کیا آپ پبلک کے طور پر ان چینلوں میں پبلک کو دیکھ پاتے ہیں؟ ان چینلوں نے آپ پبلک کو ہٹا دیا ہے۔ کچل دیا ہے۔ پبلک کے سوال نہیں ہیں۔ چینلوں کے سوال پبلک کے سوال بنائے جا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: رویش کا بلاگ: نیوز چینل اب عوام کا نہیں، حکومت کا ہتھیار ہے
کیا آپ سمجھ پاتے ہیں کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کیا آپ پبلک کے طور پر ان چینلوں میں پبلک کو دیکھ پاتے ہیں؟ ان چینلوں نے آپ پبلک کو ہٹا دیا ہے۔ کچل دیا ہے۔ پبلک کے سوال نہیں ہیں۔ چینلوں کے سوال پبلک کے سوال بنائے جا رہے ہیں۔ یہ اتنی بھی باریک بات نہیں ہے کہ آپ سمجھ نہیں سکتے۔ لوگ پریشان ہیں۔ وہ چینل-چینل گھومکر لوٹ جاتے ہیں مگر ان کی جگہ نہیں ہوتی۔ نوجوانوں کے تمام سوالوں کے لئے جگہ نہیں ہوتی مگر چینل اپنا سوال پکڑاکر ان کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ چینلوں کو یہ سوال کہاں سے آتے ہیں، آپ کو پتہ ہونا چاہیے۔ یہ اب جب بھی کرتے ہیں، جو کچھ بھی کرتے ہیں، اسی کشیدگی کے لئے کرتے ہیں جو ایک رہنما کے لئے راستہ بناتا ہے۔ جن کا نام وزیر اعظم نریندر مودی ہے۔
نیوز چینلوں، حکومت، بی جے پی اور مودی ان سب کا انضمام ہو چکا ہے۔ یہ انضمام اتنا بہترین ہے کہ آپ فرق نہیں کر پائیںگے کہ صحافت ہے یا پروپیگنڈہ ہے۔ آپ ایک رہنما کو پسند کرتے ہیں۔ یہ فطری ہے اور بہت حد تک ضروری بھی۔ لیکن اس پسند کا فائدہ اٹھاکر ان چینلوں کے ذریعے جو کیا جا رہا ہے، وہ خطرناک ہے۔ بی جے پی کے بھی ذمہ دار حامیوں کو صحیح اطلاع کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت اور مودی کی بھکتی میں پروپیگنڈہ کو پروسنا اس بھکت کی بھی توہین ہے۔ اس کو بیوقوف سمجھنا ہے جبکہ وہ اپنے سامنے کے اختیارات کی اطلاعات کی بنیاد پر کسی کی حمایت کرتا ہے۔ آج کے نیوز چینل نہ صرف عام شہری کی توہین کرتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ بی جے پی کے حامیوں کی بھی توہین کر رہے ہیں۔
میں بی جے پی حامیوں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ آپ ان چینلوں کو نہ دیکھیں۔ آپ ہندوستان کی جمہوریت کی بربادی میں شامل نہ ہوں۔ کیا آپ ان بیہودہ چینلوں کے بغیر نریندر مودی کی حمایت نہیں کر سکتے؟ کیا یہ ضروری ہے کہ نریندر مودی کی حمایت کرنے کے لئے صحافت کے زوال کی بھی حمایت کی جائے؟ پھر آپ ایک ایماندار سیاسی حامی نہیں ہیں۔ کیا بہترین صحافت کے معیارات کے ساتھ نریندر مودی کی حمایت کرنا ناممکن ہو چکا ہے؟ بی جے پی حامیوں، آپ نے بی جے پی کو چنا تھا، ان چینلوں کو نہیں۔ میڈیا کا زوال سیاست کا بھی زوال ہے۔ ایک اچھے حمایتی کا بھی زوال ہے۔
یہ بھی پڑھیں: رویش کا بلاگ: جو چینل ملک کی حکومت سے سوال نہیں پوچھ سکتے وہ پاکستان سے پوچھ رہے ہیں
چینل آپ کی شہریت پر حملہ کر رہے ہیں۔ جمہوریت میں شہری ہوا میں نہیں بنتا ہے۔ صرف کسی جغرافیائی ریاست میں پیدا ہو جانے سے آپ شہری نہیں ہوتے۔ صحیح اطلاع اور صحیح سوال آپ کی شہریت کے لئے ضروری ہے۔ ان نیوز چینلوں کے پاس دونوں نہیں ہیں۔ وزیر اعظم مودی صحافت کے اس زوال کے سرپرست ہیں۔ محافظ ہیں۔ ان کی بھکتی میں چینلوں نے خود کو بھانڈ بنا دیا ہے۔ وہ پہلے بھی بھانڈ تھے مگر اب وہ آپ کو بھانڈ بنا رہے ہیں۔ آپ کا بھانڈ بن جانا جمہوریت کا مٹ جانا ہوگا۔
ہندوستان پاکستان کشیدگی کے بہانے ان کو محب وطن ہونے کا موقع مل گیا ہے۔ ان کے پاس ملک کو لےکر کوئی بھکتی نہیں ہے۔ بھکتی ہوتی تو جمہوریت کے ضروری ستون صحافت کے بلند معیارات کو گڑھتے۔ چینلوں پر جس طرح کا ہندوستان گڑھا جا چکا ہے، ان کے ذریعے آپ کے اندر جس طرح کا ہندوستان گڑھا گیا ہے وہ ہمارا ہندوستان نہیں ہے۔ وہ ایک مصنوعی ہندوستان ہے۔ ملک سے محبت کا مطلب ہوتا ہے کہ ہم سب اپنا اپنا کام بلند اصولوں اور معیارات کے حساب سے کریں۔ ہمت دیکھیے کہ جھوٹی اطلاعات اور اناپ شناپ نعروں اور تجزیوں سے آپ کی حب الوطنی گڑھی جا رہی ہے۔ آپ کے اندر حب الوطنی کے قدرتی چینل کو ختم کرکے یہ نیوز چینل مصنوعی چینل بنانا چاہتے ہیں۔ تاکہ آپ ایک مردہ روبوٹ بنکر رہ جائیں۔
ویڈیو: میں اینٹی مودی نہیں ہوں، میں بس ان سے سوال پوچھتا ہوں: رویش کمار
اس وقت کا اخبار اور چینل آپ کی شہریت اور شہری حقوق کے خاتمے کا اعلان کر رہے ہیں۔ آپ کو سامنے سے دکھ جانا چاہیے کہ یہ ہونے والا نہیں بلکہ ہو چکا ہے۔ اخباروں کے حال بھی وہیں ہیں۔ ہندی کے اخباروں نے تو قارئین کے قتل کی سپاڑی لے لی ہے۔ غلط اور کمزور اطلاعات کی بنیاد پر پڑھنے والوں کا قتل ہی ہو رہا ہے۔ اخباروں کے صفحے بھی توجہ سے دیکھیں۔ ہندی اخباروں کو اٹھاکر گھر سے پھینک دیں۔ ایک دن الارم لگاکر سو جائیے۔ اٹھکر ہاکر سے کہہ دیجئے کہ بھیا الیکشن کے بعد اخبار دے جانا۔
یہ حکومت نہیں چاہتی ہے کہ آپ صحیح اطلاعات سے لیس قابل شہری بنیں۔ چینلوں نے حزب مخالف بننے کے ہر امکان کو ختم کیا ہے۔ آپ کے اندر اگر حکومت کا حزب مخالف نہ بنے تو آپ حکومت کے حامی بھی نہیں بن سکتے۔ ہوش میں سپورٹ کرنا اور نشے کا انجکشن دےکر سپورٹ کروانا دونوں الگ باتیں ہیں۔ پہلے میں آپ کی خودداری جھلکتی ہے۔ دوسرے میں آپ کی توہین۔ کیا آپ ذلیل ہوکر ان نیوز چینلوں کو دیکھنا چاہتے ہیں، ان کے ذریعے حکومت کی حمایت کرنا چاہتے ہیں؟
میں جانتا ہوں کہ میری یہ بات نہ کروڑوں لوگوں تک پہنچےگی اور نہ کروڑوں لوگ نیوز چینل دیکھنا چھوڑیںگے۔ مگر میں آپ کو آگاہ کرتا ہوں کہ اگر یہی چینلوں کی صحافت ہے تو ہندوستان میں جمہوریت کا مستقبل خوبصورت نہیں ہے۔ نیوز چینلوں نے ایک ایسی پبلک گڑھی ہے جو غلط اطلاعات اور محدود اطلاعات پر مبنی ہوگی۔ چینل اپنی بنائی ہوئی اس پبلک سے اس پبلک کو ہرا دیںگے جس کو اطلاعات کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے پاس سوال ہوتے ہیں۔ سوال اور اطلاع کے بغیر جمہوریت نہیں ہوتی۔ جمہوریت میں شہری نہیں ہوتا۔
سچ اور حقیقت کا ہر امکان ختم کر دیا گیا ہے۔ میں ہر روز پبلک کو دھکیلے جاتے دیکھتا ہوں۔ چینل پبلک کو منجدھار میں دھکیلکررکھنا چاہتے ہیں۔ جہاں سیاست اپنا بونڈر رچ رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں سے باہر کے مسائل کی جگہ نہیں بچی ہے۔ نہ جانے کتنے مسائل انتظار کر رہے ہیں۔ چینلوں نے اپنے رابطہ میں آئے لوگوں کو لوگوں کے خلاف تیار کیا ہے۔ آپ کی ہار کا اعلان ہے ان چینلوں کی بادشاہت۔ آپ کی غلامی ہے ان کی جیت۔ ان کے اثر سے کوئی اتنی آسانی سے نہیں نکل سکتا ہے۔ آپ ایک ناظر ہیں۔ آپ ایک رہنما کی حمایت کرنے کے لئے صحافت کے زوال کی حمایت مت کیجئے۔ صرف ڈھائی مہینے کی بات ہے۔ چینلوں کو دیکھنا بند کر دیجئے۔
(یہ مضمون رویش کمار کے بلاگ پر شائع ہوا ہے۔)