ڈاکٹر امام اعظم کی ادب دوستی،ادب نوازی اور ادبی فعالیت قابل رشک رہی۔انہیں اردو ادب سے والہانہ عشق تھا۔
سید اعجاز حسن امام اعظم اس دنیا میں نہیں رہے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔اس ابدی حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ ہم سب کو اس دار فانی سے کوچ کرنا ہے۔ البتہ موت کی خبریں کبھی کبھی بے حد مغموم کر جاتی ہیں۔یقین کا پیکر جھلملانے لگتا ہے کہ جن سے ملاقاتوں اور باتوں کی خوشبو ابھی تازہ ہے،وہ داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں۔
ڈاکٹر اما م اعظم (20 جولائی 1960-23 نومبر 2023) ایک مخلص،ہمدرد اور دھُن کے پکے شخص تھے۔ نرم خو واقع ہوئےتھے۔ملنے جلنے کا حسین سلیقہ پایا تھا،گفتگو کا انداز ایسا تھا کہ سامنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔میں نے انہیں نوجوانوں کی ہمت افزائی کرتے ہوئے بھی قریب سے دیکھا ہے۔خوش لباس ہونے کے ساتھ ساتھ صفائی پسند اور سلیقہ مندی میں طاق تھے۔ مہمان نوازی ان کی خصلت تھی۔کہتے تھے’دسترخوان پہ تنہااچھا نہیں لگتا ‘۔
اپنے بال بچوں سے ان کا سلوک ہمیشہ شفقت آمیز ہوا کرتا تھا۔اُن کی تربیت میں انہوں نے کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا تھا۔ان کا ایک بیٹا ڈاکٹر اور دوسرا بیٹا انجینئر ہے۔ بیٹی بھی ڈاکٹر ہے۔اہلیہ اسکول ٹیچر ہیں۔انہوں نے اپنے پیچھے بھرا پرا کنبہ چھوڑا ہے۔
تعلقات نبھانے کے معاملے میں میں ان کی مثال مشکل سے ملے گی۔ان کی خوبیوں کا ذکر اس لیے بھی ہونا چاہیے کہ اب بے لوث لوگوں سے دنیا خالی ہوتی جاتی ہے۔ ان کے ذاتی خصائل کے اثرات ہی ہیں کہ دنیائے علم و ادب میں ان کوشہرت و مقبولیت حاصل رہی۔
وہ ہمہ جہت قلم کار تھے۔ دنیائے شعر و ادب میں اپنی گونا گوں کاوشوں کے سبب مستحکم شناخت رکھتے تھے۔ شاعری اور نثر نگاری دونوں سے گہری دلچسپی تھی۔
ان کے شعری مجموعے ‘قربتوں کی دھوپ’ (مطبوعہ:1995) اور ‘نیلم کی آواز’ (مطبوعہ: 2014) ادبی حلقوں میں بے حد پسند کیے گئے۔ تنقید و تحقیق کے حوالے سے ان کی کتاب ‘مظہر امام کی تخلیقات کا تنقیدی مطالعہ’اہمیت کی حامل ہے۔
انہوں نے عبدالغفور شہباز پر ساہتیہ اکاڈمی کے لیے مونوگراف بھی لکھا۔ ‘اردو شاعری میں ہندوستانی تہذیب: کثرت میں وحدت کا اظہار’ بھی ان کی فکر انگیز کتاب ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے کئی کارآمد کتابیں ترتیب دیں، جن میں ‘نصف ملاقات’ (مرحوم مشاہیر ادب کے خطوط مظہر امام کے نام۔ مطبوعہ: 1994)، ‘مولانا عبدالعلیم آسی: تعارف اور کلام’ (مطبوعہ: 2003ء)، ‘عہد اسلامیہ میں دربھنگہ اور دوسرے مضامین’ (2009ء)، ہندوستانی فلمیں اور اُردو’ (2012ء)،’اکیسویں صدی میں اردو صحافت’ (2016ء) اور ‘نقوش علی نگر: تبصرے اور تجزیے’ (2018ء) بعض ایسی کتابیں ہیں جن کے مضامین معیاری اور موضوع کو جلا بخشنے والے ہیں۔
ان کے مضامین کے تین مجموعے بھی شائع ہوئے،’گیسوئے تنقید'(2008ء)، ‘گیسوئے تحریر’ (2011ء) اور ‘گیسوئے اسلوب’ (2018ء) جو ان کی ادبی شخصیت کو مستحکم کرتے ہیں۔ انہوں نے ‘انساب و امصار'(2022ء)کے نام سے شمالی بہار کے گیارہ خانوادوں کی تفصیلات اور مختلف علاقوں پر مضامین بھی بڑی عرق ریزی سے جمع کر کے شائع کیا تھا۔
دربھنگہ کے بعد کولکاتا ان کا میدان عمل رہا۔جہاں ملازمتی ذمہ داریاں (مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے ریجنل ڈائرکٹر ،کولکاتا)نبھاتے ہوئے انہوں نے اہم ادبی کارنامے انجام دیے، اس سے قبل وہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ریجنل سینٹر دربھنگہ کے بانی ریجنل ڈائریکٹربھی رہے۔
بہر کیف، کولکاتا میں قیام کے دوران انہوں نےاٹھارہ کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔ کولکاتا کو ہی مرکز میں رکھ کر انہوں نے دو کتابیں شائقین ادب کو دیں۔
ابھی گزشتہ سال ادبی مضامین کا مجموعہ ‘نگار خانہ کو لکاتا’شائع ہواتھا، جس کے محتویات میں کولکاتا کے ادبا کی خدمات کو پیش کیا گیا ہے۔ حال ہی میں ان کی تصنیف ‘یہی کولکاتا ہے!’بھی منظر عام پر آئی تھی۔
ادبی صحافت کی بات کریں تو رسالہ ‘تمثیل نو’انہی کی ادارت میں شائع ہو رہا تھا۔ اس کے کئی خاص شماروں اور گوشوں نے نئے ادبی مباحث کو بھی جنم دیا۔ سنجیدہ ادبی حلقے میں ان کی اس ادبی کارگزاری کو بنظر تحسین دیکھا گیا۔ابھی اس رسالے کاایک شمارہ وہ پریس بھیج چکے تھے، جس میں کئی گوشے شامل ہیں۔
بہرحال، ڈاکٹر امام اعظم ان خوش نصیب تخلیق کاروں میں رہے، جن کی خدمات کا اعتراف ان کی حیات میں بھی کیا گیا۔ یوں دیکھیں تو ان کی شخصیت اور فن کاری کے حوالے سے کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔
اس کے علاوہ ‘دربھنگہ کا ادبی منظر نامہ: ڈاکٹر امام اعظم کی ادبی و صحافتی خدمات کے حوالے سے’ کے موضوع پر ڈاکٹر سرور کریم نے متھلا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔یہ مقالہ بھی کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے۔سید محمود احمد کریمی نے ان کے شعری مجموعہ ‘قربتوں کی دھوپ’ کا انگریزی میں ترجمہ کیا جو 2018 میں کتابی صورت میں شائع ہوئی۔
یہاں ان کی حالیہ تصنیف’نگارخانہ کولکاتا’ کی بات کریں تو یہ کتاب متفرق شخصیات اور ان کے کارناموں پر محیط ہے، لیکن ان میں جو قدر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ سبھی قلم کاروں کا تعلق اردو کے ایک اہم مرکز کولکاتا سےہے۔اس میں ‘کولکاتا میں اردو صحافت’ کے عنوان سے ایک وقیع مضمون بھی شامل ہے جس میں تمام ممکنہ گوشوں کو روشن کرنے کی سعی ملتی ہے۔
‘نگار خانہ کولکاتا’ میں شامل مضامین اصناف ادب کے اعتبا ر سے بھی تنوع رکھتے ہیں۔اس میں صحافت، شاعری،ناول،افسانہ،ادب اطفال،ڈرامہ،مکتوب،سفر نامہ کا مطالعہ صاحب کتاب کی وسیع النظری کہی جائے گی۔اگر زمانی اعتبار سے دیکھا جائے تو تقریباً ڈیڑھ سو برس پر محیط عنوانات یہاں موجود ہیں۔
اسی کڑی میں ایک اور اہم کتاب ‘یہی کولکاتا ہے!’ جسے مختصر منظوم ادبی تاریخ کا نام دیا گیا ہے دراصل یہاں 279 مشاہیر کے حوالے سے کولکاتا کا منظرنامہ نثری نظم کے پیرایے میں جلوہ بکھیر رہا ہے۔
اس کتاب کامقدمہ اتنا وقیع ہے کہ کولکاتا کو اختصار سے جاننے والوں کے لیے اس میں دلچسپی کا خوب سامان ہے۔
جہاں بہت ساری شخصیات کولکاتا کو ناموری عطا کرتی ہیں وہیں رابندر ناتھ ٹیگور کو انفراد و امتیاز حاصل ہے۔ ان ذکر کے بغیر ہندوستان کی تاریخی اور ادبی گفتگو مکمل نہیں ہو سکتی ہے۔ڈاکٹر امام اعظم نے ان کی ادبی اور تاریخی حیثیت کو اجاگر کرتے ہوئے ان کے افکار کے اثرات کو بھی اس کتاب میں اپنی تخلیق کا حصہ بنایا ہے۔اس حوالے سےنظم کا ایک حصہ ملاحظہ کیجیے؛
‘………جہاں علم ہوتا ہے/روشنی ہوتی ہے/جہاں قلم ہوتا ہے/آگہی ہوتی ہے/پھر یہی روشنی اور آگہی/ تدبیر اور تدبّر کو/ایک نئی سمت عطا کردیتی ہے/ربندر ناتھ ٹیگور /دراصل ایسے ہی خاندان کے فرد تھے۔’
اس میں جہاں ڈاکٹر امام اعظم کی زبان شستہ ہے اور بیان میں سلاست و روانی ہےوہیں تحقیقی اور تاریخی امور پر بھی ان کا قلم کہیں گنجلک نہیں ہوتا۔
اسی کے باعث ‘یہی کولکاتا ہے!’کی نثری نظمیں انہیں محقق و شاعر کی حیثیت سے الگ پہچان عطا کرتی ہیں۔ابتدائی نظموں میں ایک خاص قسم کا آہنگ پایا جاتا ہے اور الفاظ کا حسن متاثر کیے بغیر نہیں رہتا۔اس طور پر تاریخ و تحقیق کی رسائی دلوں تک بہ آسابنی ہو جاتی ہے۔ملاحظہ کیجیے ایک بند؛
از نگاہ تا بہ خیال /جلتا بجھتا جاگتا اونگھتا/عالم میں بے نظیر/شہرِ جمال، شہرِ نگار/حیرت و استعجاب سے بھرا/جس کا ہر پہلو /کچھ نئی، کچھ پرانی داستان سناتا ہے /ہاں وہی جو پہلے کلکتہ تھا/اب کولکاتا ہے!’
مجموعی طور پر ڈاکٹر امام اعظم کی ادب دوستی،ادب نوازی اور ادبی فعالیت قابل رشک رہی۔انہیں اردو ادب سے والہانہ عشق تھا۔صرف دربھنگہ کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان کی کارکردگی میں منجھے ہوئے اہل قلم کے ساتھ ساتھ نوجوان قلمکاروں کی ہمت افزائی،انہیں لکھنے پہ آمادہ کرنا،ان کی مدد کرنا،یہاں تک کہ ان کی تحریروں کو شائع کرنا شامل رہا ہے۔ان کی دارت میں ادبی رسالہ’تمثیل نو’ شائع ہو رہا تھا۔اس رسالے کے تمام مشمولات ان کی محنت شاقہ کی تمثال ہیں۔دربھنگہ کے بزرگ ادباء سے لے کر مبتدی حضرات تک ان کی ادبی کوشش کی رسائی تھی۔
وہ اردو زبان وادب کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔بڑے ادبی تقاریب سے لے کرچھوٹی چھوٹی کامیاب نشستوں تک کی فہرست طویل ہے جن کا انعقاد انہوں نے دربھنگہ میں کیا۔ان کی گفتگو میں اردو اور کاوشوں میں اردو شامل رہی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے دربھنگہ میں اردو کا دوسرا نام ڈاکٹر امام اعظم ہی تھے۔گو کہ وہ اب ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن ان کی علمی اور ادبی کار گزاریاں اہل علم کو ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔