گووند پانسرے مزدوروں کے لئے لڑتے ہوئے لگاتارحکومت کی پالیسیوں کو تنقیدکا نشانہ بناتے رہے۔ انہوں نے آر ایس ایس کے ذریعے ناتھو رام گوڈسے کو شہید بتانے کے خلاف بھی مورچہ کھولا تھا۔
گووند پانسرے، فوٹو: پی ٹی آئی
پچھلی نسل سے ہم یہی شکایت سنتے ہیں کہ، برہمن اشرافیہ طبقے نے ہماری تاریخ کو مسخ کیاہے، تاریخ اور پرانوں میں انہوں نے فرضی کہانیاں بیان کی ہیں۔ اس نسل کے لوگوں نے شکایت کے سوا کچھ نہیں کیا، پر آپ نوجوانوں کی ذمہ داری بنتی ہے، زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں اور منطق و ادراک کی بنیاد پر صحیح تاریخ کو پیش کریں۔
یہ جملے مجھے آج بھی یاد ہیں۔سال 2014 ،23 اگست کو جب کامریڈ گووند پانسرے پونے کے ایس ایم جوشی آڈیٹوریم میں’ رئتیچا راجا شیواجی’کےموضوع پر نوجوان طبقے سے خطاب کر رہے تھے ؛ تب وہاں نوجوانوں کی تعداد دیکھتے بنتی تھی۔
جون 2014 کو شیواجی مہاراج کی تصویر سے چھیڑ چھاڑ کے بعد شہر میں فسطائی طاقتوں نے فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوادینے کی کوشش کی تھی، وہی شیواجی مہاراج جو اپنے فوجیوں سے صاف کہتے تھے کہ، ‘جانےانجانے میں بھی عوام کی سبزی کے ایک پتے کو بھی نقصان نہ پہنچنے پائے اس کا خیال رہے ‘۔وہیں شیواجی کے نام پر شہر میں لوٹاپاٹ، توڑپھوڑ کے واقعات ہو رہے تھے۔ اس کشیدگی بھرے ماحول میں پونے میں مسجد سے نماز پڑھکرلوٹتے ہوئے، ‘
محسن شیخ ‘ نامی آئی ٹی پروفیشنل کو مار مار کر قتل کر دیا گیا۔
مہینے بعد بھی شہر میں کشیدگی کم نہیں ہو پائی تھی۔ اسی طرز پر شہر میں’لوکایت’ اور ‘ستیہ شودھک سانسکرتک منچ ‘کے ذریعے’ رئتیچا راجا شیواجی’کےموضوع پر خصوصی لکچر کا انعقاد کیا گیا تھا۔ ان میں بڑے سینئر کمیونسٹ رہنما گووند پانسرے کے ساتھ ڈاکٹر رام پنیانی بھی تھے۔محسن کے قتل پر احتجاج درج کرتے ہوئے پانسرے نے پونے کے نوجوان کو اصل ‘بہوجن پرتی پالک’ شیواجی سے واقف کرایا تھا۔ پانسرے نے اپنے گہرے مطالعے سے شیواجی کی اصل امیج لوگوں کے سامنے پیش کی، وہ تقریر یو ٹیوب پر سنی جا سکتی ہے۔
70کی دہائی کے بعد مہاراشٹر کے ہندتووادی تنظیموں نے شیواجی کے نام کا استعمال مسلم مخالف ایجنڈے کے طور پر کیا۔ شیواجی مہاراشٹر کے سماجی اورسیاسی تہذیب کے مرکز میں رہے۔ یہاں کے لوگوں کا شیواجی کے ساتھ جذباتی لگاؤ تھا جس کو سیاسی جماعتوں نے اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا۔ اپنی عوام مخالف سیاست کو آگے لے جانے کے لئے شیواجی کو ‘ہندو راجا ‘کے طور پر مشتہر کرنے کی کوششیں تیز ہو چکی تھیں۔ تب اس کا احتجاج کرنے کے لئے اور شیواجی کے اصلی چہرے کو سامنے لانے کے مقصد سے 1988 میں پانسرے نے مراٹھی میں’شیواجی کون ہوتا ‘ نامی 80 صفحات کا مختصر کتابچہ لکھا۔
جو لوگ اس کتاب کو پڑھتے ہیں تاریخ، سماج اور زندگی کے بارے میں ان کے سوچنے کا نظریہ ہی بدل جاتا ہے۔ نوجوان طبقے میں یہ کتاب خاصی مقبول عام ہیں۔ نوجوانوں کے دل میں بسی غلط فہمیاں نکالنے کے لئے مہاراشٹربھر میں وہ دورے کرتے رہے۔ عوامی بیداری کے مقصد سے انہوں نے کل 12 کتابیں تحریر کیں۔ جن میں’ دوورنیئ سکچھا ویوستھا’، مارکسواد کا پریچے، مسلم ترشٹی کرن کا سچ، راج رشی شاہو کی وراثت، منڈل آیوگ، سچر سمیتی وغیرہ۔ ‘ شیواجی کون تھا؟ ‘کے 27 سال میں 29 ایڈیشن پانچ اہم زبانوں میں شائع ہوئے ہیں اور دو لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔
یہ ایک برا وقت تھا کہ 12 فروری کو میں نے کامریڈ گووند پانسرے (اننا)سے فون پر بات کی تھی۔ پونے مراٹھواڑا متر منڈل شکچھِک سنستھان میں منعقد شیو جینتی تقریب میں خصوصی مہمان کے لئے ان کو مدعو کرنا تھا،’مذہبی روادار چھترپتی’کے موضوع پر ‘ مسلمانوں کے تناظر میں شیواجی مہاراج کا کردار ‘ تقریب کا موضوع تھا، تب انہوں نے کہا تھا کہ،20 کو پارٹی قومی عاملہ کی میٹنگ ہے، اس لئے میں نہیں آ سکتا۔
جس 20 فروری کی میٹنگ کی بات وہ کر رہے تھے، ان کو کیا پتہ تھا کہ وہ دن ان کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوگا۔شیواجی کی سیکولر شخصیت کی تشریح کرنے والے ماسٹر پیس’شیواجی کون تھا؟ ‘ لکھنے والے کمیونسٹ رہنما گووند پانسرے 20 فروری 2015 کو ہمارے بیچ سے جا چکے تھے۔ اس طرح کامریڈ پانسرے کا جانا ملک کی عوامی تحریک کے لئے ایک بڑا نقصان ہے۔
اپنی پوری زندگی احتجاج سے لےکر تنظیم،تحریر سے لےکر تخلیقی کام وغیرہ تمام محاذوں پر پانسرے فعال رہے۔ وہ ایک بےباک کمیونسٹ کارکن تھے۔ مزدوروں کے لئے لڑتے ہوئے وہ سماجی سوالوں اور حکومت کی پالیسیوں پر لگاتار تنقید کرتے رہے۔ حال ہی میں پانسرے جگہ جگہ جلسےکرکے آر ایس ایس کا ناتھو رام گوڈسے کو شہید کے طور پر مشہور کروانے کی قواعد کے خلاف مورچہ کھولے ہوئے تھے۔ ہیمنت کرکرے کے قتل کے پیچھے کسی گہری سازش کی طرف اشارہ بھی کر چکے تھے۔
موت سے کچھ دن پہلے شیواجی یونیورسٹی میں’شاہو گرنتھ مہوتسو’ میں گوڈسے پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے بعد سے ہی ان کو لگاتار دھمکیاں مل رہی تھیں۔ کولہاپور کے بھارتی لوک آندولن کے لوگ شہر میں لگاتار امن کا ماحول بنانے کی کوشش میں تھے۔ پھر بھی ان پر حملہ ہوا۔ حملے کے بعد سبھی کو لگ رہا تھا کہ وہ آئیںگے اور کہیںگے’چلو بہت کام رکا ہے، جلدی سے پورا کریں ‘پر افسوس وہ ہاسپٹل کے بیڈ سے اٹھ نہیں پائے، چار دن میڈیکل بلیٹن دینے والی خبر ایجنسیاں اچانک موت کی خبر دے گئی۔
اتفاقاً ڈاکٹر دابھولکر قتل معاملے سے اس حملے کی مماثلت ہیں، مہاراشٹر کی عوام چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ پانسرے کی موت کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں جس کے ہاتھ دابھولکر کے خون سے رنگے ہیں۔ جس طرح دن-دہاڑے موٹرسائیکل پر سوار نوجوانوں نے پانسرے کی گردن پر گولیاں چلائی جب وہ صبح ٹہلکر لوٹ رہے تھے۔ ٹھیک اسی طرح دابھولکر پر گولیاں چلائی گئی تھیں۔
سماجی خدمت گار اور سیاسی تجزیہ کار اس حملے کو عقلیت پسندی اور اظہاررائے پر حملہ بتاتے ہیں، مرکز میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد تیزی سے بڑھ رہے ناتھو رام پرستوں کو قتل کی وجہ سماجی خدمت گار مانتے ہیں، رائٹ ونگ اور ہندتووادی طاقتوں نے پہلے دابھولکر کا قتل کیا اب پانسرے کا۔ اس موضوع پر’ ہو کلڈ کرکرے ‘کے مصنف اور مہاراشٹر کے سابق آئی جی شمس الدین مشرف نے نجی نیوز چینل کو رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ،’26/11 کی ممبئی حملے پر لکھی میری کتاب میں شائع ستیہ ویاکھیان مالا کے ذریعے باہر لانے کے لئے پانسرے پابند تھے، ان کو پتہ تھا کہ پانسرے ان پر حاوی ہو سکتے ہیں، اس لئے ان کو مروایا گیا ہے۔
‘پونے میں 23 فروری 2015 کو سانے گروجی میموریل میں منعقد احتجاجی جلسہ میں شہر کے تمام تغیرپسند تحریک کے سماجی خدمات گار موجود تھے، وہاں صاف طور پر سبھی نے کہا کہ ناتھو رام کے پجاریوں کو اس کا ذمہ دار مانا جانا چاہیے۔ کولہاپور میں دسمبر میں ہوئے ایس ایم مشرف کی کتاب کے مذاکرے کی صدارتی تقریر اور یونیورسٹی میں دئے گئے خطاب میں وہاں کے کچھ طلبا کے نمائندوں سے ہوئی نظریاتی جھڑپ بھی قتل کی وجہ مانی جا رہی ہیں۔ خیر جو بھی ہو مہاراشٹر کے جمہوریت پسند کارکن آج ہمارے درمیان نہیں ہیں۔
مہاراشٹر میں پانسرے کے قتل کے بعد دانشور طبقے کے خیمے میں بڑی تشویش ہے، مخصوص نظریاتی کردار ادا کرنے والے اس قتل کے بعد سکتے میں آ گئے ہیں، دابھولکر قتل کے بعد صوفی ادب کے تجزیہ کار ڈاکٹر سدانند مورے کو’خاموش ہو جاؤ ورنہ تمہارا حال بھی دابھولکر کی طرح کریںگے’اس طرح کی دھمکیاں ملنی شروع ہو گئی تھیں، اسی طرح انسانی حقوق کے کارکن اسم سرودے کو بھی دھمکیاں ملنے لگی تھیں، کامریڈ گووند پانسرے کو بھی پچھلے کچھ دنوں سے فون کالز اور دھمکی بھرے خط آتے رہے تھے۔
پانسرے غریب طبقے کے مسیحا کے روپ جانے جاتے تھے، مہاراشٹر میں ان کی پہچان ایک دانشور اور ایک ماہر منتظم کے روپ میں تھی۔ ہمیشہ سماج کے ہر طبقے میں ان کا اٹھنا بیٹھنا رہا۔ چائے والے سے لےکریومیہ مزدور ٹھیلے والے، ٹپری والے، اپنے ذہنی اور نظریاتی مخالفین سے بھی ان کا اچھا معاملہ رہا ہے ان میں سے تو کوئی ان کا قتل کرنے سے رہا، پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ قتل کس نے کیا؟ شک کی سوئی سیدھے رائٹ ونگ کی طرف جاتی ہے۔
جانچکے تمام دکھاوے کے باوجود آج تک دابھولکر اور پانسرے کے قاتل پکڑے نہیں گئے ہیں۔احتجاج کرنے والوں کی مانگیں صرف اتنی تھیں کہ، دابھولکر کی طرح اس کی جانچ نہ ہو۔ لیکن میڈیا کے علاوہ ان کی سننے والا کوئی نہیں تھا، مہاراشٹر حکومت میں Food and Drugs Administration Civil Supplies and Consumer Protection Parliamentary Affairsکے وزیر گریش باپٹ کا گھر احتجاجی مقام سے محض 100 فٹ کی دوری پر تھا، ان کو اس بھوک ہڑتال کی خبر لینے میں پورے چار دن لگے۔ جب وہ آئے تو انہوں نے کہا کہ، آپ بھوک ہڑتال بنائے رکھیں، اور اس کو ختم نہ کرتے ہوئے سلسہ وار طریقے سے اس کو جاری رکھیں، اس سے حکومت پر دباؤ بنا رہےگا۔ ریاست کے ذمہ دار وزیر کا یہ بیان تھا۔
اس کے بعد حکومت کی طرف سے کسی نے اس بھوک ہڑتال کرنے والوں کا ذکر تک نہیں کیا، جو بھی ہو۔ یہاں اس بات سے میں آپ کو واقف کرانا چاہتا ہوں کہ، کامریڈ گووند پانسرے کی حمایت میں مہاراشٹر کے تمام نوجوان اکٹھا ہوکر حکومت اور انتظامیہ کے خلاف سڑکیں جام کر رہے ہیں، فیس بک پر اپنا تلخ رد عمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ وہی نو جوان طبقہ تھا، جن کو پانسرے نے اصل شیواجی سے متعارف کرا کر صحیح سمت میں لانے میں مدد کی تھی۔
پہلے دابھولکر اور پھر پانسرے کے قتل نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ قدامت پسند اور فسطائی طاقتوں کا مقابلہ اس ملک کے مزدور آندلون ، طلبا اورنوجوان کی تحریک کو اپنی طاقت کے دم پر سڑکوں پر اترکر کرنا ہوگا۔ یقینی طور پر کورٹ کچہری کی لڑائی آئینی ہے، لیکن 67 سال کی تاریخ نے یہ دکھا دیا ہے کہ فسطائی قوتوں کے خلاف کچہری کی لڑائی سے ہی کام نہیں چل سکتا اور کورٹ کی اپنی بھی کچھ حدیں ہیں۔آئینی دائرے کے اندر موجود عوامی’اسپیس’ کا بھی ہمیں زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا ہوگا پر محض یہی کافی نہیں ہے۔ اسی طرح مہاراشٹر میں بی جے پی کی حکومت اور مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ گووند پانسرے اور دابھولکر کے قتل کے ملزمین کی تلاش کریں اور ان کو سزا دلوائیں۔