ہندوستان میں دلت طلبا کے لیے ریزرویشن کی سہولت ہے، لیکن جو ملک سے باہر پڑھائی کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے کوئی سہولت نہیں ہے۔ ہندوستانی سرکار ہر سال کچھ لوگوں کو پڑھائی کے لیے باہر بھیجتی ہے، لیکن اس میں پسماندہ طبقات کو کوئی خصوصی رعایت نہیں دی گئی ہے۔ اسکالرشپ عموماً سماج کے اونچے اور مالدار طبقے کے لوگ لے جاتے ہیں۔
مارٹن لوتھر کنگ، فوٹو: وکیپیڈیا
امریکہ میں شہری حقوق کے لیے مثالی جدوجہد کرنے والے ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ اور ان کی شریک حیات کوریٹا فروری 1959 میں تین ہفتے کے لیے ہندوستان آئے۔ وہ گاندھی کی سرزمین کے مقدس سفر پر آئے تھے، جس کے بارے میں خاصہ لکھا گیا ہے۔ اس کے بابوجود بوسٹن یونیورسٹی میں ان پر کام کرتے ہوئے مجھے ایک دل پذیر فٹ نوٹ ملا۔ ایسا فٹ نوٹ جس کا تذکرہ ضروری لگتا ہے۔
جن لوگوں نے ڈاکٹر کنگ اور ہندوستان میں ان کے اسفار کا مطالعہ کیا ہے، وہ ایم کے اچیوتن نام کے ایک شخص کو بھی ضرور جانتے ہوں گے۔ تمل ناڈو کے باشندے اچیوتن اس وقت آل انڈیا ریڈیو کلکتہ میں ٹیکنیکل اسسٹنٹ کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ 28 اپریل 1959 کو انہوں نے ڈاکٹر کنگ کی مانٹ گومری، البامہ میں واقع رہائش گاہ کے پتے پر ایک خط ارسال کیا۔ اس خط میں انہوں نے بتایا کہ اس وقت ان کی عمر 28 سال ہے اور وہ مدراس یونیورسٹی سے ٹیلی کمیونی کیشن انجینئرنگ میں گریجویٹ ہیں۔
انہوں نے اپنے خط میں ڈاکٹر کنگ کو بتایا کہ میری ‘بڑی خواہش ہے کہ اعلیٰ تعلیم اور مزید ٹریننگ امریکہ سے حاصل کروں۔ اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے میں اپنے تئیں تمام کوشش کر چکا ہوں۔’ اصل میں وہ اس بابت امریکہ کی کئی یونیورسٹیز کو لکھ چکے تھے، مگر ان کی خواہش پوری نہیں ہو پائی تھی۔ تب انہوں نے سیدھے ڈاکٹر کنگ سے رابطہ کیا۔
اچیوتن نے اس خط میں اپنی دیگر تفصیلات کے ساتھ ذاتی بیک گراؤنڈ بھی بتایا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ ‘کئی طرح کے ناموافق حالات کے بیچ میری پیدائش چھوٹی ذات کے ایک غریب پریوار میں ہوئی، …ہندوستان کے بے حد پسماندہ طبقات میں سے ایک۔’
اچیوتن نے اپنے بارے میں تفصیلی جانکاری دیتے ہوئے بتایا کہ ‘میں جس طبقے سے تعلق رکھتا ہوں، اس میں پرائمری کلاسز سے آگے کی تعلیم بہت مشکل سے ہو پاتی ہے۔ اس کے باوجود انجینئرنگ کی ڈگری محض اس لیے حاصل کر پایا کہ میں بہت ذہین طالب علم تھا۔ اس لیے مجھے وظائف ملتے رہے۔ ساتھ ہی مدراس اسٹیٹ گورنمنٹ کے ہریجن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ سے بھی امداد ملتی تھی۔ آزادی کے بعد مرکزی سرکار نے تعلیمی اداروں میں پچھڑے طبقات کے لیے جو ریزرویشن مختص کیا تھا، اسی کی بدولت انجینئرنگ کالج میں مجھے داخلہ ملا…’
ہندوستان میں تعلیم حاصل کرنے والے دلت طلبا کے لیے تو ریزرویشن کی سہولت ہے، لیکن جو طلبا ملک سے باہر جا کر پڑھائی کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے ایسی کوئی سہولت نہیں ہے۔ اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اچیوتن نے لکھا، ‘حالانکہ ہندوستانی سرکار ہر سال کچھ لوگوں کو پڑھائی کرنے کے لیے باہر بھیجتی ہے، لیکن اس میں پچھڑے طبقات کو کوئی خصوصی رعایت نہیں دی گئی ہے۔ اس لیے ایسی اسکالرشپ عموماً سماج کے اونچے اور مالدار طبقے کے لوگ لے جاتے ہیں۔’
ملک سے باہر جا کر مزید پڑھائی کرنے کی اپنی خواہش کی وجہ سے اچیوتن نے امریکہ کی کئی یونیورسٹیز کو خطوط لکھ کر معلومات حاصل کرنا چاہی لیکن، ‘کئی کا تو جواب نہیں آیا، اور کچھ نے ٹکا سا جواب دے دیا۔’ انہوں نے کھلے طور پر یہ محسوس کیا کہ ‘اسی دور میں [اونچی ذات کے ایسے ہندوستانی] جو امریکہ میں موجود تھے، وہ اپنے رشتے داروں یا قریبی احباب کو بڑی آسانی سے امریکہ لے جاتے تھے اور ان کے لیے معاشی امداد بھی حاصل کر لیتے تھے۔’ وہ فارم وغیرہ حاصل کرنے میں بھی ان کی مدد کرتے تھے۔
اچیوتن کا مشاہدہ بالکل درست تھا۔ سرکاری امداد سے پڑھائی کے لیے باہر بھیجے جانے والے افراد بیشتر اونچی ذات والے ہی ہوتے تھے؛ اسی طرح اپنے خرچ پر وہاں پڑھنے جانے والوں میں بھی زیادہ تر وہی ہوتے تھے، جن کے متعلقین وہاں موجود تھے۔ اپنے حالات اور ماحول کا شکار یہ طالب علم اب ڈاکٹر کنگ کی مدد چاہتا تھا کہ وہ یونیورسٹیز کو اسے داخلہ دینے اور ضروری فارمس بھیجنے بابت لکھ دیں۔
اچیوتن نے اپنے خط کا اختتام اس طرح کیا تھا: ‘یہ پہلی بار ہے کہ امریکہ میں ،میں نے کسی کو اس طرح ذاتی خط بھیجا، اس پختہ یقین کے ساتھ کہ ازراہ ہمدردی آپ میری مدد کریں گے۔ اسی وجہ سے میں یہ خط بھی لکھ سکا…امید ہے جلد جواب مرحمت فرمائیں گے۔
اس خط کی وجہ سے ہونے والی پریشانی کے لیے ایک بار اور معافی چاہتا ہوں’۔
28 اپریل 1959 کو کلکتہ سے پوسٹ کیا گیا یہ خط مئی کے اوائل میں مانٹگومری پہنچ گیا ہوگا۔ لیکن ڈاکٹر کنگ کا جواب (جس کی ایک نقل بوسٹن یونیورسٹی کے آرکائیوز میں محفوظ ہے)دو ماہ بعد 14 جولائی کو پوسٹ کیا گیا ہے۔ جواب دینے میں ہوئی اس تاخیر کے لیے معافی مانگتے ہوئے انہوں نے اس کی وجہ’شہر سے باہر ہونا اور ڈاک کی افراط’ بتائی۔
‘میں نے آپ کا خط پوری توجہ سے پڑھا’، لکھتے ہوئے ڈاکٹر کنگ نے جواباً تحریر کیا کہ ‘آپ کے مسائل واقعی توجہ طلب ہیں اور انہیں حل کیا جا سکتا ہے۔ آپ کے عزم و حوصلے کی تعریف کی جانی چاہیے۔’ ڈاکٹر کنگ نے اچیوتن کو بتایا کہ وہ تعلیم کے شعبے میں نہیں ہیں اور نہ ہی ‘کسی یونیورسٹی میں ان کا عمل دخل ہے’۔ اس کے باوجود اچیوتن کی گزارش پر ‘اپنے جاننے والے کالجوں کے کچھ صدور سے بات کی۔ جس سے یہ معاملہ نکل کر آیا کہ آپ کی دلچسپی چونکہ انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں ہے، اس لیے ہوورڈ یونیورسٹی ڈی سی آپ کے لیے بہتر رہے گی۔’ ڈاکٹر کنگ نے یہ بھی لکھا تھا کہ وہ وہاں کے ڈین کو لکھیں گے اور جیسے ہی ان کا جواب آیا، وہ اچیوت کو مطلع کریں گے۔
ڈاکٹر کنگ نے اپنے خط کا اختتام ان الفاظ پر کیا: ‘مجھے پھر سے یہ کہنے دیجیے کہ میں آپ کے مثبت اقدام اور کچھ پانے کے لیے قربانی دینے کے جذبے کا معترف ہو گیا ہوں۔ آپ کے سنہرے مستقبل کی تمنا کرتا ہوں۔’
امریکہ کی مشہور زمانہ ہستی اور ایک نامعلوم سے ہندوستانی کے بیچ ہوئی یہ خط و کتابت پڑھائی جاری رکھنے کا اشاریہ ہے۔ اس طرح خط لکھ کر اپنی خواہش کا اظہار کرنا اضافی حوصلے کا ضامن ہے؛ جہاں اچیوتن نے پوری عمر حوصلے کا مظاہرہ کیا، چاہے وہ اپنے غربت زدہ ماحول سے نکل کرانجینئرنگ کرنا ہو، اعلیٰ ذات والوں کے تعصبات کا سامنا کرنا ہو، جن سے یقیناً انہیں اسکول، کالج اور اپنے کام کاج کے دوران جوجھنا پڑا ہوگا۔ اسی طرح ڈاکٹر کنگ کا جواب حوصلہ افزا ہونے کے ساتھ ان کی کشادہ دلی کا بھی مظہر ہے۔
یہ دو اچھے لوگوں کے بیچ خیالات کا تبادلہ تھا۔ لیکن اس میں شامل اس نامعلوم سے ہندوستانی کا کیا ہوا ہوگا؟ ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کے کام کاج سنہ 1959 سے ان کی موت یعنی سنہ 1968 تک پل پل کے حساب سے محفوظ کر لیے گئے ہیں۔ البتہ اس کے بعد ایم کے اچیوتن کا کیا بنا، یہ میں معلوم نہ کر سکا۔ امید یہی ہے کہ انہیں وہ مل گیا ہوگا جس کا ان جیسا حوصلہ مند اور ذہین شخص حقدار تھا۔
(انگریزی سے ترجمہ: جاوید عالم)