منور رانا کی شاعری میں ماضی کی آہٹوں کے ساتھ آج کی تاریخ، تہذیب اور تصویر قید ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی ذہنی ساخت اور انفرادی احساس کا روز نامچہ ہے جس میں ایک ایک لمحے کا حال درج ہے۔
مشہور شاعر منور رانا اتوار (14 جنوری) کو اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں سنجے گاندھی پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایس جی پی جی آئی ) میں انتقال کر گئے۔ وہ 71 سال کے تھے۔
وہ طویل عرصے سے گلے کے کینسر میں مبتلا تھے۔
منور رانا 26 نومبر 1952 کو رائے بریلی، اتر پردیش میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اردو کے علاوہ ہندی اور اودھی میں بھی لکھتے تھے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اکتوبر 2015 میں انہوں نے اپنا ساہتیہ اکادمی ایوارڈ واپس کر دیا تھا ۔
انہیں 2014 میں ‘شہدابہ’ کے لیے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا تھا۔
ان کے شعری محاسن کے حوالے سے یہاں اردو کے ممتاز نقاد حقانی القاسمی کا ایک مفصل مضمون پیش کیا جا رہا ہے—(ادارہ)
ہراچھی شاعری میں ڈھائی اکشر ہوتے ہیں۔ منور رانا کی شاعری میں بھی ڈھائی اکشر ہی ہیں۔ ان کے پہلے اور دوسرے حرف کی تفہیم تو آسان ہے مگر اس نصف حرف کے طلسمی اسرار کو سمجھنے کے لیے ذہن کی بہت ساری توانائیاں صرف کرنی پڑیں گی۔
اس نصف حرف کے پراسرار آہنگ کی جستجو ہر اس شخص کو کرنی چاہئے جو منور رانا کے تخلیقی نظام اور طرز احساس کو ایک نئے زاویے اور نئے تناظر میں دیکھنے کا آرزومند ہے۔
روایتی، تنقیدی طریقہ کار سے الگ ہوکر ہی ان کے متن میں مضمر معانی کی تفہیم ecioietucs کی روشنی میں کی جائے تو شاید زیادہ بہتر ہوگا کیونکہ منور رانا کی شاعری میں بہت کچھ وہ ہے جو دوسروں کی شاعری میں نہیں ہے۔
ان کی ’تخلیقی روح‘ کو تنقید کے میکانکی تصور کے ذریعہ سمجھنا مشکل ہے۔ان کی شاعری کی تفہیم کے لیے صرف ادب ہی نہیں بلکہ سائنس کی نئی شاخوں سے آگہی بھی ناگزیر ہے۔
ان کی شاعری کو آج کے ٹیکنالوجیکل ترقیات کے منفی اثرات کے تناظر میں بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ دراصل یہ پوری شاعری تخلیق اور ٹیکنالوجی کے مابین تناؤ اور کشمکش کی شاعری ہے۔ تخلیق کو ٹیکنالوجی میں تبدیل کردیا جائے تو پھر تخلیق کی نہ صرف معنویت مجروح ہوگی بلکہ اس کا منشور بھی بدل جائے گا۔
منور رانا کی شاعری میں انسانی اقدار واخلاقیات پر ٹیکنالوجی کے پڑنے والے منفی اثرات کے خلاف سخت تخلیقی رد عمل کااظہار ملتا ہے۔ یہ مکمل طورپر انسانی احساس واظہار کی شاعری ہے۔
اربنائزیشن اور انڈسٹریلائزیشن کی تمام جہتوں کو سمجھے بغیر منوررانا کی شاعری کی معنویت روشن نہیں ہوسکتی۔
ان کی شاعری میں انہی چیزوں کے منفی اثرات اور نتائج سے آگہی کے آثار نمایاں ہیں۔ جہاں تک اربنائزیشن کی بات ہے تو یہ ایک منفی فینامنا ہے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف ذرائع کا استحصال ہوتا ہے بلکہ زرعی معیشت کا عدم استحکام، کثافت اور علاقائی توازن کا خاتمہ جیسے گھمبیر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ سماجی اقدار اور ماحولیات کو بھی اس سے سخت خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے سماجی اور اقتصادی تضادات کی شکلیں بھی رونما ہوتی ہیں۔ چونکہ شہر ایک ٹیکنیکی نظام کا پابند ہوتا ہے، اس کا لے آؤٹ پلان بھی اس کی ایک علیحدہ شناخت کا مظہر ہوتا ہے۔ رہائشی زون کی تقسیم سے بھی شہری ذہنیت کی تفہیم ہوسکتی ہے۔
ان کی اپنی زبان اور اپنا کلچر ہوتا ہے جہاں انسانی رشتے اور اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ بلاک، وارڈ اور کالونی میں تقسیم شدہ یہ شہر ایک نئے کلچر کا اشاریہ ہیں اور اس کی وجہ سے آبادیوں کے آپسی رشتے بھی مجروح ہوتے ہیں اور اب تو لفظ شہر اپنے مفہوم اور معنی کے اعتبار سے بھی تنہائی، اجنبیت سے عبارت ہوکر رہ گیا ہے جس میں انسانی رشتوں کی حرارت یا حدت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور اس کے علاوہ بورزوائیت کو فروغ دینے میں شہروں کا بھی بڑا کردار رہا ہے۔
نیک ورک سٹی، پوسٹ ماڈرن سٹی کی موجودگی نے لوگوں کے ذہنی، اخلاقی رویے میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ ان کی ترجیحات بھی بدل دی ہیں۔ آج دنیا کے غریب ممالک میں طبقاتی تنازعہ مزدور اور سرمایہ دار کے درمیان نہیں اور نہ ہی ملکی اور غیرملکی مفادات کے درمیان ہے بلکہ اصل تنازعہ شہری اور دیہی طبقات کے درمیان ہے اور یہ خلیج مسلسل بڑھتی ہی جارہی ہے۔
منور رانا شہر اور دیہات کے تضادات کی تصویریں اپنی شاعری میں کھینچی ہیں اور اپنی تہذیبی جڑوں کی جستجو کے چراغ کو روشن رکھا ہے۔
ان کی شاعری میں شہر سفاکیت کا استعارہ اور گاؤں معصومیت کی علامت ہے؛
تمہارے شہر کی یہ رونقیں اچھی نہیں لگتیں
ہمیں جب گاؤں کے کچے گھروں کی یاد آتی ہے
بھیک سے تو بھوک اچھی گاؤں کو واپس چلو
شہر میں رہنے سے یہ بچہ برا ہوجائے گا
تمہارے شہر میں میت کو سب کاندھا نہیں دیتے
ہمارے گاؤں میں چھپر بھی سب مل کر اٹھاتے ہیں
اتنا روئے تھے لپٹ کر در ودیوار سے ہم
شہر میں آکے بہت دن رہے بیمار سے ہم
تمہارا کام ہے شہروں کو صحرا میں بدل دینا
ہمیں بنجر زمینوں کو حسیں کرنے کی عادت ہے
ان گھروں میں جہاں مٹی کے گھڑے رہتے ہیں
قد میں چھوٹے ہوں مگر لوگ بڑے رہتے ہیں
ابھی موجود ہے اس گاؤں کی مٹی میں خود داری
ابھی بیوہ کی غیرت سے مہاجن ہار جاتا ہے
خدا کے واسطے اے بے ضمیری گاؤں مت آنا
یہاں بھی لوگ مرتے ہیں مگر کردار زندہ ہے
انٹرنیٹ، گلوبلائزیشن نے سماجی، اخلاقی صورت حال کو اور بھی خطرناک بنادیا ہے۔ ٹیکنالوجی کے جو منفی اثرات سامنے آئے ہیں، اس کی وجہ سے اخلاقی قدریں زوال کا شکار ہوئی ہیں۔
نہ صرف ٹیکنالوجی کی ترقیات نے روایتی اخلاقی اقدار کو چیلنج کیا ہے بلکہ اس کی وجہ سے انسانی جسموں میں بھی کیمیاوی آلودگی پیدا ہوگئی ہے۔ انسانی رابطے کا خاتمہ، اسٹرکچرل بے روزگاری اور کثافت کے منفی اثرات آج پورے سماج میں نظر آتے ہیں اور جدید دور کی ٹیکنالوجی کی وجہ سے انسانیت جراثیم کی ایک کالونی میں تبدیل ہوگئی ہے۔
گویا ٹیکنالوجی نے انسان کا رشتہ فطرت سے منقطع کردیا ہے۔ صنعتی انقلاب سے پہلے سماج اور معاشیات کا تعین زمین اور زراعت سے ہوتا تھا اور اب صنعتی انقلاب اس کی وجہ سے زمین سے عوام کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ انڈسٹریلائزیشن کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے خاندانی اکائی کو تباہ وبرباد کردیا۔
منور رانا کی شاعری میں انڈسٹریلائزیشن صارفیت، بورزوائیت اور نودولتیہ طبقہ کے خلاف شدید جذباتی رد عمل کااظہار ملتا ہے۔ انہوں نے کمرشیلائزیشن کے رویے کی وجہ سے نہ صرف پورے معاشرے کے بازار میں بدلنے کی روش پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے بلکہ بایوٹیکنالوجی ایج میں انسان کے بازار میں تبدیل ہونے کے رویے کو بھی اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے کہ بایو ٹکنالوجی نے انسانی جسم کوقابل فروخت تحقیقی مواد اور طبی پروڈکٹ میں تبدیل کردیا ہے۔
میڈیکل کامرس میں انسانی اعضاء کی ڈیمانڈ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ہماری اخلاقیات پر اقتصادیات حاوی ہوچکی ہے اور انسانی جسم بھی ”متاع بازار“ بن کر اپنا تقدس کھوچکا ہے۔کنزیومر کلچر یا مارکیٹ کلچر کی وجہ سے ماحولیات، آب وہوا اور قدرتی ذرائع پر منفی اثرات پڑے ہیں۔
یہ کلچر صرف سماجی نظام کی شکست وریخت کا ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس نے فرد کے ذہنی نظام کے ساتھ خاندانی قدریں بھی تبدیل کردی ہیں۔ اتحاد کے بجائے انتشار کو جنم دیا ہے۔ مسابقت، مادیت پرستی اور بیگانگی کے رویہ کو فروغ دیا ہے۔ منور رانا نے اقتصادی مادیت، کنزیومر کیپٹل ازم کے خلاف اپنی شاعری کو ایک مؤثر اور متحرک ذریعہ بنایا ہے۔
بدن کا کوئی بھی حصہ خرید سکتے ہو
میں اپنے جسم کو بازار کرنے والا ہوں
مرے بچے نامرادی میں جواں بھی ہوگئے
مری خواہش صرف بازاروں کو تکتی رہ گئی
نمائش پر بدن کی یوں کوئی تیار کیوں ہوگا
اگر سب گھر کے ہوجاتے تو یہ بازار کیوں ہوتا
شہرت ملی تو اس نے بھی لہجہ بدل دیا
دولت نے کتنے لوگوں کا شجرہ بدل دیا
وہ تو بیوی ہے جو دکھ سکھ میں بسر کرتی ہے
ورنہ بازار کی عورت تو محل مانگے ہے
ایک خواہش کے لیے کیا کیا بکا مت پوچھئے
مختصر یہ ہے کہ چادر ریشمی مہنگی پڑی
امیرِ شہر کی ہمدردیوں سے بچ کے رہو
یہ سر سے بوجھ نہیں سر اتار لیتا ہے
ہمیشہ ٹوٹتی سانسوں کی لے معلوم ہوتی ہے
امیرِ شہر کی دعوت میں قے معلوم ہوتی ہے
یوں ان سے ملتے ہوئے توہین ہو خود داری کی
ایسے بے فیض امیروں کی طرف کیا دیکھیں
خوش حالی میں سب ہوتے ہیں اونچی ذات
بھوکے ننگے لوگ ہریجن ہوجاتے ہیں
منور رانا کی شاعری اسی بدلتی دنیا کے منفی اثرات کے خلاف ایک تخلیقی رد عمل ہے۔ اربنائزیشن، کمرشیلائزیشن، گلوبلائزیشن اور انڈسٹریلائیزیشن کا دائرہئ اثر جوں جوں بڑھتا جائے گا منور رانا کی شاعری کی تاثیر وتوانائی بھی بڑھتی جائے گی۔
اربنائزیشن اور دیگر تلازمات کے مکمل پروسیس کو سمجھے بغیر منور رانا کی شاعری کی معنویاتی جہتیں نہ منکشف ہوسکتی ہیں اور نہ ہی ان کے فنی اور فکری اعماق کی تفہیم ممکن ہے۔ انہوں نے جس نظامِ فکر کو اپنا مطاف اور محور بنایا ہے وہ موجودہ دور کے گلوبلائزیشن کے نظام سے بالکل مختلف ہے۔ آج جبکہ ٹیکنالوجی نے انسانی ذہنوں سے اس کے خواب، اس کی یادیں، گم شدہ لمحے اور ماضی کو سلب کرلیا ہے، ایسے میں منور رانا کی شاعری میں گم شدہ لمحوں، چہروں اور اشیاء کو یاد کرنے کا عمل روشن ہے۔
یاد آفرینی کے اس عمل نے ان کی شاعری کو ایک نئی تعبیر عطا کی ہے۔ یاد ہی شاعری کو سانس عطا کرتی ہے اور ذہن کی زندگی اور تابندگی بھی یادداشت پر منحصر ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کی شاعری میں خواب زندہ ہیں اور خوابوں کی گم شدگی کائنات کا ایک بڑا المیہ ہے۔ خوابوں کا کھوجانا شخصیت کو زوال سے آشنا کرتا ہے یا انہدامی مرحلے سے گزارتا ہے۔
ماضی، خواب اور یادیں منور رانا کے تخلیقی محرکات ہیں۔ منور رانا اپنے عنصر سے الگ یا جدا نہیں ہیں اسی لیے ان کی شناخت باقی ہے، پہچان قائم ہے۔ وہ اپنے اقدار سے کبھی انحراف نہیں کرتے۔ ان کے تخلیقی فکری نظام کے ساتھ روایت کی روشنی بھی ہے۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں:
دیکھی ہے منور نے بزرگوں کی نشانی
دستار پرانی ہے مگر باندھے ہوئے ہیں
روش بزرگوں کی شامل ہے میری گٹھی میں
ضرورتاً بھی سخی کی طرف نہیں دیکھا
بہت حسین سا اک باغ گھر کے نیچے ہے
مگر سکون پرانے شجر کے نیچے ہے
کوزہ گھروں کے گھر مسرت کہاں سے آئے
مٹی کے برتنوں کا زمانہ نہیں رہا
ہم ہیں گزرے وقت کی تہذیب کے روشن چراغ
فخر کر ارض وطن ہم آج تک دنیا میں ہیں
نئے کمروں میں اب چیزیں پرانی کون رکھتا ہے
پرندوں کے لیے صحرا میں پانی کون رکھتا ہے
ہمیں گرتی ہوئی دیوار کو تھامے رہے ورنہ
سلیقے سے بزرگوں کی نشانی کون رکھتا ہے
کہاں کی دوستی کیسی مروت کیا رواداری
نئی قدریں سبھی چیزیں پرانی چھین لیتی ہیں
منور رانا کی شاعری میں ماضی کی آہٹوں کے ساتھ آج کی تاریخ، تہذیب اور تصویر قید ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی ذہنی ساخت اور انفرادی احساس کا روز نامچہ ہے جس میں ایک ایک لمحے کا حال درج ہے۔
عصری حسیت سے معمور اس شاعری میں جو پولٹیکل آئرنی ہے وہ ان کے داخلی احساس کی عکاسی ہی نہیں ہے بلکہ موجودہ سماجی وسیاسی سسٹم کے خلاف ایک ری ایکشن بھی ہے۔
فضا میں گھول دی ہیں نفرتیں اہلِ سیاست نے
مگر پانی کنویں سے آج تک میٹھا نکلتا ہے
بڑا گہرا تعلق ہے سیاست سے تباہی کا
کوئی بھی شہر جلتا ہے تو دلّی مسکراتی ہے
طوائف کی طرح اپنی غلط کاری کے چہرے پر
حکومت مندر ومسجد کا پردہ ڈال دیتی ہے
یہ سنسد ہے یہاں آداب تھوڑے مختلف ہوں گے
یہاں جمہوریت جھوٹے کو سچا مان لیتی ہے
دنیا مرے کردار پہ شک کرنے لگے گی
اس خوف سے میں نے کبھی کھدر نہیں پہنا
اب مدرسے بھی ہیں تیرے شر سے ڈرے ہوئے
جائیں کہاں پرندے شجر سے ڈرے ہوئے
کمہلا دیے ہیں پھول سے چہرے فساد نے
معصومیت بھی ان نوکِ سناں تک پہنچ گئی
عدالتوں ہی میں جب لین دین ہونے لگیں
تمہی بتاؤ بے چارے وکیل کیا کریں
ہر اک خوشبو کا جھونکا ہمیں کافور لگتا ہے
کسی بھی شہر سے گزریں وہ بھاگلپور لگتا ہے
جسے بھی دیکھئے وہ خوف کی سولی پہ لٹکا ہے
ہمارے شہر کا ہر آدمی منصور لگتا ہے
یہ دیکھ کر پتنگیں بھی حیران رہ گئیں
اب تو چھتیں بھی ہندو مسلمان ہوگئیں
چلو چلتے ہیں مل جل کر وطن پر جان دیتے ہیں
بہت آسان ہے کمرے میں وندے ماترم کہنا
تمہارے شہر میں تاثیر سے خالی ہے یکجہتی
جہاں ہر روز دنگے ہوں وہاں گالی ہے یکجہتی
سیاست کی دکانوں میں محبت ڈھونڈتے کیوں ہو
یہ کھدر بیچنے والے ہیں کیا ریشم دکھائیں گے
منور رانا کے یہاں حیات وکائنات کے تضاد اور انتشار میں ایک ربط کی جستجو کا عمل روشن ہے۔ اس قوس قزح رنگ کی شاعری میں زندگی، سماج، مذہب اور اساطیر کی متضاد لہروں کا امتزاج ہے۔ منور رانا نے اپنی شاعری میں ان اساطیر، علامات اور تلمیحات کا استعمال کیا ہے جن سے نہ صرف ماضی روشن ہے بلکہ مستقبل کو بھی ان سے توانائی اور تحرک ملتا ہے۔ ماضی سے مستقبل کو مربوط کرنے کا یہ تخلیقی عمل بہت معتبر ہے اور کائنات کو ایک تسلسل میں دیکھنے کی روش بھی اس میں مضمر ہے۔ زمانہ بدل جاتا ہے مگر کردار کسی نہ کسی شکل میں زندہ رہتے ہیں۔ ماضی کے حوالے سے حال اور مستقبل کی علامات اور اساطیر کا یہ تخلیقی استعمال دیکھئے:
گوتم کی طرح گھر سے نکل کر نہیں جاتے
ہم رات میں چھپ کر کہیں باہر نہیں جاتے
دل وہ بستی ہے جہاں کوئی تمنا نہ ملی
میں وہ پنگھٹ ہوں جسے کوئی رادھا نہ ملی
ایک ہی آگ میں تا عمر جلے ہم دونوں
تم کو یوسف نہ ملا ہم کو زلیخا نہ ملی
میرا بن باس پہ جانے کا ارادہ تھا مگر
مجھ کو دنیا میں کہیں بھی کوئی سیتا نہ ملی
اس عہد کا کوفہ ہے میرا شہر بھی شاید
کوئی طرف دارِ منور نہیں نکلا
پھر چلا ہے کوئی وعدہ کو نبھانے کے لیے
یہ ندی پھر آج ایک کچا گھڑا کھا جائے گی
دیا ہے صحرا نوردی کا حکم جب مجھ کو
تو سوہنی کو بھی پنجاب سے نکالا جائے
ہرشخص مرے شہر میں دشمن کی طرح ہے
اب رام کا کردار بھی راون کی طرح ہے
ان کے ہرشعر میں باطنی احساس کا آہنگ ہے۔ احساس کی تمام رگوں میں انہوں نے اترکر دیکھا ہے اس لیے ان کی شاعری میں حزنیہ رنگ آہنگ بھی ہے اور طربیہ لے بھی۔ انسانی وجود کے آہنگ سے آشنائی نے ان کی تخلیقی ٹکنیک اور کینوس کو وسعت عطا کی ہے۔
منور رانا کی شاعری میں پورے چاند کی رات روشن ہے۔ بانسری کی سریلی مدھر آواز ہے۔ کنول کے پھول ہیں۔ پریم کی روشنی ہے۔ محبت کا سورج ہے۔ باطن کے آہنگ سے ان کے احساس واظہار کاآہنگ جڑا ہوا ہے۔ ان کی شاعری میں داخلی اور خارجی وجود کی وحدت اور ہم آہنگی ہے۔ ایک ہی تانت ہے جو بج رہی ہے۔ کبیر کی مانیں تو ان کی تخلیقی شخصیت انارکی طرح نہیں ہے جس کا باطن سفید اور ظاہر سرخ ہوتا ہے۔
اس اختصاصی دور میں منور رانا کی عوامی اور غیراختصاصی شاعری کی بھی اپنی الگ ادا اور اسلوب ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ ان تمام جذبات واحساسات کو پیش کیا ہے جو عوام سے جڑے ہوئے ہیں۔عوام کے نفسی رجحانات اور رویے تک ان کی رسائی ہے اور عوامی سائیکی سے ان کی شاعری کا رشتہ بہت مضبوط ہے اس لیے ان کی شاعری میں نظیر اکبرآبادی کی طرح ایک اجتماعی کردار نظر آتا ہے۔
انہوں نے اپنی شاعری میں گم ہوتے گاؤں اور غریب کو پھر سے زندہ کردیا ہے۔ گاؤں ان کی شاعری میں ایک رمز اور استعارہ ہے اور اسی کی تہہ میں ان کے ذہنی نظام کی جڑیں ہیں۔
ان کی شاعری میں زیادہ تر ایسے ہی تجربے بولتے ہیں اور مشاہدے مکالمہ کرتے ہیں۔ ایک ایک شعر میں کئی کہانیاں اور کئی حکایتیں چھپی ہوتی ہیں۔ ان کے اندر کا بچہ مرا نہیں، زندہ ہے۔ وہ ایک معصوم سا بچہ جو خاندان کی اکائی سے جڑاہوا ہے اور ایک مربوط ذہن جس کے لیے خاندانی قدریں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ منور رانا کی شاعری میں ماں، بہن، بھائی، بیوی، بیٹی یہ سب زندہ کردار ہیں اور انہی کرداروں کے جذبوں اور احساسات کی کائنات پر ان کی پوری شاعری مشتمل ہے۔
چھوٹی بڑی حقیقتیں، تضادات اور کشمکش سے ان کی شاعری کی تشکیل ہوئی ہے۔ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خیال کے خلوت کدے میں کوئی نہ کوئی طلسم ہوشربا کا ساحر یا شعبدہ باز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے قاری کا ذہن اور دل گداختگی کی کیفیت سے روشن ہوتا ہے۔ جانے ان کی شاعری میں ایسا کون سا موہنی منتر ہے کہ قاری اسیر اور وارفتہ ہوجاتا ہے۔
منور رانا کی شاعری میں عجب جادوئی سحر انگیزی ہے کہ انسانی ذہن اپنے حواس کے تمام دروازوں کو مقفل پاتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ مشکل آن پڑتی ہے کہ قاری شعر کے مکمل معنوی وجود تک رسائی میں ناکام ہوجاتا ہے اور شاعری میں موجزن لہروں سے آشنا نہیں ہوپاتا۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری اپنی تمام تر حسیاتی، معنویاتی وجود کے ساتھ روشن نہیں ہوپاتی۔ سب سے بڑی مصیبت منور رانا کی شاعری کی طلسمی کیفیت کو اپنی گرفت میں لینے کا ہے۔
منور رانا کا اپنا غزلیہ آہنگ ہے اور الگ ڈکشن بھی۔ لفظیات کی سطح پر بھی انہوں نے مقتدرہ یا اشرافیہ کی سوچ کا اثر قبول نہیں کیا بلکہ بہت سے بوسیدہ، کہنہ،فرسودہ لفظوں میں بھی زندگی کی رمق پیدا کردی۔ لفظوں کو حیات نو بخشنا بھی ایک بڑا تخلیقی مجاہدہ ہے۔ انہوں نے لفظوں کی کراہ کو سمجھا ہے اسی لیے ان کے یہاں ایسے الفاظ بھی مل جاتے ہیں جو عصر حاضر کے شعری فرہنگ سے جلا وطن کردیے گئے ہیں۔ زبان سے ہی نظریہ متحرک ہوتا ہے اس لیے زبان کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔ شاعری کو مختلف ساحلوں پر لفظوں کے سمندر کی ضرورت پڑتی ہے اور منور رانا نے زبان کی سطح پر بھی جستجو کے اس عمل کو روشن رکھا ہے۔
منور رانا نے تغزل کی خانقاہ میں نئے چراغ جلائے ہیں۔ وہ اجڑی ہوئی ویران خانقاہ جہاں جذبہ اور احساس کی مشعل روشن نہیں تھی جہاں کے در ودیوار سے وحشت ٹپکتی تھی، انہوں نے کائی زدہ احساسات سے الگ جذبہ واحساسات کی ایک مضطرب کائنات کی تشکیل کی اور عمومی تجربات کو نئے رنگ وآہنگ میں پیش کرکے تحیر کے چراغ جلائے اور یہی چراغ تحیر ان کے تخلیقی انفراد کا ضامن ہے۔
منور رانا کے بعض شعروں میں اس قدر پیتھوس ہے کہ آنسوؤں کی بارش ہونے لگتی ہے اور ذہن کی زمیں نم ہوجاتی ہے۔ وہ المیہ احساسات کے بھی ایک اچھے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں ایک داخلی وحدت ملتی ہے اور یہی وحدت ان کے احساس واظہار کی اپنی الگ داخلی منطق کا مظہر ہے۔ انہوں نے انسانی وجود میں اس میلوڈی کو تلاش کیا ہے جس کی وجہ سے ان کی تخلیق بہت سی باطنی لہروں اور خارجی ارتعاشات سے آشنا ہوئی ہے۔ یہی ارتعاشات انسانی ذہن کو نئی کیفیات سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ان کی شاعری میں وہ چراغ لالہ ہے جس سے روشن ہے کوہ ودمن۔
احساس واظہار کی سطح پر منور رانا نے نہایت شاداب تجربے کیے ہیں اور لفظیات کی سطح پر بھی توازن اور تناسب کا خیال رکھا ہے۔ ان کی شاعری میں نہ زیادہ بارش کا احساس ہوتا ہے اور نہ زیادہ تیز دھوپ کا۔ لیکن سمندر کی طرح ان کے ذہن کی لہریں مضطرب اور بے قرار ہیں۔ انہیں اپنے وجود کی خوشبو کی خبر ہے اسی لیے وہ اپنی ذات میں اور اپنے وجود کے اندر بھی کائنات کی جستجو کرتے ہیں۔ خاص طورپر اس صوت سرمدی کی جستجو جس کی وجہ سے کائنات میں روشنی ہے۔
منور رانا ایک معمولی احساس کو بھی اپنے تخیل کی قوت اور جدت سے غیرمعمولی وقوعے میں تبدیل کردیتے ہیں۔ قاری کو بادی النظر میں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سامنے کی بات ہے مگر جب اس کے اسرار کی تہیں کھلتی ہیں تو دیدہئ حیراں وا ہوجاتے ہیں۔ منور رانا کا ایک شعر ہے:
سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھاکر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
یہ سامنے کا شعر ہے مگر اس میں معنی کی نہ جانے کتنی تہیں پوشیدہ ہیں۔ یہ دو قطبی تضادات کی بہترین تصویر وتعبیر بھی ہے۔ اس شعر کی صحیح معنویت انہی لوگوں پر منکشف ہوسکتی ہے جو نیند جیسے جادوئی فینومینا سے محروم ہیں اور جو اس کے لیے ہائپنوٹکس کا استعمال کرتے ہیں۔ پھر بھی وہ مختلف طرح کے امراض کے شکار ہوتے ہیں۔
وہ خواب آور گولیاں استعمال کرتے ہیں پھر بھی فشار دم یا ذیابیطس کے مریض رہتے ہیں۔ یہ آج کے ماڈرن لائف اسٹائل اور بدلتی دنیا کی ایک بھیانک تصویر بھی ہے اور دوسری طرف اس غریب انسان کی تقدیر بھی جو تمام تر مشکلات کے باوجود نیند جیسی نعمت سے مالامال ہے۔ وہ مزدور ضرور ہے مگر مینیا نہیں۔
وہ کسی طرح کے cataplexy یا narcolepsy یا fibromyalgia کا شکار نہیں ہے۔
نیند نہ آنے کی صورت میں جو بیماریاں انسانی وجود کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہیں، اگر ان تمام بیماریوں کے مہلک اثرات کی روشنی میں اس شعر کو پڑھا جائے تو اس کی معنویت نہ صرف روشن ہوتی ہے بلکہ یہ احساس ہوگا کہ تخلیق کار کے احساس کی سطح کتنی بلند اور کتنی جہتوں پر پھیلی ہوئی ہے۔
منور رانا کی شاعری میں انقلابی آہنگ، مزاحمتی رنگ اور وہ موج منصوری بھی ہے جس سے آج کے تخلیق کار محروم ہیں کہ زیادہ تر تخلیق کاروں کی رگوں میں کیڈمیم کی مقدار زیادہ ہے جس کی وجہ سے وہ ہرلمحہ ایک خوف یا بزدلی کی نفسیات کے زیر اثر رہتے ہیں مگر ایک سچا تخلیق کار کبھی بھی سچ بولنے سے پیچھے نہیں ہٹتا بلکہ وہ سرِدار بھی حرف حق بلند کرتا ہے۔ منور رانا کے یہاں بھی وہی شجاعت اور شہامت کی لہریں ملتی ہیں۔
امیرِ شہر کو تلوار کرنے والا ہوں
میں جی حضوری سے انکار کرنے والا ہوں
میں بھی سقراط ہوں سچ بول دیا ہے میں نے
زہر سارا میرے ہونٹوں کے حوالے کردو
جرأت سے ہر نتیجے کی پرواہ کیے بغیر
دربار چھوڑ آیا ہوں سجدہ کیے بغیر
یہ دور احتجاج ہے خاموش مت رہو
حق بھی نہیں ملے گا تقاضا کیے بغیر
خانقاہوں سے نکل آؤ مثالِ شمشیر
صرف تقریر سے بخشش نہیں ہونے والی
قتل ہونا ہمیں منظور ہے لیکن راناؔ
ہم سے قاتل کی سفارش نہیں ہونے والی
وہ سربلند ہمیشہ خوشامدوں میں رہا
میں سر جھکائے رہا اور سرمدوں میں رہا
کہیں ہم سرفروشوں کو سلاخیں روک سکتی ہیں
کہو ظلِ الٰہی سے کہ زندانی پلٹتا ہے
Saint Pol Rouxنے کہا تھا Poetry is the greatest force on Earth اور منور رانا نے زمین کی سب سے بڑی توانائی کااستعمال انسانیت کی تکریم اور احترام آدمیت کے لیے کیا ہے۔
انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ انسانی مستقبل کو تابناک بنانے کا کام کیا ہے کہ دراصل اس ترقی یافتہ تکنالوجی کے دور میں ثقافتی بحران کا حل شاعری ہی تلاش کرسکتی ہے۔ فطرت، تکنالوجی اور انسانی رشتوں کے مابین مفاہمت تخلیق کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ انہوں نے اپنے تخیل کی قوت کو ضائع ہونے سے بچالیا ہے۔
انہیں احساس ہے کہ ماحولیاتی بحران کی وجہ سے تخیل کا بحران جنم لیتا ہے اسی لیے انہوں نے انسانی تخیل اور ماحولیاتی حقیقت کے درمیان اس رشتے کی دریافت کی ہے جس کا عدم توازن کائنات کو نئی سطحوں پر بحران میں مبتلا کرسکتا ہے۔ طبعی ماحول کا انفرادی اور اجتماعی ادراک پر گہرا اثر پڑتا ہے اور منور رانا نے اپنی شاعری میں اس طبعی ماحول کی بہت ہی فنکارانہ انداز میں عکاسی کی ہے۔
انہوں نے اپنی شاعری کے لیے ایک نئی بشارت دی ہے اور یہی انسانی جذبہ اور احساس ان کی شاعری کو زندہ رہنے کی ضمانت عطا کرتا ہے۔ ان کی شاعری میں سب سے بڑی لہر جو ہے وہ ہے انسانیت کی لہر۔ وہی سورج، وہی روشنی، وہی خوشبو، وہی پھول ہے جو انسانی وجود سے وابستہ ہیں۔ انسانی رشتے کی فطری خوشبو نے ہی ان کی شاعری کو تازگی، تحرک، توانائی اور تمکنت عطا کی ہے۔