھیں- 66 سال تک کے بزرگ، اور کینسر، ٹی بی، دل کی بیماری اور ذیابیطس جیسی سنگین بیماریوں میں مبتلا افراداس  ملک بدری کا شکار ہوئے، جس میں  انہیں سمندر میں پھینک دیاگیا۔ یہ روہنگیا پناہ گزین ہندوستان میں اقوام متحدہ کے اعلیٰ کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے ساتھ رجسٹرڈ تھے۔

میڈیا رپورٹس اور پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ 43 روہنگیا پناہ گزینوں کو بین الاقوامی سمندری علاقے میں پھینک دیا گیا، لیکن یو این ایچ سی آر کے سوشل لیگل انفارمیشن سینٹر میں اس معاملے پر کام کرنے والے لیگل  آفیسر دلاور حسین نے دی وائر کو بتایا کہ صحیح تعداد 38 ہے، اور درخواست میں اسے ٹھیک کیا جائے گا۔

‘کسی قانونی عمل کی پیروی نہیں کی گئی، ہم اتنی اذیت برداشت کرچکے ہیں کہ ہمیں اب پتہ  ہےکہ ‘عدالتی عمل’ کیا ہوتا ہے۔ کوئی وارنٹ نہیں تھا، کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی اور ن ہی ان کی بات نہیں سنی گئی۔ ان تمام کو بغیر کسی عدالت میں پیش کیے 24 گھنٹے سے زائد وقت تک مختلف تھانوں میں رکھا گیا۔’ امینہ نے مزید کہا۔

روہنگیا درخواست گزاروں کے وکلاء نے زور دے کر کہا کہ پولیس کی یہ کارروائی نے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 22 اور بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کے ضابطوں کی خلاف ورزی ہے، جو 24 گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیشی اور من مانی حراست کی ممانعت کی بات کرتا ہے۔

ان پناہ گزینوں کو مبینہ طور پر ہندوستانی حکومت کے اہلکاروں نے میانمار کے قریب سمندر میں پھینک دیا، اور وہ بہہ کر تیرتے ہوئے اسی ملک واپس پہنچ  گئے جہاں سے وہ اپنی جان بچاکر بھاگے تھے۔

انہیں دھوکہ دیا گیا، دہلی پولیس نے ان سے جھوٹ بولا: دلاور حسین

چھ مئی کی شام کو دہلی کے اتم نگر، وکاس پوری اور ہستسل کے 38 روہنگیا پناہ گزینوں کو ‘بایو میٹرک لینے کے نام پر’ پولیس اسٹیشن بلایا گیا اور حراست میں لیا گیا۔ درخواست میں کہا گیا کہ 7 مئی کو انہیں اندرلوک حراستی مرکز بھیجا گیا اور بایو میٹرک عمل مکمل ہونے کے بعد رہائی کا یقین دلایا گیا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

حسین نے کہا کہ پوری طرح سےقواعد کی خلاف ورزی کی گئی۔ انہوں نے پولیس کی اس کارروائی پر سوال اٹھایا جس میں اسپیشل جوینائل پولیس یونٹ کو شامل کیے بغیر ایک خاتون اور ایک نابالغ کو تھانے میں ہی رکھا گیا۔ ‘اگر پولیس نے ایسا کیا تو ایف آئی آر درج کی جانی چاہیے تھی، لیکن انہوں نے کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی۔ پھر انہوں نے اسے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیے بغیر رات بھر تھانے میں رکھا اور اسے سیدھے حراستی مرکز بھیج دیا، جو کہ آرٹیکل 22 کی خلاف ورزی ہے۔’

بایو میٹرک لینے کے بعدان کے ‘ہاتھ پیرباندھ کر، آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی اورانڈمان کے پورٹ بلیئر لے جا کر ڈی پورٹ کر دیا گیا۔’

ضابطے کی پیروی نہیں کی گئی؟

فارنرز ریجنل رجسٹریشن آفس (ایف آر آر او) کی جانب سے ملک بدری کا کوئی مستقل حکم (اسٹینڈنگ آرڈر)نہیں تھا اور نہ ہی ملک بدری کے حکم کی کوئی نوٹس یا کاپی – جو صرف ایف آر آر او جاری کر سکتا ہے – دیا گیا تھا، تو ان لوگوں کو کیسے ڈی پورٹ کیا جا سکتا تھا؟

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے جسٹس سوریہ کانت، دیپانکر دتا اور این کوٹیشور سنگھ کی بنچ کو یقین دلایا تھا کہ بغیر دستاویزوالے روہنگیا مہاجرین کی ملک بدری موجودہ قوانین کے تحت مناسب عدالتی عمل کے بعد کی جائے گی اور یہ بھی کہا کہ ہندوستان انہیں پناہ گزینوں کے طور پر تسلیم نہیں کرتا۔

روہنگیا پناہ گزینوں کی ملک بدری پر بات کرتے وقت، دو باتوں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے؛ پہلی بات یہ ہے کہ ظلم و ستم سے بھاگنے والے پناہ گزینوں- جیسے روہنگیا – کی ملک بدری خود ہندوستانی آئین کے خلاف ہے۔ این ایچ آر سی بنام ریاست اروناچل پردیش میں سپریم کورٹ نے کہا تھاکہ یہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ تمام افراد کی زندگی اور آزادی کا تحفظ کرے – چاہے وہ شہری ہوں یا غیر شہری – جیسا کہ آرٹیکل 21 کے تحت ضمانت دی گئی ہے۔حالاں کہ اس فیصلے میں  ملک بدری پر مکمل پابندی نہیں ہے، لیکن یہ واضح کرتا ہے کہ کسی بھی فرد کو، خاص طور پر ایک پناہ گزین کو اس طریقے سے نہیں ہٹایا جا سکتا جس سے اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی کو ملک بدر بھی کرنا پڑے تو اس کے لیے ایک عمل ہوتا ہے یعنی اس شخص کے آبائی ملک کے سفارت خانے سے رابطہ کرنا پڑتا ہے جو اس شخص کی شناخت کی تصدیق کرتا ہے۔ اگر وہ ملک اس شخص کو اپنا شہری سمجھتا ہے، تو وہ سفری دستاویز جاری کرتا ہے۔ تب ہی اس شخص کو ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔

حسین نے سوال اٹھایا،’ہندوستانی حکومت نے ان مہاجرین کو زبردستی اٹھا لیا۔ اگر میانمار کا سفارت خانہ انہیں قبول نہیں کر رہا ہے اور یہ ماننے سے انکار کر رہا ہے کہ یہ لوگ میانمار کے شہری ہیں تو پھر ہندوستانی حکومت ان کو ملک بدر کرنے کے قابل کیسے ہے؟

‘سوچی سمجھی سفاکیت’

پراسرار حالات میں پورٹ بلیئر لائے جانے کے بعد، روہنگیا پناہ گزینوں کے اس گروپ کو 8 مئی کو ایک بحری جہاز پر سوار کیا گیا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہندوستانی بحریہ کا جہاز تھا۔

‘اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ دانستہ طور پر سفاکیت تھی۔’ روہنگیا پناہ گزینوں کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے والے سینئر وکیل کولن گونسالویس نے دی وائر کو بتایا۔

حسین کے مطابق،اس جہاز میں سوار عملے نے بغیر کوئی وجہ بتائے حراست میں لیے گئے افراد کو بے دردی سے زدوکوب کیا۔ ایک جلاوطن خاتون، جو میانمار میں اپنے رشتہ داروں سے رابطہ کرنے میں کامیاب رہی، نے کہا کہ جہاز پر کوئی خاتون اہلکار موجود نہیں تھی اور الزام لگایا کہ اسے ہندوستانی اہلکاروں نے جنسی طور پر ہراساں کیا اور چھیڑ چھاڑ کی۔

جب جہاز میانمار کے ساحلوں کے قریب پہنچا تو مہاجرین کے ہاتھ پاؤں میں بندھی رسیاں ڈھیلی کر دی گئیں تاکہ وہ تیر سکیں۔

انہیں لائف جیکٹ دی گئیں اور پھر پوچھا، ‘ آپ سب انڈونیشیا جانا چاہتے ہیں یا میانمار؟’

ایک پناہ گزین کو کیسے واپس اس ملک میں بھیجا جا سکتا ہے جہاں سےوہ  تشدد کے خوف سے بھاگا ہو؟

جہاز پر کئی  لوگوں نے افسروں سے منت کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ میانمار واپس نہیں جانا چاہتے، وہ انڈونیشیا جانا چاہتے ہیں- اس ملک میں نہیں جہاں انہیں موت، ریپ، تشدد اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

‘انہوں نے حکام سے کہا کہ اگر انہیں واپس میانمار بھیجا گیا تو انہیں  مار دیا جائے گا۔’ حسین نے بتایا۔ لیکن ان کی باتوں کو نظر انداز کر دیا گیا اور گروپ کو بتایا گیا کہ ‘کوئی آئے گا اور آپ کو انڈونیشیا لے جائے گا۔’

‘ایک ایک کرکے پانی میں دھکیلا گیا’

پناہ گزینوں کو ایک ایک کرکے پانی میں دھکیل دیا گیا، یہ کہہ کر کہ کوئی انہیں بچانے آئے گا۔ لیکن کوئی نہیں آیا۔ نہ کوئی نگرانی تھی اور نہ ہی انڈونیشیا کی طرف سے کسی ریسکیو آپریشن کا کوئی اشارہ – انہیں سمندری لہروں  میں اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا۔

تھکان اور کنفیوژن کی حالت میں، پناہ گزینوں نے پاس میں نظر آ رہی  زمین کی طرف تیرنا شروع کیا۔ جب وہ مقامی ماہی گیروں سے ملے اور ان سے بات کی، تو انہیں احساس ہوا کہ وہ اصل میں میانمار میں – تنینتھاری کے علاقے میں واپس آ گئے ہیں۔

ہندوستانی حکومت نے بارہا عدالت میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ چونکہ ہندوستان 1951 کے پناہ گزینوں کے کنونشن یا 1967 کے پروٹوکول کا دستخط کنندہ نہیں ہے، اس لیے روہنگیا ‘حق سے محروم غیر ملکی’ ہیں۔

لیکن حسین نے نشاندہی کی کہ ہندوستان کنونشن اگینسٹ ٹارچر کا دستخط کنندہ ہے، جس کا آرٹیکل 3 واضح طور پر کہتا ہے کہ کسی شخص کو ایسے ملک میں واپس نہیں کیا جا سکتا جہاں اسے تشدد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

‘کیا ہم نے کسی بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے؟ یقینی طور پر’- حسین نے کہا۔

یو این ایچ سی آر انڈیا نے میانمار میں اقوام متحدہ کے دفتر سے رابطہ کیا ہے، جو اب ان 38 افراد کو تلاش کرنے اور ان کی مدد کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن وکلاء ان سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں کر سکے ہیں۔

وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے دی وائر کو بتایا،’معاملہ زیر سماعت ہے۔ ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔’

*رازداری برقرار رکھنے کے لیے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔

پرنئے رائے ایک صحافی اور پروڈیوسر ہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)