راشٹرپتی بھون کے تاریخی دربار ہال اور اشوک ہال کا نام بدلا گیا

10:37 AM Jul 27, 2024 | دی وائر اسٹاف

راشٹرپتی بھون کے دربار ہال اور اشوک ہال اب گن-تنتر منڈپ اور اشوک منڈپ کے نام سے جانے جائیں گے۔ دربار ہال وہ جگہ تھی جہاں 1947 میں آزاد ہندوستان کی پہلی حکومت نے حلف اٹھایا تھا۔

راشٹر پتی بھون۔ (تصویر بہ شکریہ: rashtrapatibhavan.gov.in/)

نئی دہلی: راشٹرپتی بھون کے دربار ہال اور اشوک ہال اب گن-تنتر منڈپ اور اشوک منڈپ کے نام سے جانےجائیں گے۔حکام  نے اس قدم کو ہندوستان کی جمہوری روایات کی پیروی اور ‘انگلشائزیشن’ اور نوآبادیاتی روایات سے دور جانے کی ضرورت کے طور پر پیش کیا۔

دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق، تھرون روم کے نام سے جانا جانے والا دربار ہال وہ جگہ تھی جہاں 1947 میں آزاد ہندوستان کی پہلی حکومت نے حلف اٹھایا تھا اور سی راج گوپالاچاری نے 1948 میں ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر حلف لیا تھا۔ یہ وہ جگہ بھی تھی جہاں 1977 میں صدر فخر الدین علی احمد کی میت رکھی گئی تھی۔ سول اور فوجی اعزازات کی تقسیم اور چیف جسٹس آف انڈیا کی حلف برداری اسی ہال میں ہوتی ہے۔

اشوک ہال کو غیر ملکی مشنوں کے سربراہوں کے تعارف کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یہ وہ جگہ بھی ہے جہاں صدر کی طرف سے دی جانے والی سرکاری ضیافت سے پہلے غیر ملکی وفود کا باقاعدہ تعارف کرایا جاتا ہے۔

راشٹرپتی بھون کی طرف سے جاری کردہ ایک ریلیز کے مطابق ، ‘راشٹرپتی بھون، ہندوستان کے صدر کا دفتر اور ان کی رہائش گاہ ہے جوملک کی علامت اور انمول ورثہ ہے۔ یہاں لوگوں کی  رسائی کو اور زیادہ آسان بنانے  کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔ راشٹرپتی بھون کے ماحول کو ہندوستانی ثقافتی اقدار اور اخلاقیات کا عکاس بنانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔‘

بیان میں کہا گیا کہ ‘دربار لفظ سے ہندوستانی حکمرانوں اور انگریزوں کے درباراورمجلس مراد لیے جاتے  ہیں۔ ہندوستان کے جمہوریہ بننے کے بعد اس کی ضرورت  نہیں رہی۔ ‘گن -تنتر’ کا تصور قدیم زمانے سے ہی ہندوستانی معاشرے میں موجود ہے، اس لیے ‘گن-تنتر منڈپ’ اس جگہ کےلیے مناسب نام ہے۔’

اس میں مزید کہا گیا، ‘اشوک ہال’ اصل میں ایک بال روم تھا۔ لفظ ‘اشوک’ کا مطلب ہے وہ شخص جو ‘تمام دکھوں سے آزاد’ ہو یا ‘کسی بھی تکلیف سے مبرا’ ہو۔ نیز، ‘اشوک’ سے مراد شہنشاہ  اشوک ہے، جو اتحاد اور پرامن بقائے باہمی کی علامت تھے۔’

اس میں کہا گیا ہے، ‘جمہوریہ ہند کا قومی نشان سارناتھ واقع اشوک کے شیرکےستون سے لیا گیا ہے۔ یہ لفظ اشوک کے درخت کو بھی حوالہ بناتا ہے جس کی ہندوستانی مذہبی روایات کے ساتھ ساتھ آرٹ اور ثقافت میں بھی اہمیت ہے۔ ‘اشوک ہال’ کے نام کو ‘اشوک منڈپ’ میں تبدیل کرنے سے زبان میں یکسانیت آئے گی اور انگلشائزیشن کے نشانات ختم ہوں گے،ساتھ ہی  لفظ ‘اشوک’ سے وابستہ بنیادی اقدار کو بھی برقرار رکھا جائے گا۔‘

واضح ہو کہ گزشتہ سال راشٹرپتی بھون میں مغل گارڈن کا نام بدل کر امرت ادیان کردیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ 2022 میں راشٹرپتی بھون سے انڈیا گیٹ کی طرف جانے والی سڑک راج پتھ کا نام بدل کر کرتویہ پتھ کر دیا گیا تھا۔

نام کی ان تبدیلیوں کے بارے میں پوچھے جانے پر کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا نے پارلیامنٹ کے باہر صحافیوں سے کہا، ‘دربار کا تصور اب نہیں رہا، لیکن شہنشاہ (راجاؤں کے راجا) کا تصور موجود ہے۔’

لوک سبھا انتخابی مہم کے دوران پرینکا نے وزیر اعظم نریندر مودی کے بار بار اپنے بھائی اور کانگریس ممبر پارلیامنٹ راہل گاندھی کو ‘شہزادہ’ کہنے کے جواب میں مودی کو ‘شہنشاہ’ کہا تھا۔

دربار ہال میں سرخ مخملی پس منظر کے سامنے  پانچویں صدی کی بدھ کی مورتی ہے۔ راشٹرپتی بھون کی ویب سائٹ کہتی ہے کہ ‘اس مجسمے کے سامنے صدر کی کرسی رکھی گئی ہے۔ اس سے پہلے اس جگہ پر دو تخت (سنہاسن)رکھے گئے تھے، ایک وائسرائے کے لیے اور دوسرا ان کی اہلیہ کے لیے۔

دربار ہال کی راہداری میں ملک بھر کے نامور مجسمہ سازوں کے بنائے گئے سابق ہندوستانی صدور کے مجسمے آویزاں ہیں۔ ہال کی سنگ مرمر کی دیواروں میں وینکٹیش ڈی کی بنائی  مہاتما گاندھی، بیرن ڈے کی بنائی  سی راج گوپالاچاری، گیراسیموو کی  بنائی جواہر لال نہرو اور جے اے لالکاکا کی بنائی  ڈاکٹر راجندر پرساد کی آدم قد پینٹنگ ہیں۔ دربار ہال میں ہندوستان کے قومی نشان کے ساتھ گہرے سرخ رنگ کے چھ لمبے جھنڈے بھی لگےہیں۔

اشوک ہال میں بہت سے نوادرات ہیں۔ ویب سائٹ کہتی ہے کہ ‘چھت کے بیچ میں ایک چمڑے کی پینٹنگ ہے جس میں فارس کے سات قاجار حکمرانوں میں سے دوسرے، فتح علی شاہ کی گھوڑے پر  سوار ی کی تصویر  دکھائی گئی ہے، جو اپنے بائیس بیٹوں کی موجودگی میں شیر کا شکار کر رہے ہیں۔یہ پینٹنگ، جس کی لمبائی 5.20 میٹر اور چوڑائی 3.56 میٹرہے،  فتح شاہ نے خود انگلینڈ کے جارج چہارم کو تحفے میں دی تھی۔‘