ریزرو بینک آف انڈیا کی جانب سے 2000 روپے کے نوٹ کو واپس لینے کے فیصلے کو صحیح ٹھہرانے کے لیے جو دلائل پیش کیے گئے ہیں، ان میں سے کوئی بھی قابل قبول نہیں ہے۔
ایک غیرمتوقع قدم اٹھاتے ہوئے ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) نے بتایا کہ 2000 روپے کے نوٹوں کو چلن سے واپس لیا جا رہا ہے۔ یہ اعلان آر بی آئی نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے کیا، حکومت کے ذریعے نہیں(جیسا کہ نوٹ بندی کے دوران ہوا تھا)۔ ان نوٹوں کو چلن سے واپس نہیں لیا جا رہا ہے، لیکن درحقیقت یہ فوری طور پر چلن میں نہیں ہوں گے کیونکہ انہیں بینک میں جمع کرنا ہو گا یا اس کوکم ویلیو کے نوٹوں سے بدلنا ہو گا۔
لہذا، کوئی بھی ان نوٹوں کو لین دین میں قبول نہیں کرے گا، جو انہیں چلن سے واپس لیے جانے کے مترادف ہی ہے۔ اس سے کچھ دیر کے لیے عوام میں کنفیوژن کی حالت پیدا ہوگی۔
اس کے علاوہ، اس قدم سے لین دین کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں،بالخصوص چھوٹے کاروبار— مینوفیکچررز اور تاجروں کے لیے—معیشت پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔
وجہ کیا بتائی گئی ہیں؟
آر بی آئی کی طرف سے جاری ریلیز میں اس قدم کے لیے بعض دلائل پیش کیے گئے ہیں۔
پہلا یہ کہ نوٹ بندی کے وقت ان نوٹوں کو متعارف کرانے کا مقصد پورا ہوگیا تھا کیونکہ کم ویلیو کے نوٹ بڑی تعداد میں دستیاب ہوگئے تھے۔ تو دلیل یہ دی گئی ہے کہ ان چھوٹے نوٹوں کی دستیابی خاطر خواہ ہے۔
دوسرا، یہ نوٹ عام طور پر لین دین کے لیے مستعمل نہیں ہیں۔
تیسرا، اندازہ یہ ہے کہ نوٹوں کی زندگی چار سے پانچ سال ہوتی ہے۔ اس لیے، 2016 سے2018 کے درمیان جاری کیے گئے یہ نوٹ ختم ہونے کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں اور اس کو ‘کلین نوٹ پالیسی’ کا حصہ بتایا گیا ہے- اس کا مطلب خواہ کچھ بھی ہو۔
ان میں سے کوئی بھی دلیل قابل قبول نہیں ہے۔ نومبر 2016 میں دیگرہائی ویلیو کے کرنسی نوٹوں کو ہٹانے کی وجہ سے نوٹوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیےان نوٹوں کو نہیں لایا گیا تھا۔ ان نوٹوں کے بارے میں منصوبہ بندی مہینوں پہلے شروع ہوئی تھی۔ نوٹ بندی نومبر 2016 میں کی گئی تھی کیونکہ یہ نوٹ چلن میں آنے ہی والے تھے۔ لہذا، آر بی آئی جو دلیل دے رہی ہے ، یہ دلیل اس کے خلاف ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ اب ان نوٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔
لین دین میں آسانی کے لیےہائی ویلیو کے نوٹ پیش کیے جاتے ہیں، کیوں کہ معیشت کی توسیع ہوتی ہے اور مہنگائی ہوتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ رقم کی ضرورت ہے۔ بالخصوص، ہندوستان میں جہاں بڑی تعداد میں لین دین نقد میں کیا جاتا ہے۔ ملک میں 6 کروڑ سے زیادہ مائیکرو اور میکرو کاروبار ہیں اور تقریباً 11 کروڑ کسان جو اپنے کام کاج میں نقد کا ہی استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ متمول خاندان کسی بھی ایمرجنسی وغیرہ کے لیے احتیاطی طور پر نقد رقم رکھتے ہیں۔
لہذا، 2000 روپے کے نوٹوں کا جمع کیا گیا حصہ درست وجوہات کی بناء پر رکھا جائے گا۔
کس کے پاس ہےکیش؟
اگر یہ مان لیا جائے کہ جن لوگوں کے پاس بڑی مقدار میں بلیک منی ہے، ان کے پاس اوسطاً 10 کروڑ روپے ہیں، تو اگر 3.6 لاکھ کروڑ روپے کی پوری رقم کا استعمال لا دھن رکھنے کے لیےکیا جاتا ہے، تویہ نوٹ صرف 36000 لوگوں کے پاس ہوں گے، تاہم جیسا کہ اوپر استدلال کیا گیا ہے، ایسے نوٹ دوسرے اقتصادی ایجنٹوں کے پاس بھی ہیں، اس لیے2000 روپے کے کرنسی نوٹوں کو کالے دھن کے طور پر رکھنے کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان چند لوگوں کے کالے دھن کو روکنے کے لیے 140 کروڑ کی پوری آبادی متاثر ہوگی اور جن میں سے زیادہ تر کا بلیک انکم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کیونکہ وہ ٹیکس کی حد سے بہت کم کماتے ہیں۔
اس کے علاوہ 2000 روپے کے نوٹوں کی دستیابی اپنے آپ ہی گھٹ رہی تھی – 31 مارچ 2018 کے 6.73 لاکھ کروڑ روپے سے فی الحال 3.62 لاکھ کروڑ روپے تک ہو گئی تھی۔ اگر بینک ان نوٹوں کو جاری کرنا بند کردیں تو تعداد میں اور کمی آئے گی۔ لہذا، ان نوٹوں کو چلن سے باہر کرنے اور معیشت میں غیر یقینی صورتحال پیدا کرنے کی کوئی جلدی نہیں تھی۔
لین دین کو آسان بنانے کے لیے2000 روپے کے نوٹ متعارف کرائے گئے تھے۔ لیکن اگر ان کی مقدار کو بتدریج کم کیا جا رہا ہے تو قدرتی طور پر ان کا استعمال کم ہو جائے گا۔ یہ ایک ناقص دلیل ہے کہ چونکہ وہ زیادہ استعمال میں نہیں تھے اس لیے انہیں مکمل طور پر واپس لیا جا سکتا ہے۔ معیشت میں ان کی ضرورت بنی رہتی ہے۔
یہ دلیل کہ نوٹوں کی زندگی ایکس یاوائی سال ہے، اس لیے تمام نوٹوں کو چلن سے واپس لینے کی ضرورت ہے، یہ بھی ناقص دلیل ہے۔
بینک میں آنے پر گندے نوٹوں کومعمول کے مطابق ہٹا دیا جاتاہے۔ کسی کو ان نوٹوں کو بھی واپس لینے کی ضرورت نہیں ہے جو گندے نہیں ہیں اور استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، چونکہ یہ کہا گیا کہ ان نوٹوں کا چلن کم ہو گیا ہے، اس لیے ان کے گندے ہونے کا امکان نہیں ہے اور وہ زیادہ دیر تک چل سکتے ہیں۔
پھر یہ قدم کیوں؟
شاید حکمران جماعت حال ہی میں ہوئے کرناٹک انتخابات کے دوران ہونے والی تنقید سے متاثر ہوئی ہے۔ ’40 پرسینٹ سرکار’ کے نعرے نے حکمران جماعت کی شبیہ کو داغدار کیا تھا۔ اس لیے، جس طرح نوٹ بندی کا استعمال یہ تاثر پیدا کرنے کے لیے کیا گیا تھا کہ حکومت کالے دھن کے خلاف سرگرم ہے، اب بھی ایسا ہی کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس نے 2016 میں کام کیا تھا، جب غریبوں نے اس بات کو مان لیا تھا کہ حکومت کالے دھن رکھنے والوں کے خلاف کام کر رہی ہے۔
بات یہ ہے کہ کیا کاٹھ کی ہانڈی پھر چڑھےگی؟ کیا یہ طریقہ دوبارہ کام کرے گا؟ شاید- نہیں، کیونکہ نوٹ بندی کے بعد بھی یہ محسوس کیا گیا کہ اس قدم کا کالادھن کمانے والوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ چلن میں موجود نوٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے، جس سے چھوٹے اور مائیکرو سیکٹر کی اکائیاں متاثر ہوتی ہیں جو کیش میں لین دین کرتے ہیں۔ اس سے زراعت کا کاروبار بھی متاثر ہوگا۔ ان تمام لوگوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ بڑے یونٹس کو مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ وہ فارمل بینکنگ چینلوں اور الکٹرانک ٹرانسفر کا استعمال جاری رکھیں گے۔ لیکن، اگر ان آرگنائزڈ سیکٹر پر پڑنے والے اثرات سے معیشت مزید سست ہوتی ہے، تو بے روزگاری بڑھے گی، ساتھ ہی غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔
اس نوٹ بندی کے دوران عام آدمی کو نقدی کی کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ ان میں سے بہت کم کے پاس 2000 روپے کے نوٹ ہیں۔ لیکن، وہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور آمدنی میں کمی سے بالواسطہ طور پر متاثر ہوں گے۔ وہ روزانہ بدعنوانی کا شکار ہوتے ہیں جسے ’40 پرسینٹ سرکار’ کہا گیاتھا۔ اور یہ بڑھ ہی رہا ہے، کم نہیں ہو رہا۔
کالے دھن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہر سطح پر جوابدہی اور شفافیت کی ضرورت ہے نہ کہ نوٹ بندی کے کسی چھوٹے ایڈیشن کی ۔
(ارون کمار جے این یو میں معاشیات کے پروفیسررہےہیں۔)
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)