کچھ عرصہ سے داعش کے حوالے سے ملک میں کچھ ایسے واقعات پیش آرہے ہیں کہ لگتا ہے مسلم نوجوانوں کو ایک بار پھر پھنسانے کیلئے کوئی جال بچھ رہا ہے۔آسام پولیس نے مئی میں ایسے ہی ایک معاملے پوچھ تاچھ کے لئے6 افراد کو حراست میں لیا۔بعد میں معلوم ہوا وہ سبھی بی جے پی سے جڑے تھے۔
اس ظالم (ڈی آئی جی ڈی ڈی ونجارا)نے دوبارہ میری سرین پر نہایت ہی جنون اور پاگل پن سے ڈندے برسانے شروع کئے، یہاں تک کہ میرے کپڑے خون سے تر ہوگئے تو پولیس والو ں سے کہا کہ ہاتھوں پر مارو ، پھر میری ہتھیلیوں پر اتنے ڈنڈے برسائے گئے کہ ان کا رنگ بدل گیا۔ ونجارا کی نظر میرے پیروں پر پڑی توکہنے لگا کہ موٹا تازہ ہے، بھینس جیسے پیر ہیں، اس کے پیروں پر ڈنڈے برساؤ، ظالموں نے مجھے گرایا اور ایک موٹا ، مکروہ چہرے والا شخص مجھے الٹا لٹکا کر میری پیٹھ پر بیٹھ گیا، دوسرے لوگ میرے پیروں پر بیٹھ گئے، دو لوگوں نے میرے ہاتھ اور سر کو پکڑ لیا۔ پھر ونار ( ایک اور پولیس آفیسر) نے اسی حالت میں میرے پیروں کے تلوں پر ڈنڈے برسانے شروع کئے، جب وہ تھک جاتا تھا ،توکچھ دیر رک جاتا اس پر ونجارا گالی دے کر کہتا اور مارو‘ رک کیوں گئے۔ آخر کار میں بے ہوش ہوگیا۔ پیروں کے تلوے بالکل ہرے ہوگئے تھے، ہاتھوں اور پیروں میں ورم آگیا تھا، چلنا تو درکنار، پیروں پر بھی کھڑا نہیں ہوسکتا تھا۔مفتی صاحب کے بقول ریمانڈ سے قبل ان کی باقاعدہ گرفتاری یعنی 40 د ن تک رات بھر ان کے ساتھ ظلم و ستم کا بازار اسی طرح چلتا رہا۔ اس دوران ان کو بجلی کے کرنٹ دیے گئے۔ کتاب میں مفتی منصوری نے گجرات پولیس کے ظلم و تشدد کا ایسا نقشہ کھینچا ہے، کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔دوران انٹیروگیشن انکو برہنہ کرکے شرمگاہ میں موٹا ڈنڈا داخل کیا جاتا تھا اور ایک پچکاری کے ذریعے پٹرول داخل کیا جاتا تھا، پیشاب کے سوراخ میں بجلی کا تار لگاکر کرنٹ دیا جاتا تھا۔ پورے کیس کی عمارت اردو میں تحریر ان دو خطوط پر ٹکی تھی، جو پولیس کے بقول مفتی صاحب نے لکھ کر حملہ آوروں کے حوالے کئے تھے، جو بعد میں ان کی جیبوں سے برآمد ہوئے۔ فرانزک لیبارٹری نے مفتی صاحب کے ہینڈرائٹنگ اور ان خطوظ کا موازنہ کرنے کے بعد رپورٹ دی ، کہ یہ مفتی صاحب کے تحریر کردہ ہیں۔ جس کا مطلب یہی ہے، کہ مفتی صاحب حملہ آوروں سے واقف تھے، اور ان کی اعانت بھی کی۔ مگر نہ ہی نچلی عدالت اور نہ ہی ہائی کورٹ نے یہ جاننے کی کوشش کی ، کہ جب خود پولیس کے بقول حملہ آوروں کی لاشیں خون اور کیچڑ میں لت پت تھیں۔ ان کے بدن گولیوں سے چھلنی تھے اور ان حملہ آور وں کے جسموں میں 46 گولیوں کے نشانات تھے، تویہ خطوط کیونکر صاف و شفاف تھے۔معلوم ہوا کہ مفتی صاحب سے یہ خطوط تین دن تک پولیس کسٹڈی میں لکھوائے گئے تھے۔دہشت گردی کی یہ کہانی جس میں 32 بے قصور ہندو ز ائرین کی جانیں چلی گئیں ابھی بھی انصاف کی منتظر ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر وہ حملہ آور کون تھے؟ اس حملہ کی پلاننگ کس نے کی تھی؟ کس کو اس حملہ سے فائد ہ حاصل ہوا؟ آخر بے قصور افراد کو گرفتار کرکے کس کی پردہ پوشی کی گئی؟
یہ بھی پڑھیں : امروہہ کے ’دہشت گرد‘، نوئیڈا کے نمازی اور میگھالیہ کے کان مزدور
پچھلے کچھ عرصہ سے داعش کے حوالے سے ملک کے مختلف مقامات سے کچھ ایسے واقعات پیش آرہے ہیں، کہ لگتا ہے کہ مسلم نوجوانوں کو ایک بار پھر پھنسانے کیلئے کوئی جال بچھ رہا ہے۔ آسام پولیس نے گزشتہ مئی میں آئی ایس ایس کے جھنڈے لگانے سے متعلق پوچھ تاچھ کے لئے جب چھ افراد کو حراست میں لیا ۔ تو معلوم ہوا کہ وہ سبھی بی جے پی سے جڑے تھے۔مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق 7 مئی کی رات ، پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے نلباڑی ضلع کے بیلسور علاقے سے بی جے پی کے جن ممبروں کوداعش کے جھنڈے لگانے کے شک میں گرفتار کیا،ان کی پہچان تپن برمن، دوپ جیوتی ٹھکریا، سوروجیوتی بیشیہ، پولک برمن، مزمل علی اور مون علی کے طور پر کی گئی ۔ ان میں سے تپن برمن کانگریس کے سابق کاؤنسلر تھے ، جو پچھلے سال ہی بی جے پی سے جڑ گئے تھے اورگرفتاری کے وقت اس کی ضلع کمیٹی کے ممبر تھے۔واضح ہو کہ 3 مئی کو نلباڑی ضلع میں داعش کا جھنڈا ایک درخت سے بندھا ملا تھا۔ اس پر لکھے پیغام میں لوگوں سے اس گروہ میں‘شامل ہونے ‘ کو کہا گیا ہے۔اسی طرح ایک نیوز چینل نے سرینگر میں داعش کے جھنڈے کے ساتھ کئی افراد کے ویڈیو حاصل کرکے کئی دن تک اس کو اچھالا۔پولیس نے چھان بین کرکے اس جھنڈے کو سینے والے پرانے شہر میں رہنے والے ایک درزی کو جب شامل تفتیش کیا، تومعلوم ہوا کہ چینل کے رپورٹر نے ہی اس جھنڈے کو بنانے کا آرڈر دیا تھا اور پھر ویڈیو بناکر پورے ملک کو ہیجان میں مبتلا کر کے رکھ دیا۔ اس رپورٹر کے خلاف کارروائی نہ کرنے سے معاملہ اور بھی پیچیدہ ہوگیا۔لگتا ہے کہ ایک باضابطہ پلان کے تحت کشمیر میں حریت پر قد غن لگا کر نیز ہندوستان نواز کشمیری قوم پرست جماعتوں پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کیلئے سیاسی زمین تنگ کرکے کے ایک نئے سیاسی وجود کو لانچ کرنے کی تیاریا ں چل رہی ہیں۔ جب زخم کا بروقت علاج نہ کیا جائے، تو ناسور بن کر اس میں انفیکشن ہونے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے ۔ کشمیر میں سیاسی خلا کو پر کرنے کیلئے کئی طاقتیں سرگرم ہوگئیں ہیں اور ایک غیر محسوس انداز میں ان کی پشت پناہی بھی ہو رہی ہے۔ خوش قسمتی سے فی الحال ان کا دائرہ محدود ہے، مگر اگر ایسی صورت حال جاری رہی ، تو نہ صرف کشمیر کے دیگر علاقہ اس کی زد میں آسکتے ہیں، بلکہ یہ طاقتیں ہندوستان اور پاکستان کو بھی عدم استحکام سے دوچار کردیں گیں۔ جھوٹ کے سہارے بے گناہ افراد کو اپنی تفتیش کی خوراک بنا کر میڈل ترقیاں اور سیاسی مقاصد تو حاصل کئے جاسکتے ہیں، مگر دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ یہ بات جتنی جلدی نئی دہلی کے ارباب حل و عقد سمجھ سکیں، اس خطے کیلئے بہتر ہوگا۔ The post ہندوستان میں ISIS : کتنی حقیقت،کتنا فسانہ؟ appeared first on The Wire - Urdu.