پولیس نے بتایا کہ جموں اینڈ کشمیریونائٹیڈ کسان فرنٹ کے صدر موہندر سنگھ اور جموں کے گول گجرال کےمندیپ سنگھ کو گرفتار کیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق ان دونوں نے لال قلعے پر ہوئے تشدد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور اس کے اصل سازش کار تھے۔ لال قلعے کےگنبد پر چڑھنے کے الزام میں ایک دوسرےشخص کو بھی پکڑا گیا ہے۔
نئی دہلی: یوم جمہوریہ کے موقع پر قومی راجدھانی میں کسانوں کے ٹریکٹر پریڈ کے دوران ہوئےتشدد کے معاملے میں دہلی پولیس نے جموں سے ایک اہم کسان رہنما سمیت دو لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔حکام نے منگل کو یہ جانکاری دی۔
مرکزکی جانب سے لائے گئے تین نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں نے یہ ٹریکٹر پریڈ نکالی تھی۔ جس میں تشدد برپا ہوا تھااور راجدھانی دہلی کے آئی ٹی او علاقے میں ایک نوجوان کی موت ہو گئی تھی۔
دہلی پولیس نے بتایا کہ ‘جموں اینڈ کشمیر یونائٹیڈ کسان فرنٹ’کے صدر موہندر سنگھ (45)اور جموں کے گول گجرال کے مندیپ سنگھ (23)کو گرفتار کیا گیا ہے۔موہندر جموں شہر کے چاٹھا کے رہنے والے ہیں۔پولیس کے مطابق، ان دونوں نے لال قلعے پر ہوئے تشدد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور اس کے کلیدی سازش کارتھے۔
انہوں نے بتایا کہ دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے سوموار رات دونوں کو پکڑا اور پھر پوچھ تاچھ کے لیے انہیں دہلی لایا گیا۔دہلی پولیس نے بتایا کہ جموں وکشمیرپولیس کی مدد سے انہیں پکڑا گیا۔دہلی پولیس کے ایڈیشنل پی آر او انل متل نے کہا، ‘ملی جانکاری کے مطابق، دونوں لال قلعے پر ہوئے دنگے کے کلیدی سازش کار تھے اوربڑھ چڑھ کر اس میں حصہ بھی لیا۔’
غورطلب ہے کہ مرکز کےتین نئے زرعی قوانین کے خلاف کسان دہلی کی سرحدوں پر گزشتہ تقریباً تین مہینے سے احتجاج کر رہے ہیں۔گزشتہ 26 جنوری کے دن کسانوں کے ٹریکٹر پریڈ کے دوران تشدد ہوا تھا اور کچھ مظاہرین نے لال قلعے پر مذہبی جھنڈا بھی لگا دیا تھا۔
سنگھ کے اہل خانہ نے انہیں بے قصور بتایا ہے اور فوراً ان کی رہائی کی مانگ کی ہے۔
سنگھ کی بیوی نے صحافیوں سے کہا، ‘انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ جموں پولیس کے ایس ایس پی نے انہیں بلایا ہے اور وہ گاندھی نگرپولیس تھانے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد ان کا فون بند آنے لگا۔ پوچھ تاچھ کرنے پر مجھے پتہ چلا کہ انہیں پولیس نے گرفتار کر لیا ہے اور انہیں دہلی لے جایا گیا ہے۔’
انہوں نے دعویٰ کیا کہ جب تشدد برپا ہوا تب ان کے شوہر لال قلعے پر نہیں، بلکہ دہلی کی سرحد پر تھے۔ انہوں نے کہا، ‘وہ ایس ایس پی کے پاس اکیلے گئے تھے، کیونکہ انہیں کوئی ڈر نہیں تھا۔ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا ہے۔’
مرکزکے تین متنازعہ زرعی قوانین کو ردکیے جانے کی مانگ کو لےکر26 جنوری کو کسان تنظیموں کی جانب سے منعقد ٹریکٹر پریڈ کے دوران ہزاروں مظاہرین پولیس سے بھڑ گئے تھے۔ کئی مظاہرین ٹریکٹر چلاتے ہوئے لال قلعے تک پہنچ گئے تھے اور میموریل میں گھس گئے۔ اس دوران کچھ مظاہرین نے لال قلعے کے ستون پر ایک مذہبی جھنڈا بھی پھہرا دیا تھا۔
ایک کسان رہنما نے بتایا تھا کہ ٹریکٹر پریڈ کے دوران ہوئےتشدداورتوڑ پھوڑ کے معاملے میں دہلی پولیس کے ذریعےگرفتار کیے گئے 122 لوگوں میں سے 32 کو ضمانت مل چکی ہے۔
مبینہ طور پر لال قلعے کی گنبد پر چڑھنے والا شخص گرفتار
دہلی میں یوم جمہوریہ پر ہوئےتشدد کے دوران مبینہ طور پر لال قلعے کے گنبد پر چڑھنے والے 29سالہ ایک شخص کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔شمال مغربی دہلی کے سوروپ نگر میں رہنے والے جسپریت سنگھ کو کرائم برانچ کی ٹیم نے 20 فروری کو گرفتار کیا تھا۔
پولیس کے مطابق جسپریت سنگھ پچھلے ہفتے گرفتار منندر سنگھ کا معاون ہے۔ منندر پر اس تاریخی مقام پرمظاہرین کو اکسانے کے لیےمبینہ طور پرتلوار لہرانے کا الزام ہے۔ایک افسر نے کہا، ‘جسپریت سنگھ وہ شخص ہے جو آروپی منندر سنگھ کے پیچھے کھڑا تھا اور لال قلعے کی فصیل کے دونوں طرف واقع گنبدوں میں سے ایک پر چڑھا تھا۔ ایک تصویر میں وہ لال قلعے پر جارحانہ تیورمیں بھی نظر آ رہا ہے۔’
پولیس کے مطابق منندر سنگھ (30)نے پڑوس میں رہنے والے چھ لوگوں کوسنگھو بارڈر سے مکربا چوک کی طرف آنے والے ٹریکٹر پریڈ میں آنے کے لیےاکسایا تھا۔پولیس نے کہا کہ جسپریت سنگھ ایک معاون تھا اور اس کی پہچان تصویروں اور ویڈیو سے ہوئی، جس میں وہ مبینہ طور پر منندر سنگھ کے پیچھے کھڑا نظر آ رہا تھا۔
پولیس نے بتایا کہ کار کے اےسی میکینک کے طور پر کام کرنے والے منندر سنگھ کو پچھلے ہفتے شمال مغربی دہلی کے پیتم پورہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔پولیس کے مطابق، منندر سنگھ کو ایک ویڈیو میں لال قلعے پر دو تلواریں لہراتے ہوئے دیکھا گیا جس کا مقصد تشدد پر آمادہ ملک مخالف عناصر کو ڈیوٹی پر تعینات پولیس اہلکاروں پر حملے کے لیےاکسانا تھا۔
پولیس نے کہا تھا کہ منندر سنگھ مختلف گروپوں کے بھڑکاؤ فیس بک پوسٹ دیکھنے کے بعد شدت پسندی کی طرف مائل ہوا۔پولیس کے مطابق وہ اکثر سنگھو بارڈرجاتا تھا اور وہاں رہنماؤں کے ذریعے دیےجانے والے بیانات سے بےحد متاثر تھا۔
گزشتہ18فروری کو تین نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں نے ملک گیر ریل روکو احتجاج کیا تھا۔ سنیکت کسان مورچہ کی اپیل پر ہوئے اس احتجاج کے دوران تمام ٹرینوں کی آمد ورفت متاثر رہی، کچھ ٹرینوں کو کینسل کرنا پڑا اور کچھ کو دوسرے راستوں سے بھیجنا پڑا۔
گزشتہ 26 جنوری کو ٹریکٹر ریلی اور چھ فروری کو چکہ جام کے بعد کسانوں کے ذریعےکیا گیا یہ تیسرا بڑاحتجاج تھا۔
معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف کسان مظاہرہ کر رہے ہیں۔
کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں کے رحم پر جینا پڑےگا۔دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل نظام بنا رہے ہیں۔
ان قوانین کے آنے سے بچولیوں کا رول ختم ہو جائےگا اور کسان اپنی اپج ملک میں کہیں بھی بیچ سکیں گے۔دوسری طرف مظاہرہ کر رہے کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے ایم ایس پی کا سکیورٹی کوراور منڈیاں بھی ختم ہو جائیں گی اورکھیتی بڑے کارپوریٹ گروپوں کے ہاتھ میں چلی جائےگی۔
اس کو لےکر سرکار اور کسانوں کے بیچ 11 دور کی بات چیت ہو چکی ہے، لیکن ابھی تک کوئی حل نہیں نکل پایا ہے۔ کسان تینوں نئے زرعی قوانین کو پوری طرح واپس لیے جانے ایم ایس پی کی قانونی گارنٹی دیے جانے کی اپنی مانگ پر پہلے کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)