کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم نے ہیٹ اسپیچ سے متعلق 2010 کےایک معاملے میں ارندھتی رائے کے خلاف مقدمہ چلانے کی منظوری دینے کے لیے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ کے اقدام کی تنقید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تقاریر کی جاتی ہیں، بھلے ہی دوسرے لوگ ان سے کتنے ہی اختلاف رکھتے ہوں، حکومت کو تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
نئی دہلی: کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم نے ہیٹ اسپیچ سے متعلق 2010 کے ایک معاملے میں ارندھتی رائے کے خلاف مقدمہ چلانے کی منظوری دینے کے لیے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی) وی کے سکسینہ کےاقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘ایل جی اور ان کے آقاؤں کی حکمرانی’ میں رواداری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
سابق وزیر داخلہ چدمبرم نے کہا کہ رائے کے خلاف 2010 میں سیڈیشن کے الزام میں مقدمہ درج کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا اور اب ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
چدمبرم کا یہ تبصرہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ایل جی نے ارندھتی رائے اور ایک سابق کشمیری پروفیسر شیخ شوکت حسین کے خلاف 2010 میں نئیدہلی میں ایک کانفرنس میں مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقاریر سے متعلق ایک کیس میں مقدمہ چلانے کی منظوری دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ رائے اورحسین کے خلاف ایف آئی آر میٹروپولیٹن مجسٹریٹ، نئی دہلی کی عدالت کے فیصلے کے بعد درج کی گئی ہے۔
اس واقعے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے چدمبرم نے سوشل سائٹ ایکس پر کہا، ‘ مشہور مصنفہ اور صحافی ارندھتی رائے کی تقریر کے حوالے سے میں نے 2010 میں جو کہا تھا اس پر قائم ہوں۔ اس وقت ان کے خلاف سیڈیشن کے الزام میں مقدمہ درج کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اب ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔’
I stand by what I said in 2010 on a speech by Ms Arundhati Roy, the well known writer and journalist
There was no justification then to register a case against her on the charge of sedition
There is no justification now to sanction prosecution against her
The law on sedition…
— P. Chidambaram (@PChidambaram_IN) October 10, 2023
انہوں نے مزید کہا، ‘سیڈیشن قانون کے بارے میں سپریم کورٹ نے ایک سے زیادہ موقع پر تبصرہ کیا ہے۔ ایسی تقریر جو براہ راست تشدد کے لیے اکساتی نہ ہو اسےسیڈیشن نہیں مانا جائے گا۔ جب تقریریں کی جاتی ہیں، چاہے دوسرے ان سے کتنا ہی اختلاف کریں، حکومت کوتحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔’
چدمبرم نے زور دے کر کہا، ‘میں بولنے کی آزادی کے حق میں ہوں اور سیڈیشن کے نوآبادیاتی قانون کے خلاف ہوں۔ دفعہ 124اےکا اکثر غلط استعمال کیا گیا ہے اس لیے اسے ختم کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا، ‘قانون کی دیگر دفعات ہیں جو تشدد پر اکسانے سے نمٹنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ واضح ہے کہ ایل جی (اور اس کے آقاؤں) کی حکمرانی میں رواداری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
دی ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق، ارندھتی رائے اور شیخ شوکت حسین کے خلاف تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 153 بی (قومی یکجہتی کونقصان پہنچانے کا الزام ) اور 505 ( بیانات کے ذریعے عوامی طور پر شر پسندی) کے تحت الزام عائد کیے گئے تھے۔
ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) کی دفعہ 196(1) کے تحت کچھ جرائم کے لیے ریاستی حکومت کی طرف سے جائز منظوری ایک شرط ہے، جیسے نفرت انگیز تقریر، مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا، نفرت انگیز جرم، بغاوت، ریاست کے خلاف جنگ اور دشمنی کو فروغ دینا۔
اس کیس کے دو دیگر ملزمان – کشمیری علیحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی اور دہلی یونیورسٹی کے لیکچرر سید عبدالرحمن گیلانی، جنہیں سپریم کورٹ نے تکنیکی بنیادوں پر پارلیامنٹ حملہ کیس میں بری کر دیا تھا، کی اس دوران موت ہو چکی ہے۔
اس سلسلے میں کشمیر کے ایک سماجی کارکن سشیل پنڈت نے 28 اکتوبر 2010 کو دہلی کے تلک مارگ پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی تھی اور الزام لگایا تھا کہ 21 اکتوبر 2010 کو ‘آزادی – واحد راستہ’ کے عنوان سے کمیٹی فار ریلیز پولیٹکل پریزنرس کے زیر اہتمام ایک کانفرنس میں بہت سے لوگوں نے ‘اشتعال انگیز تقاریر’ کی تھیں۔
پنڈت نے الزام لگایا تھا کہ کانفرنس کے شرکاء نے ‘کشمیر کی ہندوستان سے علیحدگی’ پر تبادلہ خیال کیا اور پروپیگنڈہ کیا تھا۔
بعد میں انہوں نے میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ کی عدالت میں شکایت درج کرائی تھی۔ اس معاملے میں 29 نومبر 2010 کو سیڈیشن اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ 1967 (یو اے پی اے) کی دفعہ 13 سمیت کئی جرائم کے لیے ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔