بورڈ آف سکینڈری ایجوکیشن راجستھان کے لیےچھپی12ویں جماعت کی سیاسیات کی کتاب کو لےکرتنازعہ ۔ جئے پور میں کتاب سے متعلق ایک جوابی کتاب شائع کرنے والےاشاعتی ادارے کے دفتر میں توڑ پھوڑ کرنے کے سلسلے میں تین افراد گرفتار۔
نئی دہلی: راجستھان کی راجدھانی جئے پور میں 12 ویں جماعت کی سیاسیات کی کتاب میں اسلام کا سلسلہ مبینہ طور پر دہشت گردی سے جوڑ نے کو لےکر کتاب شائع کرنے والے اشاعتی ادارے کے دفتر پر حملہ کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔
اتنا ہی نہیں راجستھان اسٹیٹ بک بورڈ اور ایک پبلشنگ ہاؤس کے خلاف مذہبی جذبات کوٹھیس پہنچانے کے سلسلے میں جئے پور میں کیس بھی درج کرایا گیا ہے۔جئے پور کے پرانے شہری علاقے میں واقع نجی پبلشنگ ہاؤس کے دفتر پر توڑ پھوڑ کرنے کے سلسلے میں پولیس نے تین لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، راجستھان مسلم فورم اورمقتدرہ کانگریس کے اقلیتی سیل کے ریاستی کنوینر محسن راشد کی شکایت پر آئی پی سی کی دفعہ295اے (جان بوجھ کر اورمتعصبانہ طریقے سے کیا گیا کام ، جس کا مقصد کسی طبقے کے مذہبی جذبات یا اس کے مذہب یا عقائد کی توہین کرنا ہے)اور 120بی (مجرمانہ طور پر سازش)کے تحت درج کیا گیا ہے۔
دہشت گردی سے متعلق کتاب کےایک باب سوال پوچھا گیا ہے، ‘ان میں سے کون اسلامی دہشت گردی کابنیادی مقصدنہیں ہے؟’جوابات میں‘دنیا میں مسلم ممالک کاقیام ’، ‘متشدد سرگرمیوں کےتوسط سے مغربی غیر مسلم طاقتوں کے خلاف مزاحمت ’، ‘دنیا میں امن وامان’،‘دنیا میں اسلامی قوانین اور اصولوں کانفاذ’درج کیے گئے ہیں۔
اگلے صفحہ پرمختصر سوالات میں پانچویں نمبر پر پوچھا گیا ہے، ‘آپ اسلامی دہشت گردی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟’رپورٹ کے مطابق ، یہ کتاب جئے پور واقع راجستھان اسٹیٹ ٹیکسٹ بک بورڈکے ذریعےبورڈ آف سکینڈری ایجوکیشن کے لیے چھاپی گئی ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے (2013-18)کے زمانے میں اس کونصاب میں شامل کیا گیا تھا۔
جودھپور کے سرکاری کالج کے شعبہ سیاسیات کے ایسوسی ا یٹ پروفیسر ڈاکٹر بھنور سنگھ راٹھوڑ اس متنازعہ کتاب کے کنوینر، مصنف اورمترجم ہیں۔راٹھوڑ اور لگ بھگ ایک درجن سرکاری پروفیسروں اوراساتذہ کے نام بھی ایف آئی آر میں شامل ہیں جنہیں بورڈ کے ممبر اورمصنف کےطورپر درج کیا گیا ہے۔
اسلامی دہشت گردی پر اس سرکاری نصابی کتاب میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے جئے پور واقع سنجیو پرکاشن کے زیر اہتمام شائع جوابی کتاب میں کہا گیا ہے، ‘اسلامی دہشت گردی اسلام کی ایک شکل ہے’اور اس موضوع پر تفصیل سے بتایا گیا ہے۔
محسن راشد نے کہا کہ انہوں نے اپنے گھر کی لائبریری کے لیےیہ کتاب خریدی تھی، اس دوران انہیں متنازعہ حوالوں کی جانکاری ملی۔
ایف آئی آر میں راشد نے کہا ہے، ‘اسلام کو سیدھے طور پر دہشت گردی سے جوڑ نے اور اس کے بعد لگاتار اسلامی دہشت گردی کا ذکر کر کےکتاب اسلام کے خلاف نفرت کو بڑھاوا دے رہی ہے اور مذہب کو بدنام کر رہی ہے۔ ساتھ ہی وہ مسلم طلبا اور کمیونٹی کو مشتعل کرنے کے علاوہ ان کے جذبات کو مجروح کر رہی ہے۔’
ایف آئی آر کے مطابق، ‘یہ مسلم اساتذہ اور طلبا کی بھی توہین ہے۔’راشد نے ایف آئی آر میں کتاب لکھنے اور اس کو اجازت دینے کے لیے ذمہ دار لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کی مانگ کی ہے۔اس بیچ جئے پور پولیس نے مسلم کونسل انسٹی ٹیوٹ کے صدریونس چوپدار سمیت تین لوگوں کو سنجیو پرکاشن کے دفتر میں توڑ پھوڑ کرنے کے لیےگزشتہ 17 مارچ کو گرفتار کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، جئے پور کے آدرش نگر علاقے کے کانگریس ایم ایل اے رفیق خان نے 17 مارچ کو اس معاملے کو اسمبلی میں اٹھاتے ہوئے اشاعتی ادارے کے خلاف کارروائی کرنے کی مانگ کی تھی۔ انہوں نے کہا، ‘کسی بھی مذہب کو اسلام کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔ کتاب میں مذہب کو بلا وجہ بدنام کیا گیا ہے۔’
راجستھان کی جماعت اسلامی تنظیم نے توڑ پھوڑ کی مذمت کی ہے اورنصابی کتاب سے قابل اعتراض موادہٹانے کی مانگ کی ہے۔
راجستھان مسلم فورم کے ممبر نعیم ربانی کو پبلشر کی جانب سے لکھے گئے ایک خط میں معافی مانگی گئی ہے۔ پبلشر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ انہوں نے تھوک دکانداروں کو کتاب نہ بیچنے کو کہا ہے۔ سنجیو پرکاشن نے کہا ہے، ‘ان کتابوں کو جلد سے جلد واپس لیا جائےگا اورضائع کر دیا جائےگا۔’