افغانستان کے قندھار ضلع میں اسپن بولڈک کےمرکزی بازار کےعلاقےپرپھرسے قبضہ کرنے کےلیے افغان اسپیشل فورسز طالبان کے ساتھ لڑ رہے تھے،جب خبررساں ایجنسی رائٹرس کے فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی اور ایک سینئر افغان اہلکارہلاک ہوگئے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے یہاں پرجنگ جاری ہے۔ ملک سے امریکی افواج کےانخلا کے بیچ سرکاراور طالبان جنگجوؤں کے بیچ لڑائی تیز ہو گئی ہے۔
خبررساں ایجنسی رائٹرس کے لیے کام کرنے والےپیولٹزرانعام یافتہ ہندوستانی فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی افغانستان میں جاری جنگ کی کوریج کرنے کےدوران جمعہ کو ہلاک ہوگئے۔واقعہ کے وقت وہ افغان فورسز اورطالبان کے بیچ قندھار میں ہو رہی لڑائی کو کور کر رہے تھے۔
افغانستان کے قندھار ضلع میں اسپن بولڈک کے مرکزی بازارکے علاقے پر پھر سے قبضہ کرنے کے لیے افغان اسپیشل فورسز طالبان کے ساتھ لڑ رہے تھے، جب صدیقی اور ایک سینئر افغان اہلکار مارے گئے۔
صدیقی ممبئی کے رہنے والے تھے۔ انہیں رائٹرس کے فوٹوگرافی اسٹاف کے ممبر کے طور پر پیولٹزر انعام ملا تھا۔ انہوں نے دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اقتصادیات میں گریجویشن کیا تھا اور 2007 میں جامعہ کے اےجے کے ماس کمیونی کیشن ریسرچ سینٹر سے ماس کمیونی کیشن کا مطالعہ کیا تھا۔ وہ 2010 میں رائٹرس سے جڑے تھے۔
طالبان نے اس ہفتے قندھار ضلع کے اسپن بولڈک پر قبضہ کر لیا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے یہاں پر لڑائی جاری ہے۔ ملک سے امریکی افواج کے انخلا کے بیچ سرکار اور طالبان جنگجوؤں کے بیچ لڑائی تیز ہو گئی ہے۔
ہندوستان میں افغانستان کے سفیر فرید مامونذزی نےجمعہ کو ٹوئٹ کیا،‘گزشتہ رات قندھار میں میرے دوست دانش صدیقی کے ہلاکت کی خبر سن کر بہت دکھ پہنچا۔ پیولٹزر انعام یافتہ ہندوستانی صحافی افغان سیکیورٹی فورسزکے ساتھ وہاں پر تھے۔’
Deeply disturbed by the sad news of the killing of a friend, Danish Seddiqi in Kandahar last night. The Indian Journalist & winner of Pulitzer Prize was embedded with Afghan security forces. I met him 2 weeks ago before his departure to Kabul. Condolences to his family & Reuters. pic.twitter.com/sGlsKHHein
— Farid Mamundzay फरीद मामुन्दजई فرید ماموندزی (@FMamundzay) July 16, 2021
انہوں نے مزید کہا، ‘دو ہفتے پہلے ان کے کابل روانہ ہونے سے پہلے میری ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ ان کے اہل خانہ اوررائٹرس سے اظہار تعزیت۔’ذرائع نے بتایا کہ قندھار کےاسپن بولدک ضلع میں جھڑپوں کے دوران وہ مارے گئے۔ وہ گزشتہ کچھ دنوں سے قندھار میں کوریج کر رہے تھے۔
افغانستان میں ہندوستانی سفارت خانے کے ذرائع نے بھی دی وائر کو صدیقی کی ہلاکت کی خبر کی تصدیق کی ہے۔
افغانستان کی قومی مفاہمت کونسل کے صدرعبداللہ عبداللہ نے بھی ان کی وفات پر اپنے دکھ اورافسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘قندھار میں جنگ کو کور کرتے ہوئے رائٹرس کے چیف فوٹوگرافر اور پیولٹزر انعام یافتہ دانش صدیقی کی موت کے بارے میں سن کر گہرا دکھ ہوا۔ میں ان کے اہل خانہ ، رائٹرس اور میڈیا سے اظہار تعزیت کرتا ہوں۔ ان کی روح کو سکون ملے۔’
رائٹرس کے مطابق، صدیقی پاکستانی سرحد کے پاس افغان سیکیورٹی فورسز اور طالبان لڑاکوں کے بیچ جھڑپ کو کور کر رہے تھے، جب وہ مارے گئے۔ اس دوران ایک سینئر افغان اہلکار بھی مارے گئے تھے۔
The Humvee in which I was travelling with other special forces was also targeted by at least 3 RPG rounds and other weapons. I was lucky to be safe and capture the visual of one of the rockets hitting the armour plate overhead. pic.twitter.com/wipJmmtupp
— Danish Siddiqui (@dansiddiqui) July 13, 2021
قندھار سے صدیقی کی تازہ ترین رپورٹ صرف تین دن پہلے شائع ہوئی تھی، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ جن سیکیورٹی فورسز سے جڑے تھے، ان پر طالبان کے حملے ہوئے تھے۔
خبررساں ایجنسی رائٹرس کے صدر مائکل فرائڈنبرگ اور ایڈیٹر ان چیف ایلیسنڈرا گیلونی نے ایک بیان میں کہا، ‘ہم اس علاقے میں حکام کے ساتھ کام کرتے ہوئے مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دانش ایک بہترین صحافی ، ایک محبت کرنے والے شوہر اورباپ اور ایک بہت پیار کرنے والے ساتھی تھے۔ اس برے وقت میں ہماری ہمدردی ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہے۔’
صدیقی نے مبینہ طور پر رائٹرس کو بتایا تھا کہ جنگ کی رپورٹ کرتے ہوئے گولی لگنے سے ان کے ہاتھ زخمی ہو گئے تھے۔ جب طالبان جنگجو اسپن بولڈک میں لڑائی سے پیچھے ہٹ گئے تو ان کا علاج کیا گیا اور وہ ٹھیک ہو رہے تھے۔
دانش صدیقی ہندوستان میں رائٹرس کی ملٹی میڈیا ونگ کے سربراہ بھی تھے۔ شہریت قانون (سی اےاے) کے مظاہرے اورمہلک کورونا وائرس کی دوسری لہر کے دوران ان کے کام کو حال ہی میں میڈیا اشاعتوں میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا تھا۔ مہاماری کے دوران آخری رسومات کی ڈرون کیمرے سے لی گئیں تصویروں نے عالمی سطح پر توجہ حاصل کی تھی کہ اس وقت ہندوستان میں کتنی بری حالت تھی۔
صدیقی نے اپنی ٹیم کے دوسرے لوگوں کے ساتھ روہنگیاپناہ گزینوں کے بحران پر اپنے کام کے لیے 2018 میں پیولٹرزایوارڈ جیتا تھا۔ صدیقی نے تب اسکرال ڈاٹ ان سے بات چیت میں کہا تھا، ایک تصویر کو لوگوں کو متوجہ کرنا چاہیے اور انہیں بنا زور کے پوری کہانی بتانا چاہیے۔ آپ خاتون کی بے بسی اور تھکاوٹ کو دیکھ سکتے ہیں، جو بادلوں کے ساتھ پس منظر میں ہو رہے واقعات کے ساتھ جوڑی گئی ہیں۔ یہی وہ فریم تھا، جسے میں دنیا کو دکھانا چاہتا تھا۔
رائٹرس سے پہلے صدیقی کے کام کو دی گارڈین، نیویارک ٹائمس، واشنگٹن پوسٹ، الجزیرہ ا اورمتعدد ہندوستانی اور بین الاقوامی اشاعتوں میں شائع کیا گیا تھا۔
سال2010کے بعد سےرائٹرس فوٹو جرنلسٹ کےطورپرصدیقی نےافغانستان اوعراق میں جنگ،روہنگیاپناہ گزینوں کےبحران ، ہانگ کانگ میں جمہوریت کے حامی مظاہروں اور نیپال کے زلزلےکو کور کیا تھا۔
معلوم ہو کہ جنگ سے شکستہ افغانستان سے امریکی افواج کی روانگی اور ملک کے اکثر علاقوں پر تیزی سے بڑھتے طالبان کے اختیارات کے بیچ شدت پسند گروپ نے گزشتہ دنوں دعویٰ کیا تھا کہ ملک کے 85 فیصد حصہ پر اب اس کا قبضہ ہے۔ حالانکہ افغانستان سرکار کے اہلکاروں نے اس دعوے کو خارج کر دیا تھا کہ طالبان نےملک کے اکثر حصہ کوکنٹرول کیا ہے۔
اس بیچ ہندوستان نے قندھار کے آس پاس کے نئے علاقوں پر طالبان کے قبضے کے مد نظر اپنے قونصل خانے سے تقریباً50سفارت کاروں اور سیکیورٹی اہلکاروں کو واپس بلا لیا تھا۔ وسط اپریل میں امریکی صدرکی جانب سے افغانستان میں سالوں سےجاری جنگ کو ختم کرنے کےاعلان کے بعد طالبان نے پورے ملک میں اپنی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)