سینئر صحافی کرن تھاپر سے بات کرتے ہوئے مہاتما گاندھی کے پوتے اور پروفیسر راج موہن گاندھی نے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کےگاندھی کی صلاح پر وی ڈی ساورکر کے معافی نامہ لکھنے کے دعوے کی تردید کی اور اس کومضحکہ خیز بتایا۔
نئی دہلی: مہاتما گاندھی کے پوتے اور ان کےسوانح نگار راج موہن گاندھی نے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کے حالیہ بیان کی سختی سے تردیدکرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘یہ دعویٰ مضحکہ خیز، ناقابل تصور اور بےتکا’ ہے کہ گاندھی نے وی ڈی ساورکر کو معافی مانگنے اوررحم کی درخواست دائر کرنے کی صلاح دی تھی۔
راج موہن گاندھی نے یہ بھی کہا کہ وزیر دفاع کا یہ دعویٰ بھی سراسر غلط اور جھوٹا ہے کہ ساورکر نے کئی رحم کی درخواستیں دائر کی تھیں۔انہوں نے کہا کہ ساورکر نے کل 7عرضیاں داخل کی تھیں، جن میں سے پہلی1911 میں پہلی بار انڈمان میں قید کیے جانے کے کچھ وقت بعد ہی دی گئی تھی۔
دی وائر کے لیے کرن تھاپر کو دیے گئے 30 منٹ کے انٹرویو میں امریکہ کے یونیورسٹی آف الینوائے ایٹ اوربانا–شیمپیئن کے پروفیسر راج موہن گاندھی نے کہا، ‘جب اپنی1913 کی عرضی میں ساورکر نے ‘سرکار کو کئی گنا احسان اور رہا کرنے کے لیےرحم کرنے کے لیے کہا تھا’ تو اگر یہ رحم کی اپیل نہیں تھی تو وہ کیا تھا؟ ‘
یہ بھی پڑھیں: راجناتھ سنگھ نے دروغ گوئی سے کیوں کام لیا؟
راج موہن گاندھی نے بتایا،‘ساورکر کے بارے میں گاندھی کا خط، جو جنوری 1920 میں لکھا گیا تھا، وہ ان کی اپنی خواہش سے نہیں لکھا گیا تھا بلکہ ساورکر کے چھوٹے بھائی نارائن راؤ کے مدد مانگنے کے درخواست کے جواب میں تھا۔ خط میں ساورکر کےجرم کو سیاسی دکھانے کے لیے معاملے کےحقائق کو سامنے رکھنے کی صلاح دی گئی تھی، اس میں ساورکر کورحم کی عرضی داخل کرنے کا مشورہ نہیں دیا گیا تھا۔ اور ویسے بھی، ساورکر کےذریعےرحم کے لیے پہلی عرضی اس خط سے نو سال پہلے لکھی گئی تھی۔’
راج موہن گاندھی بھی اس بات سے متفق تھے کہ گاندھی نےمئی1920 میں ساورکر بھائیوں پر ینگ انڈیا کے لیے لکھےمضمون میں کہا تھا کہ ‘وہ انگریزوں سے آزادی نہیں چاہتے ہیں۔’انہوں نے آگے جوڑا، ‘اس کےبرعکس انہیں لگتا ہے کہ انگریزوں کی مدد کے سہارے ہی ہندوستان کی اچھی قسمت لکھی جا سکتی ہے۔’
راج موہن گاندھی کے اس انٹرویو میں1913کی عرضی میں ساورکر کی زبان،گاندھی کےساتھ ساورکر کےرشتے، ساورکر کے بارے میں گاندھی کےجنوری1920کے خط اور ہندو مسلم فارمولوں پر گاندھی اور ساورکر کے نظریے میں بڑے فرق کے بارے میں بات کی گئی ہے۔
مکمل انٹریونیچے دیے گئے لنک پر ملاحظہ کیاجا سکتا ہے۔