این سی ای آر ٹی کی نئی کتاب سے رضیہ سلطان اور نور جہاں کو ہٹایا گیا، مغلوں کو ’جابر‘ بتایا گیا

این سی ای آر ٹی کی 8ویں جماعت کی سوشل سائنس کی نئی کتاب سے دو مسلم خواتین حکمرانوں - دلی سلطنت کی رضیہ سلطان اور مغلیہ دور کی نور جہاں – کا نام بالکلیہ ہٹا دیا گیا ہے۔

این سی ای آر ٹی کی 8ویں جماعت کی سوشل سائنس کی نئی کتاب سے دو مسلم خواتین حکمرانوں – دلی سلطنت کی رضیہ سلطان اور مغلیہ دور کی نور جہاں – کا نام بالکلیہ ہٹا دیا گیا ہے۔

نئے نصاب میں کچھ نئے خواتین کرداروں کو شامل کیا گیا ہے۔ جیسے کہ رانی درگاوتی، بیگم حضرت محل اور تارابائی۔ (علامتی تصویر بہ شکریہ: فیس بک/این سی ای آر ٹی)

نئی دہلی: دو مسلم خواتین حکمرانوں – دلی سلطنت کی رضیہ سلطان اور مغلیہ دور کی نور جہاں – کے نام کو نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) کی 8 ویں جماعت کی نئی سوشل سائنس کی کتاب سے پوری طرح سے ہٹا دیا گیا ہے۔

پرانی کتاب میں 1236 سے 1240 تک حکومت کرنے والی رضیہ کو ان کے بھائیوں سے زیادہ اہل  بتایا گیا تھا اور ان کے سکوں اور نوشتہ جات کا ذکر کیا گیا تھا، جن میں انہوں نے خود کو سلطان التمش کی بیٹی بتایا تھا۔

اسی طرح پرانی کتاب میں جہانگیر کی بیوی نور جہاں کو ایک بااثر حکمران بتایا گیا ہے جن کے نام کے فرمان جاری ہوتے  تھے۔

پرانی درسی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ نور جہاں کے نام پر مہریں جاری کی جاتی  تھیں، جن میں ایسے پیغامات تھے جو انہیں جہانگیر کی برابری کا درجہ دیتے تھے ۔

لیکن نئی کتاب میں ان دونوں خواتین کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

نئے کردار: رانی درگاوتی، تارابائی اور بیگم حضرت محل

وہیں، کچھ نئے خواتین کرداروں کو جگہ دی گئی ہے۔ مثلاًرانی درگاوتی ، جنہیں اکبر کے خلاف بہادری سے لڑنے والی حکمران کے طور پر پیش  کیا گیا ہے۔ مراٹھوں پر مبنی باب میں تارابائی کو ایک ‘نڈر جنگجو رانی’ کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 1857 کی بغاوت میں شامل رہیں بیگم حضرت محل کو ایک ‘بہادر خاتون’ کہا گیا ہے۔

این سی ای آر ٹی میں سوشل سائنس کا نصاب تیار کرنے والےگروپ کے سربراہ مشیل ڈینینو نے دی ہندو کو بتایا کہ زیادہ خواتین کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی تھی، لیکن ‘نصاب کو کم کرنے کی ہدایت’ اور ‘جگہ کی حد’ کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو سکا۔

مغل حکمرانوں کو’جابر’ بتایا گیا

دلی سلطنت اور مغل حکمرانوں کے بارے میں اب پہلی بار8 ویں جماعت میں پڑھایا جائے گا۔ ان دونوں سلطنتوں کو این سی ای آر ٹی کی 8 ویں جماعت کی نئی سوشل سائنس کی کتاب میں جگہ دی گئی ہے، لیکن انہیں جس انداز میں پیش کیا گیا ہے اس سے ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ کتاب میں مغل حکومت کو ‘جابر’ بتایا گیا ہے اور ‘عدم برداشت’ اور ‘مذہبی تشدد سے بھرا ہوا’ قرار دیا گیا ہے ۔

واضح ہو کہ پرانے نصاب میں دلی سلطنت اور مغل حکمرانوں کے بارے میں پہلی بار ساتویں جماعت کی کتاب میں پڑھایا جاتا تھا۔

یہ کتاب’ایکسپلورنگ سوسائٹی: انڈیا اینڈ بیانڈ’کے عنوان سے جاری کی گئی ہے اور اسے تعلیمی سیشن 2025-26 کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس میں 13ویں سے 17ویں صدی تک کی تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے، جس میں دلی سلطنت، وجئے نگر سلطنت، مغل اور سکھوں کے عروج کے بارے میں جانکاری دی گئی ہے۔

ساتویں جماعت کی کتاب سے مغلوں کو ہٹائے جانے کے بعد یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ این سی ای آر ٹی مغل دور کو نصاب سے ہٹانے پر غور کر رہا ہے، وہیں اب اس نئی کتاب میں مغلوں کو شامل تو کیا گیا ہے، لیکن ایک نئے نظریے کے ساتھ۔

تاہم، رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کتاب کے مختلف ابواب میں مسلم حکمرانوں کو ہی خاص طور پر ‘سفاکیت’ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

این سی ای آر ٹی نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ نئی نصابی کتابوں کا پرانے نصاب سے موازنہ کرنا ‘غیر ضروری’ ہے کیونکہ نئی کتابیں قومی تعلیمی پالیسی 2020 اور قومی نصابی فریم ورک 2023 کے مطابق تیار کی گئی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، این سی ای آر ٹی نے مغلیہ حکومت کے ظلم  وجبرکو کتاب میں شامل کرنے کی بنیاد ‘تاریخ کے کچھ تاریک ادوار’ کے عنوان سے خصوصی نوٹ میں بتائی ہے ۔

نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘وحشیانہ تشدد، جابرانہ حکمرانی یا طاقت کے گمراہ کن عزائم کے تاریخی پس منظر کو سمجھنا ماضی کو درست کرنے اور مستقبل کی تعمیر کا بہترین طریقہ ہے جہاں ان کی کوئی جگہ نہیں ہے۔’

مغل حکمرانوں کے بارے میں کتاب کے ایک باب میں ایک نوٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ‘مذکورہ بالا حملہ آوروں اور حکمرانوں نے بھیانک کارروائیاں اور مظالم کیے،’ ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا ہےکہ ‘آج ہم ان افراد کے کرتوتوں کے ذمہ دار نہیں ہیں جو سینکڑوں سال پہلے ہوئے تھے۔’

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ کتاب کے مختلف ابواب میں مسلم حکمرانوں کو ہی خاص طور پر ‘سفاکیت’ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

دیگر کورسز میں بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں

این سی ای آر ٹی کی طرف سے آٹھویں جماعت کے لیے تیار کی گئی نئی سائنس کی نصابی کتاب میں ہندوستانی سائنسی ‘وراثت اور دریافتوں’ کو خاص طور پر شامل کیا گیا ہے۔ قدیم فلسفی آچاریہ کناد کے ‘ایٹم’ کے تصور سے لے کر ‘تغیر’ تک، جدید ویکسین سے پہلے چیچک سے بچاؤ کے لیے اپنایا جانے والا روایتی طریقے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

نصابی کتاب جدید سائنسی نظریات کو ہندوستان میں مبینہ قدیم سائنسی دریافتوں سے جوڑتی ہے جیسے ‘کیا آپ نے کبھی سنا ہے؟’ اور ‘ہمارا سائنسی ورثہ۔’ ایک حصہ دلچسپ حقائق فراہم کرتا ہے، جبکہ دوسرے حصے میں ان اداروں اور افراد کا ذکر ہے جنہوں نے سائنسی سوچ کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا۔

وہیں،پچھلے سال، این سی ای آر ٹی نے کلاس 3 اور 6 کی بہت سی نصابی کتابوں سے آئین کی تمہید کو ہٹا دیا تھا ۔

کلاس 6 کی سوشل سائنس کی نصابی کتاب سے ذات پات اور ورن نظام کے ذکر کو ہٹا دیا گیا تھا ۔ اس اقدام کو ماہرین تعلیم کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔