یو اے پی اے ترمیم بل کو راجیہ سبھا نے 42 کے مقابلے 147 ووٹ سے منظوری دی۔ کانگریسی رہنما پی چدمبرم نے کہا کہ اس ترمیم بل کے ذریعے این آئی اے کو اور زیادہ طاقتور بنانے کی بات کہی گئی ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ اس کے ذریعے زیادہ طاقتیں مرکزی حکومت کو مل رہی ہیں۔
نئی دہلی:پارلیامنٹ نے جمعہ کو کسی شخص کو دہشت گرد قرار دینےاور دہشت گردی کی جانچکے معاملے میں این آئی اےکو اوراختیارات دینے والے بل کو منظوری دے دی۔حکومت نے ا س کے اہتماموں کے غلط استعمال کے حزب مخالف کے خدشہ کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے اہتمام جانچ ایجنسیوں کو دہشت گردی سے چار قدم آگے رکھنے کے لئے ہیں۔
راجیہ سبھا یو اے پی اے (Unlawful Activities Prevention Act) ترمیم بل کو 42 کے مقابلے 147 ووٹ سے منظوری دے دی۔ایوان نے حزب مخالف کے ذریعے اس کو سلیکٹ کمیٹی میں بھیجنے کی تجویز کو 85 کے مقابلے 104 ووٹ سے خارج کر دیا۔ لوک سبھا اس کو پچھلے ہفتہ ہی منظوری دے چکی ہے۔بل میں کسی شخص کو دہشت گرد قرار دینے کے اہتمام کے غلط استعمال ہونے کے خدشہ کو بےبنیاد ٹھہراتے ہوئے وزیر داخلہ امت شاہ نے بل پر ہوئی بات چیت کے جواب میں کہا کہ دہشت گردی سے مقابلہ کرنے کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانون میں اگر اس طرح کا اہتمام 2009 میں رہا ہوتا تو کولکاتہ پولیس کے ذریعے پکڑا گیا دہشت گرد یاسین بھٹکل کبھی نہیں چھوٹ پاتا اور آج این آئی اے کی گرفت میں ہوتا۔شاہ نے کہا کہ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ کسی فرد کو دہشت گرد قرار دینے کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ بڑے پیچیدہ طرح کے معاملے ہوتے ہیں جن میں ثبوت ملنے کا امکان کم ہوتا ہے۔ ایسے معاملے بین ریاستی اور عالمی قسم کے ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ حزب مخالف ممبروں نے دلیل دی کہ ادارہ فرد سے بنتا ہے۔ شاہ نے کہا کہ ان کی بھی یہی دلیل ہے کہ ادارہ آدمی سے بنتا ہے، تنظیم کے آئین سے نہیں۔وزیر داخلہ نے کہا کہ دہشت گردی کے معاملے میں اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک تنظیم پر پابندی لگانے پر شخص دوسری تنظیم کھول لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دہشت گردی تنظیم نہیں، آدمی کرتا ہے۔
کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے شاہ سے وضاحت مانگتے ہوئے کہا کہ اس بل میں کسی شخص کو کس حالت میں دہشت گرد قرار دیا جائےگا، اس کو لےکر کوئی وضاحت نہیں ہے۔اس پر وزیر داخلہ نے کہا کہ بل کچھ غیر واضح ضرور ہے لیکن یہ حالات کی پیچیدگی کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ مان لیجئے کہ ہم یہ کہیں کہ پوچھ تاچھ کے بعد کسی آدمی کو دہشت گرد قرار دے دیںگے تو اس شرط پر ہم حافظ سعید یا داؤد ابراہیم کو کیسے دہشت گرد قراردے پائیںگے، کیونکہ اس سے پوچھ تاچھ کرنا ابھی ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حالات کی بنیاد د پر یہ طے کیا جائےگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آدمی کو دہشت گرد قرار دینے کے بعد بھی کئی سطح پر تجزیہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ چار سطح پر اس کا تجزیہ ہوگا۔ اس لئے اس کو لےکر خدشے کا اظہار نہیں کیا جانا چاہیے۔موجودہ سیشن میں یہ تیسرا موقع ہے جب راجیہ سبھا میں حکومت نے مناسب اکثریت نہ ہونے کے باوجود متنازعہ بل کو منظور کرایا ہے۔ اس سے پہلے آر ٹی آئی قانون میں ترمیم اور تین طلاق پر روک لگانے سے متعلق بل کو راجیہ سبھا میں ووٹ کے دوران حکومت کو کامیابی ملی تھی۔
اس بل میں این آئی اے کے ذریعے کسی معاملے کی جانچ کئے جانے پر ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کو جائیداد کی قرقی کے لئے منظوری دینے کا حق دیا گیا ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت کو مجوزہ چوتھی فہرست سے کسی مخصوص دہشت گردکا نام جوڑنے یا ہٹانے کے لئے اور اس سے متعلق دیگر نتائج خیز ترمیم کے لئے مضبوط بنانے کے لئے قانون کی دفعہ 35 کی ترمیم کرنی ہے۔
یو اے پی اے بل میں کی جا رہی ترمیم کو سخت بتاتے ہوئے راجیہ سبھا میں جمعہ کو حزب مخالف نے اس بل کو سلیکٹ کمیٹی میں بھیجے جانے کی مانگ کی تھی اور کہا کہ کسی بھی ایسے شخص کے خلاف اس نئے قانون کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہےجو حکومت کی مخالفت کرے گا۔حالانکہ ان کی اس مانگ کو خارج کر دیا گیا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)