یوم پیدائش پر خاص : وی پی سنگھ کہا کرتے تھے کہ سماجی تبدیلی کی جو مشعل انہوں نے جلائی ہے اور اس کے اجالے میں جو آندھی اٹھی ہے، اس کا منطقی انجام تک پہنچنا ابھی باقی ہے۔ ابھی تو سیمی فائنل ہوا ہے اور ہو سکتا ہے کہ فائنل میرے بعد ہو۔ لیکن اب کوئی بھی طاقت اس کا راستہ نہیں روک پائےگی۔
یہ مضمون 25جون 2018کو شائع کیا گیا تھا۔
آٹھویں وزیر اعظم وشوناتھ پرتاپ سنگھ کو ہمارے بیچ سے گئے 10 سال ہو گئے ہیں، پر لگتا ہے کہ اس ملک کو ابھی بھی یہ فیصلہ کرنا باقی ہے کہ وہ انھیں یاد کرے تو کس شکل میں اور بھلانا چاہے تو منڈل اور کمنڈل کے اس ہڑبونگ کے پار کیسے جائے، جو ان کے وقت میں اپنی انتہا پر پہنچکر بھی ختم نہیں ہوا اور اس کے دئے ناسور آج بھی گاہے بہ گاہے ہماری آہوں اور کراہوں کی وجہ بنتے رہتے ہیں!
اس کی دو وجہیں ہیں : پہلی یہ کہ وشوناتھ پرتاپ سنگھ جیسی شخصیتوں سے ان کے ممالک کا حساب و کتاب جلدی نمٹتا نہیں ہے اور دوسری یہ کہ ملک کی سیاسی دنیا میں ان کی موجودگی ان کے وقت میں ہی اتنی متنازعہ ہو گئی تھی کہ ان کی غیرموجودگی میں بھی ان کو کسی سانچے میں فٹ کرکے اپنی سہولیات کے لحاظ سے موافق کرنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہو رہا!
وہ ملک کے اکلوتے ایسے رہنما تھے جس نے مقبولیت کے گھوڑے کی سواری میں چڑھاؤ اور اتار دونوں کا تقریباً ایک جیسا مزہ لیا! کبھی لوگوں نے خوش ہوکر ان کو ‘ راجا نہیں، فقیر ‘ کہا تو کبھی بات ان کو ‘ رنک ‘ اور ‘ ملک کا کلنک ‘ بتانے کی حد تک جا پہنچی۔ پھر بھی ان کے لیے اطمینان کی بات یہ تھی کہ یہ متنازعہ کبھی بھی ان کے قد کو تراشکر چھوٹا نہیں کر پایا۔ تب بھی نہیں، جب انہوں نے کہا تھا-تم مجھے کیا خریدوگے / میں بالکل مفت ہوں اور تب بھی نہیں جب انہوں نے اعلان کیا تھا:
مفلس سے
اب چور بن رہا ہوں میں
پر
اس بھرے بازار سے
چراؤں کیا
یہاں تو وہی چیزیں سجی ہیں
جنھیں لٹاکر
میں مفلس ہوا ہوں
ویسے بھی اوشو نے غلط نہیں کہا تھا کہ انسانی شعور کی ابتک کی ساری ترقی متنازعہ لوگوں نے ہی کیا ہے۔ سقراط، عیسیٰ، بدھ اور مہاویر سمیت دنیا میں کوئی بھی ایسا دانشور نہیں ہوا، جو متنازعہ نہ رہا ہو۔ بہر حال، کئی لوگوں کو آج بھی یاد ہے بوفورس توپوں کے مشہور معاہدے میں دلالی یعنی بد عنوانی کے معاملے کو لےکر وشوناتھ پرتاپ سنگھ نے، اپنے ‘ راجا نہیں، فقیر ی’ والے دنوں میں کیسی اخلاقیات کے ایک سے بڑھکر ایک اونچے اور نئے معیاری اصول گڑھے!
اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کے خلاف اپنی مہم کو کانگریس مخالف رائٹ اور لیفٹ ونگ کی جماعتوں کی ناممکنہ یکجہتی تک لے جاکر وہ وزیر اعظم بنے تو عوام کے نام پہلے پیغام میں کہا تھا-آج میں جنت لانے کا وعدہ تو نہیں کر سکتا، لیکن یقین دلاتا ہوں کہ ہمارے پاس ایک بھی روٹی ہوگی تو اس میں پورے ملک والوں کا منصفانہ حق متعین کیا جائےگا اور ترقی کے فائدوں کی منصفانہ تقسیم ہوگی۔
کئی لوگ ہندوستان کی سیاست میں سماجی انصاف کے کئی نئے محاورے گڑھنے کا سہرا بھی انہی کو دیتے ہیں۔ لیکن منصفانہ تقسیم یعنی مساوات کے راستے سے سماجی انصاف کے اپنے اس خواب کو وہ منڈل کمیشن کی سفارشیں نافذ کرنے تک لے گئے تو جیسے قہر سا برپا ہو گیا۔ الزام لگائے جانے لگے کہ ان کو ہیرو بنانے والے حکمراں جنتادل میں اندرونی جدو جہد چھڑا اور ‘ تاؤ’ یعنی دیوی لال کی بےحد جارحانہ آواز کو دبانے کے لئے ضروری ہوا تو انہوں نے اس کمیشن کے جن کو جان بوجھ کر بوتل سے باہر نکالا۔
اس سے ناراض نوجوانوں کے ایک گروپ کی خودسوزی جیسے قدموں تک جا پہنچنے کے بعد ان کی حامی بھارتی جنتا پارٹی نے کمنڈل یعنی رام مندر کے مدعا کو آگے کر ایسی اتھل پتھل مچائی کہ بوفورس کا مدعا کہیں پیچھے چھوٹ گیا۔ پھر تو فرقہ پرستی اور سیکولرزم کی فری اسٹائل کشتی میں ان کی حکومت پر ایسی آ بنی کہ ان کا وزیراعظم پن اپنی سالگرہ تک نہیں منا سکا۔
لیکن اس دوران جس ایک چیز نے وشوناتھ پرتاپ سنگھ کو وشوناتھ پرتاپ سنگھ بنایا، وہ تھا ان کا یہ دو ٹوک بیان کہ بھلےہی گول کرنے میں میری ٹانگ ٹوٹ گئی، لیکن گول تو ہوکر ہی رہا۔ ہاں، ایک بار قدم آگے بڑھا دینے کے بعد انہوں نے پیچھے مڑکر دیکھنا گوارا نہیں کیا۔ نہ ہی منڈل کمیشن کی سفارشوں کے بارے میں اور نہ ہی ایودھیا کے مندر مسجد تنازعے کے بارے میں۔ ایودھیا میں کئی لوگ آج بھی کہتے ہیں کہ رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعے میں ان کی حکومت کے ذریعے مجوزہ حصول اراضی کی پہل کو سازش کے بطور متنازع بناکر ناکام نہ کر دیا گیا ہوتا تو کون جانے آج تنازعہ کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔
ایسا نہیں ہو پایا تو صرف اس لئے کہ کچھ لوگوں کو اس تنازعے کو سیڑھی بناکر اقتدار تک پہنچنا تھا۔ جیسا کہ اوپر کہہ آئے ہیں، ان کی سیاسی شخصیت کے تئیں متوسط طبقے کا خواب ان کے اقتدار میں رہتے ہی ٹوٹ چکا تھا۔ کبھی ان کی ایمانداری کے پیچھے پاگل رہنے والے اس طبقے کو بعد میں وہ پھوٹی آنکھوں بھی نہیں سہاتے تھے۔ اس ‘ تبدیلی ‘ کو کچھ اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ متوسط طبقہ کے خواب والے دنوں میں وہ بوفورس توپ دلالی کے مدعے پر وزیر کے عہدے کو لات مار آئے تو اس طبقے میں ایک لمحہ بہت مقبول عام تھا۔ایمانداری کا ذائقہ کیسا لگتا ہے آپ کو ؟ اس کو تو بتا سکتے ہیں صرف وشوناتھ پرتاپ!
لیکن بعد میں ‘ راجا نہیں، رنک ‘ والے دنوں میں اس کا مقام اخباروں میں چھپنے والی اس طرح کی سرخیوں نے لے لیا-آندھی سے ابھرا ایک نام جو گرد میں سما گیا! چونکہ وہ ‘ ملک کا کلنک ‘ بن گئے تھے، اس لئے ان کے تئیں بے عزتی جتانے والے لفظی ‘ انتقام ‘ ان کے اس دنیا کو چھوڑ جانے کے بعد بھی عرصے تک جاری رہی۔ کئی عظیم شخصیتوں کے ذریعے ان کو بےحد ہمت والے اور پیچیدہ سیاست داں تک بتایا جاتا رہا!
اس انداز میں کہ جیسے ہمت والا ہونا بھی پیچیدہ ہونا ہی ہو! ان کے جنتادل کو لوک سبھا کے اگلے مڈ ٹرم الیکشن میں متوسط طبقے کو ناراض کرنے والی ان کی پالیسیوں کا بھاری برا نتیجہ بھوگنا پڑا تھا، جن میں بڑا حصہ منڈل کمیشن کی سفارشوں سے پھوٹے طوفان کا تھا۔ پر اس سے متاثر ہوئے بغیر وشوناتھ پرتاپ سنگھ کہا کرتے تھے کہ سماجی تبدیلی کی جو مشعل انہوں نے جلائی ہے اور اس کے اجالے میں جو آندھی اٹھی ہے، اس کا منطقی انجام تک پہنچنا ابھی باقی ہے۔ ابھی تو سیمی فائنل بھر ہوا ہے اور ہو سکتا ہے کہ فائنل میرے بعد ہو۔ لیکن اب کوئی بھی طاقت اس کا راستہ نہیں روک پائےگی۔
آج، ان سے متفق یا غیرمتفق، کون کہہ سکتا ہے کہ وہ غلط تھے؟ ایسا تو وہ بھی نہیں کہتے، جو ان کے بوئے سماجی انصاف کی بھرپور سیاسی فصل کاٹتے ہوئے بھی ان کے تئیں احسان فراموش بنے رہے اور جن کی احسان فراموشی اور ناشکرگزاری نے آخرکار سماجی انصاف کی مقدس جدو جہد کو اس کے مخالفوں کی فرقہ وارانہ بھیڑچالوں کے سامنے جھکا کرکے ہی دم لیا۔ ایک اور خاص بات یہ کہ وشوناتھ پرتاپ سنگھ کے راج نیتا کے اندر ایک حساس شاعر اور مصور بھی پائے جاتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ سیاست داں کی ذمہ داری سے دبے رہنے کی وجہ سے ان کی صحیح سے تشخیص نہیں ہو پائی اور شاید آگے ہو بھی نہیں۔
آج جب وہ نہیں ہیں اور امریکی تسلط کو نئی سمت دینے والی گلوبلائزیشن کی خراب پالیسیوں سے محصور ہماری ساری کی ساری سیاست متوسط یا کہ اعلیٰ متوسط طبقہ کی چیری بنکر دلتوں، محروم اور غریبوں کے تئیں بہت زیادہ بےحس ہو گئی ہے، ان کے جیسے ایسے رہنما کی کمی بےحد کھلتی ہے، جو متوسط طبقہ کی ناراضگی کی پرواہ کئے بغیر حکومتوں کو غریب مخالف پالیسیوں اور قدموں سے دور رکھے۔
اپنے آخری دنوں میں ایک پروگرام میں وہ فیض آباد آئے تو ان سطروں کے مضمون نگار کے ساتھ ایک غیر رسمی ملاقات میں کہا تھا کہ ملک کے مسائل کا حل صرف اس لئے گم ہوا جا رہا ہے کہ رہنماؤں کو حل کھوجنے کے بجائے ان کے استعمال سے اقتدار میں بنے رہنے میں مزہ آنے لگا ہے۔ رہنماؤں کی خود سپردگی کی وجہ سے ہی عالمی سرمایہ قدم قدم پر ہمارے ملک و ریاست اور اس کے اقتدار پر غیرقانونی قبضہ کر رہی ہے اور گلوبلائزیشن یکطرفہ ہوکر ہم پر گاج گرا رہا ہے۔
انہوں نے پوچھا تھا کہ گلوبلائزیشن کو انتہائی ضروری بتانے والے یہ رہنما مناسب منچوں پر اس کو منصفانہ بنانے کی مانگ کیوں نہیں اٹھاتے؟ کیوں نہیں سرمایہ کے تسلط کے خواہش مند ممالک سے کہتے کہ سرمایہ کے گلوبلائزیشن کو ہم تبھی منظور کریںگے جب خدمات اور مزدوری کا بھی گلوبلائزیشن کیا جائے۔ جیسے ان کا سرمایہ ہمارے ملک میں سستی مزدوری کی بے روک ٹوک شکاری ہو گئی ہے، ویسے ہی ہمارے ورکر ان کے ممالک میں جاکر اپنی محنت کی ٹھیک ٹھاک قیمت پانے لگیں تو گلوبلائزیشن ہمارا کیا بگاڑ لےگا؟
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔ )