راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے وابستہ میگزین آرگنائزرنے اپنے تازے شمارے کی کور اسٹوری میں ای– کامرس کمپنی ایمیزون پر ہندوستان کی شمال–مشرقی ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے لیے فنڈنگ مہیاکرنے کا الزام لگایا ہے۔ کمپنی نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
نئی دہلی: راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے وابستہ میگزین دی آرگنائزر نے اپنے تازہ شمارے کی کور اسٹوری میں ای–کامرس کمپنی ایمیزون پر ملک کی شمال–مشرقی ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے لیے فنڈنگ مہیا کرنےکا الزام لگایا ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، ‘امیزنگ کراس کنکشن’ کے عنوان سے ایک کور اسٹوری میں، میگزین نے یہ بھی الزام لگایا کہ کمپنی کے ‘امریکن بیپٹسٹ چرچ’ نامی تنظیم کے ساتھ مالیاتی روابط ہیں، جس کے بارے میں میگزین کا دعویٰ ہے کہ وہ اس خطے میں ‘تبدیلی مذہب کا ماڈیول’ چلا رہی تھی۔ ایمیزون نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
میگزین کا کہنا ہے کہ ‘ای کامرس کی بڑی کمپنی ایمیزون امریکی بیپٹسٹ چرچ (اے بی ایم ) کے ذریعے چلائے جانے والے کرسچن کنورژن ماڈیول کو فنڈ فراہم کر رہی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ہندوستان کے بڑے مشنری تبدیلی مذہب کے مشن کو فنڈ فراہم کرنے کے لیے ایم این سی کمپنیوں اوراے بی ایم کے ذریعےمنی لانڈرنگ رِنگ چلائی جا رہی ہو۔
میگزین نے یہ بھی الزام لگایا کہ اے بی ایم ہندوستان میں آل انڈیا مشن (اے آئی ایم) کے نام سے ایک محاذ چلا رہا تھا۔ میگزین نے دعویٰ کیا کہ ‘یہ اس کی فرنٹل تنظیم ہے جس نے اپنی ویب سائٹ پر کھلے عام دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے شمال–مشرقی ہندوستان میں 25000 لوگوں کو عیسائی بنایا ہے۔
ایمیزون کے توسط سے، ایمیزون سمائل لوگو کے ساتھ،اے آئی ایم کی فنڈنگ اپیل کی ایک مبینہ ٹوئٹر پوسٹ کا حوالہ دیتے ہوئے میگزین نے کہا، ‘ایمیزون ایک ہندوستانی کی طرف سے ہر خریداری کےعوض میں رقم عطیہ کر کے آل انڈیا مشن آف کنورژن ماڈیول کو اسپانسر کر رہا ہے۔
انڈین ایکسپریس کے رابطہ کرنے پر ایمیزون کے ترجمان نے کہا، ایمیزون انڈیا کا آل انڈیا مشن یا اس سے وابستہ اداروں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ا ایمیزون انڈیا مارکیٹ پلیس پر ایمیزون سمائل پروگرام چلاتاہے۔ جہاں ایمیزون سمائل پروگرام چلایا جاتا ہے، وہاں صارفین ان چیرٹی، جنہیں این جی اوکے ذریعے رجسٹرڈکیا گیا ہے، میں سے کسی کو بھی عطیہ کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ ایمیزون سمائل پروگرام میں شرکت کرنے والے کسی بھی چیرٹی کے خیالات کی توثیق نہیں کرتا ہے۔
دوسری جانب آرگنائزر نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) نے ستمبر میں شائع ہونے والے میگزین کی رپورٹ کے بعد اس معاملے کا نوٹس لیا ہے۔
دی انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے این سی پی سی آر کے چیئرمین پریانک قانون گو نے کہا کہ کمیشن کو ستمبر میں اروناچل پردیش سے یتیم خانوں کے ذریعے غیر قانونی تبدیلی مذہب اور مبینہ طور پر ایمیزون کے ذریعے فنڈز فراہم کرنے کی شکایت موصول ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا، ہم نے فوری طور پر اس معاملے کا نوٹس لیا اور ستمبر میں ایمیزون کو نوٹس بھیجا۔ لیکن ایمیزون نے جواب نہیں دیا… پھر میں نے اکتوبر میں ایمیزون کو ایک سمن جاری کیا اور ایک نومبر کو کمیشن کے دفتر میں ایمیزون انڈیا کے تین ایگزیکٹوز سے ملاقات کی۔
انہوں نے مزید کہا، ایمیزون کے نمائندوں نے ہمیں بتایا کہ ایمیزون انڈیا اور آل انڈیا مشن کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے اور ایمیزون انڈیا سے این جی اوز کو کوئی پیسہ نہیں جاتا ہے۔ انہوں نے ایمیزون امریکہ سے بات کی اور نومبر کے پہلے ہفتے میں ہمیں جواب دیا… ایمیزون انڈیا نے کہا کہ ایمیزون امریکہ نے آل انڈیا مشن کو کچھ فنڈز دیے ہیں۔ انہوں نے ہمیں آل انڈیا مشن کا ایک پتہ بھی دیا ہے جو بیرون ملک کا لگتا ہے۔ اب ہم اس کی مزید تحقیق کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ این سی پی سی آر کی تحقیقات کے دوران کمیشن نے پایا کہ ‘آل انڈیا مشن ہندوستان میں غیر قانونی یتیم خانے چلا رہا ہے’ اور ‘وہ ان یتیم خانوں کے ذریعے بچوں کا مذہب تبدیل کروا رہے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ان کی تحقیقات کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ جب ہم نے ویب سائٹ کی چھان بین شروع کی تو سائٹ بلاک کر دی گئی اور ہمیں تفتیش روکنی پڑی۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، اس کے ذریعے چیک کرنے پر پایا گیا کہ اے آئی ایم کی ویب سائٹ نہیں چل رہی تھی۔ اے بی ایم نےبھی اخبار کی طرف سے اس کی ویب سائٹ پر لکھی گئی ای میل آئی ڈی پر بھیجے گئے میل کا بھی جواب نہیں دیا۔
اس سے قبل ستمبر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں دی آرگنائزر نے دعویٰ کیا تھا کہ جھارکھنڈ میں اے آئی ایم کے دو محاذ ہیں اور اس کے بانی ‘ہندوستان کو بدنام کرنے کی مسلسل مہم’ چلا رہے تھے اور ایک مرکز بھی چلا رہے تھے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ایمیزون کو آر ایس ایس سے وابستہ میگزین یا تنظیم نے نشانہ بنایا ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں آر ایس ایس سے وابستہ سودیشی جاگرن منچ کے قومی کنونشن میں منظور کی گئی قرارداد میں ایمیزون کے ساتھ ساتھ فلپ کارٹ، والمارٹ اور دیگر ای– کامرس کمپنیوں کے کاموں کی سی بی آئی جانچ کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔
اس وقت یہ الزام لگایا گیا تھا کہ یہ کمپنیاں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کاروبار کر رہی ہیں۔
اس سے پہلے ستمبر 2021 میں آر ایس ایس سے منسلک ‘پانچجنیہ’ میگزین نے ایمیزون کو ‘ایسٹ انڈیا کمپنی 2.0’ قرار دیا تھا۔ میگزین کے ایک مضمون میں کہا گیاتھا کہ ‘ایسٹ انڈیا کمپنی نے 18ویں صدی میں ہندوستان پر قبضہ کرنے کے لیے جو کچھ کیا وہ آج ایمیزون کی سرگرمیوں میں نظر آتا ہے۔’