ادے پور میں بہیمانہ قتل کے باوجود اس پروپیگنڈے کو قبول نہیں کیا جا سکتا کہ ہندو خطرے میں ہیں۔ اس قتل کے بہانے جو لوگ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں، وہ قتل و غارت گری اور تشددکے پیروکار ہیں۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ ایک منصوبہ بند سازش چلائی جارہی ہے کہ کسی ایک واقعہ پر ہندو اورمسلمان ایک ساتھ ایک آواز میں نہ بول پائیں۔
ادے پور کے کنہیا لال کے قاتلوں کو راجستھان پولیس نے راجسمند میں گرفتار کر لیا ہے۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے اور جس طرح سے قتل کیا گیا ہے وہ تصور سے باہر ہے۔ یہ افسوسناک ہے اور یہ سارا واقعہ تشویشناک ہے۔اس کو لے کرلوگوں میں غصہ ہوگا،یہ بھی فطری ہے۔ لیکن اسٹیٹ اس تشدد کے معاملے میں انصاف کرے گا اور ان دونوں پرتیزی سے مقدمہ چلاکر انہیں سزا دی جائے گی۔
کنہیا لال کے قاتل مسلمان ہیں۔ جس طرح گلا کاٹ کر قتل کیا گیا، وہ دہشت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس قتل میں ایک دھوکہ بھی ہے کہ درزی جس کا ناپ لے رہا ہو، وہ اس کا گلا کاٹ دے گا، کیا یہ وہ سوچ سکتا تھا؟
اس کے بعد کیا دکاندار اور گراہک کے تعلقات میں شکوک وشبہات پیدا ہوں گے۔ سب ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ یہ قتل ایک شخص کا ہے، لیکن یہ کسی ذاتی جھگڑے،تنازعے، غصے میں نہیں کیا گیا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان راہ و رسم پہلے سے زیادہ مشکل ہو جائیں گے۔
ایک قتل محض ایک واقعہ نہیں ہوتا اور یہ ایک لمحے تک محدود نہیں رہتا۔ کچھ قتل ایسے ہوتے ہیں جن کا اثر اس شخص کے خاندان سے زیادہ قوم پر پڑتا ہے۔ چیف منسٹر کی تشویش ان کی ریاست میں سماج کے رشتوں پر پڑنے والے اثرات کو لے کر بھی ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے تعلقات پر بھی۔ اسی لیے وہ سب سے غم و غصے کے باوجود صبرو تحمل اور امن و امان کی اپیل کر رہے ہیں۔
جب ریاست انصاف کے لیے فوری اقدام کرے تو اس کا مطالبہ کرتے ہوئےکسی مظاہرے کی ضرورت نہیں۔ جب معاشرے کے کسی بھی حصے میں اس قتل کی حمایت ہو تو اس پر ناراض ہونا فطری ہے۔ لیکن جب ہر طبقہ اس سے حیران ہو،صدمے میں ہو اور اس کو قبول نہ کرے تو ایک مشترکہ ردعمل ہی ہو سکتا ہے۔ صرف ہندو ردعمل یا مسلمان ردعمل نہیں۔
اس قتل کے بعد مسلمانوں کی تمام تنظیموں، ان کے مذہبی رہنماؤں نے ایک آواز میں اس قتل کی مذمت کی ہے اور قاتلوں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ تمام مسلم دانشوروں اور سماجی کارکنوں، صحافیوں نے ایک آواز میں اس قتل پر اپنے صدمے اور غصے کا اظہار کیا ہے۔
مسلمانوں میں سے کسی نے بھی قاتلوں کی اس دلیل کو قبول نہیں کیا کہ پیغمبر کی بے حرمتی کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کی رہنما کی حمایت کرنے پر انہوں نے کنہیا لال کو قتل کیا ہے۔
بائیں بازو، کانگریس سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے اس بہیمانہ قتل کی مذمت کی ہے۔ آخر کوئی اس کی حمایت بھی کیسے کر سکتا ہے؟ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو چاہتے ہیں کہ اس قتل کی حمایت کرنے والے بھی ہوں۔ بالخصوص مسلمانوں میں۔ ایسا ہوا نہیں ہے۔ مسلمانوں میں سے کسی بھی گروہ یا کسی بھی فرد نے اس کی حمایت نہیں کی اور نہ ہی اس کا کوئی جواز پیش کیا ہے۔
یہ درست ہے کہ پیغمبر اسلام کی توہین کرنے والے ریمارکس کے لیے بی جے پی لیڈروں کے خلاف قانونی کارروائی کی مانگ کی جارہی تھی۔ لیکن کبھی کسی نے خود انہیں سزا دینے کی بات نہیں کی۔
یہ الگ بات ہے کہ بہت سے لوگ اس توہین کو بی جے پی لیڈروں کی اظہار رائے کی آزادی سمجھ کر ان لیڈروں کے حق میں مہم چلا رہے تھے۔ راجستھان میں ہی ان لیڈروں کے حق میں میٹنگ ہو رہی تھی۔ مسلمانوں کی جانب سے ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ انصاف کریں۔
بہت سے لوگوں کو یہ بات عجیب لگ رہی ہے کہ مسلمان اس وحشیانہ قتل کی حمایت نہیں کر رہے ہیں۔ آخر اس راجسمند میں جہاں یہ قاتل پکڑے گئے ہیں، شمبھولال ریگر نامی ہندو نے افرازل نامی مسلمان کو بھی اسی طرح قتل کیا تھا۔ اسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ماراتھا، اس کی فلم بنائی تھی اور اسے وسیع تر ہندو سماج میں ان کے لطف اندوز ہونے کے لیے مشتہر کیا تھا۔
اس قتل نے پورے ملک میں سنسنی پھیلا دی تھی۔ مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔ لیکن اس وقت اور آج تک اس قاتل کے لیے ایک بڑی حمایت ہندو گروہوں میں تھی اور ہے۔ قاتل کا مجسمہ بنایا گیا، اس کے حق میں ہندوؤں کی ایک بھیڑ عدالت پہنچ گئی اور اس نے عدالت پر بھگوا پرچم لہرا دیا۔ قاتل کی وکالت کے لیے چندہ کیا گیا۔ آج تک افرازل کے قاتل کے حق میں حمایت جاری ہے۔
چوں کہ اس وقت اس قسم کا ردعمل ہوا تھاتو آج یہ تصور کیا جا رہا ہے کہ مسلمان بھی قاتلوں کے حق میں کھڑے ہوں گے۔ مسلمان قاتل کے حق میں نہیں، بلکہ اس کے خلاف ہیں۔ وہ اس کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایسا نہ ہوتا دیکھ کر یہ کہا جائے گا کہ جو افسوس یا مذمت کر رہے ہیں، وہ سچ نہیں بول رہے ہیں۔ وہ دل سے قاتل کے ساتھ ہیں۔ اس طرح سماج کو تقسیم کرنے کی سازش ہوتی رہی ہے اور اب بھی ہوتی رہے گی۔
راجستھان حکومت نے بلا تاخیر کارروائی کی۔ فوراً گرفتار کر لیا۔ خصوصی عدالت میں مقدمے کی سماعت تیزی سے کی جائے گی۔ ان سب کے باوجود بی جے پی لیڈر اس قتل کے بعد کانگریس حکومت پر اپیزمنٹ کا الزام لگا رہے ہیں۔ وہ وزیر اعلیٰ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس کے لیےانہیں ذاتی طور پر ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہیں جن کا کہنا ہے کہ 2000 میں گجرات میں تقریباً 2000 ہلاکتوں اور لاکھوں لوگوں (عام طور پر مسلمانوں) کے بے گھر ہونے کے لیے کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، بلکہ جو ایسا کہتا ہے، وہی مجرم ہے جیسا ابھی تیستا اور سری کمارکی گرفتاری پر خوشی کی لہر سے ظاہر ہوتا ہے۔
اس قتل کے بہانے محمد زبیر کی گرفتاری کو جائز ٹھہرایا جا رہا ہے۔ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اور بھی لوگوں کو گرفتار کیا جائے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے بی جے پی رہنماؤں کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے مہم چلائی ہے۔
اس مطالبے میں جو بے ایمانی ہے وہ ان لوگوں کو بھی معلوم ہے جو یہ مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم یہ مان لیں کہ یہ قتل بی جے پی لیڈروں کے نفرت انگیز پروپیگنڈے کے خلاف مہم کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس لیے جہاں مسلمان اس قتل سے صدمے میں ہیں، وہیں بی جے پی لیڈروں میں ایک نیا جوش ہے۔ وہ اکثریت خطرے میں ہے، کا نعرہ بلند کرتے ہوئے سڑکوں پر لوگوں کو لانے میں مصروف ہیں۔
اس قتل کی سفاکیت کے باوجود اس پروپیگنڈے کو قبول نہیں کیا جا سکتا کہ ہندو خطرے میں ہیں۔ اس قتل کے بہانے جو لوگ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں، وہی قتل و غارت گری اور تشدد کے پیروکار ہیں۔
ہم سب کو یہ سمجھنا ہو گا کہ ایک منصوبہ بند سازش چلائی جا رہی ہے کہ کسی ایک واقعہ پر ہندو مسلمان ایک آواز میں نہ بول پائیں۔ ہمیں اس مشترک، مشترکہ ہندوستانی سرزمین کو تلاش کرنا ہوگا جو انسانی سرزمین ہے۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)