دی وائر کے مینجر رادھا کرشن مرلی دھر کا جانا…

وفاتیہ: دنیا کے کسی بھی مہذب میڈیاادارے میں مرلی جیسے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ آزاد پریس کے گمنام ہیرو ہوتے ہیں، جن کی محنت و مشقت کے طفیل صحافی وہ کر پاتے ہیں، جو وہ کرتے ہیں۔ ان کے لیےکوئی ایوارڈنہیں ہوتا، کوئی تحسین نہیں ہوتی۔لیکن رپورٹر کےذریعہ ادارے کو ملنےوالےاعزازکو وہ اپنا سمجھ کر اس کی قدرکرتے ہیں۔

وفاتیہ: دنیا کے کسی بھی مہذب میڈیاادارے میں مرلی جیسے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ آزاد پریس کے گمنام ہیرو  ہوتے ہیں، جن کی محنت و مشقت کے طفیل صحافی وہ کر پاتے ہیں، جو وہ کرتے ہیں۔ ان کے لیےکوئی ایوارڈنہیں ہوتا، کوئی تحسین نہیں ہوتی۔لیکن رپورٹر کےذریعہ ادارے کو ملنےوالےاعزازکو وہ  اپنا سمجھ کر اس کی قدرکرتے ہیں۔

رادھاکرشن مرلی دھر ۔ (1958-26 اپریل2021)

رادھاکرشن مرلی دھر ۔ (1958-26 اپریل2021)

دی وائر کے ساتھ آپ کا کام کچھ بھی ہو…آپ رپورٹر ہوں،مہمان ہوں یا کسی بھی وجہ سے آپ کا رابطہ ہوتا ہو، گول مارکیٹ والے دفتر میں سب سے پہلا اور سب سے دوستانہ چہرہ مرلی کا ہی ہوتا۔

گزشتہ سوموارکی صبح رادھاکرشن مرلی دھر نےدہلی کے ایک اسپتال کے آئی سی یو میں آخری سانس لی۔ 63سالہ مرلی کووڈ 19 سے جوجھ رہے تھے۔ دی  وائر میں وہ مینجرکےعہدے  پر فائز تھے۔2015 میں ویب سائٹ کےاجرا کے وقت  سے ہی وہ یہ کام سنبھال رہے تھے۔

لیکن ان کا اصل رول تھا؛ ہمارے ادارہ نماجہاز کو ایک محفوظ بندرگاہ میں ٹھہرانا، جہاں سے روزمرہ کے تمام لوازمات اورضروریات اورذمہ داریوں کو سنبھالا جائے، جس سے دی وائر کے بانی مدیر اور چھوٹا سا ایڈیٹوریل اسٹاف  اپنی صحافت کی کاوشوں کو آگے بڑھا پائیں۔

چنانچہ آج دی وائر وہ بن سکا جوآج وہ ہے-ایک آزاد اورمضبوط نیوزآرگنائزیشن، جس کوچار زبانوں(انگریزی، ہندی ،اردو، مراٹھی)میں لاکھوں لوگ پڑھتے ہیں۔ ان میں سے شاید ہی کوئی مرلی سر کو جانتا رہا ہو یا کسی نے انہیں دیکھا ہو، لیکن وہی دی  وائر کے پوشیدہ ایندھن اور توانائی  تھے، جس سے ہماری صحافت کا انجن گامزن رہا۔

یہ بات تو واضح  ہے کہ کسی جرأت مند اور باحوصلہ میڈیا ادارے میں‘منتظم’ کا عہدہ سنبھالنے کا مطلب ہے کہ آپ کو کبھی نہ کبھی اس کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑےگا۔ وائر میں جب سے ہم نے امت شاہ کے بے حدہونہار بیٹے کے کاروبار کے بارے میں رپورٹ لکھی تھی، تب سے ہمیں ہماری لیڈی ڈاکیہ کے ذریعےموٹے، ہرے لفافوں میں لائے جانے والے ہتک عزت کے معاملوں کے قانونی سمن کی بھی عادت پڑ گئی۔

ان میں دو مقدمے جئے شاہ نے کیے تھے، چھ اڈانی گروپ نے، ایک سبھاش چندرا کے ایسیل گروپ نے اور ایک ایک کاروباری ورہنماراجیو چندرشیکھر اور کاروباری سنت شری شری روی شنکر نے۔

یہ میں قارئین  پر چھوڑتا ہوں کہ وہ  ان حضرات کے بیچ کا کنکشن سمجھیں، لیکن دی  وائر کے مدیران اور مالکان کے طور پر ہمیں امید تھی کہ یہ مقدمے ہمارے نام پر ہوں گے اور ہمیشہ ایسا ہی ہوا تھا۔ لیکن ایک دن مرلی ایک کھلا ہوا لفافہ لےکر میرے پاس آئے۔ ایک بڑی سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائےہوئے انہوں نے مجھ سے کہا، ‘آپ کو مجھے مبارکباد دینی چاہیے، میں بھی آپ کے کلب میں شامل ہو گیا۔’

انل امبانی گروپ نے دی  وائر کے خلاف کیے ایک جھوٹے ہتک عزت کے مقدمے میں مدعا علیہ کے طور پر ‘آر مرلی دھر ،مینجر’ لکھا تھا۔ اس کی وجہ معلوم نہیں کہ انہوں نے کسی ایسے شخص کو کیوں منتخب کیا، جس کی وائر میں شائع  ہو رہے مواد کو لےکر کوئی قانونی ذمہ داری نہیں بنتی۔ بس یہ پتہ ہے کہ گجرات کے کسی کورٹ میں گھسیٹے جانے کے خیال سے مرلی کو ذرا سا بھی خوف  نہیں تھا۔

وہ صحافی نہیں تھے، لیکن ہم لوگوں کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزارنے کی وجہ سے وہ  ایک اچھی اسٹوری کی اہمیت جانتے تھے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اس مقدمے کو کسی اعزاز کی طرح دیکھا تھا۔ لیکن انہوں نے اس بوجھل کاغذی کارروائی کو بھی دیکھا، جس کا حصہ بننا وائر کی ضرورت تھی۔ اور ایک مینجر کے طور پر یہی ان کا کام تھا…مدیران اور رپورٹرس کو پیچھے رکھتے ہوئے یہ یقینی بنانا کہ انہیں اپنی صحافت سے وقت نکال کر اس طرح کے مسائل میں نہ الجھنا پڑے۔

دی وائر میں مرلی کئی کام سنبھالتے تھے — ہمارے اقتصادی امورپر نظر رکھنا (جو اپنے آپ میں بے حددباؤوالا کام ہے)، کارپوریٹ سے متعلق معاملے، غیرمستحکم انٹرنیٹ، نئے انٹرن اور ملازمین کی بحالی۔ ان کے گزر نے کی خبر سن کر ہماری سب سے کم عمرساتھی نے کہا، ‘میں بے حدافسردہ ہوں۔ میرےکام کے  پہلے دن پر میں بہت گھبرائی ہوئی تھی۔ انہوں نے مجھے خود سےپانی کا گلاس لاکر دیا اور پوچھا کہ کیا میں کچھ کھانا پسند کروں گی۔’

دی وائر میں آنے سے پہلے مرلی نے ٹائمس آف انڈیاگروپ میں ایک لمبا وقت گزارا تھا۔ میں ان سے پہلی بار ٹائمس آف انڈیا کے ایڈیٹوریل پیج پر ملا تھا، جہاں اس پیج کے مدیر سنجے بارو کے ماتحت وہ  کام کاج میں مدد کیا کرتے تھے۔ میں ان دنوں ایک ناتجربہ کار اسسٹنٹ ایڈیٹر تھا۔

میرے کام کے پہلے دن ہی مجھے وہاں نوکرشاہ قسم کے ایچ آرمینجر کا غصے بھرا فون کال ملا، جہاں مجھ سے پوچھا گیا کہ میری‘جوائننگ رپورٹ’کہاں ہے۔ میں چکرا گیا۔ مرلی نے جب میرے چہرے پرسوالیہ نشان دیکھا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کاغذ پر ایک لائن ٹائپ کی اور کہا کہ اس پر دستخط کرکے نیچے بھجوا دو۔ اس پر لکھا تھا، ‘میں نے جوائن کر لیا ہے۔’اس کے بعد ایچ آر نے مجھے کبھی پریشان نہیں کیا۔

شعبہ ادارت میں مرلی کا کام بہترین تھا اور وہ جلد ہی اخبار کے مالک سمیر جین کی نظر میں آ گئے۔ انہوں نے انہیں ٹائمس ہاؤس کے چوتھے فلور پر بلوا لیا۔اس کے بع مرلی سےمیری گاہے بہ گاہے ملاقات ہوتی تھی، جب سمیر ہم میں سے کچھ کو اپنی لمبی(اورتھکا دینےوالی) بیٹھکوں کے لیے بلاتے تھے۔

میرے ایک ساتھی مرحوم کے سبرامنیم ان بیٹھکوں کو ‘کیموتھراپی’ کہا کرتے تھے کیونکہ وہ اتنی ہی ناخوشگوار ہوا کرتی تھیں، جتنا سبرامنیم کا اس وقت چل رہا کینسر کا علاج۔ اگر ہمارے پاس سمیر کی‘بصیرت آموز باتوں’ کو لکھنے کے لیے کوئی نوٹ بک نہیں ہوتی، تو وہ  اس سے چڑجاتے تھے۔ ایسے میں جب بھی میں مرلی کی ڈیسک کے پاس سے گزرتا، تو میرے غیرمہذب طور طریقوں سے واقف مرلی ہمیشہ میری طرف ایک رائٹنگ پیڈ بڑھا دیتے۔

میں نے 2004 میں ٹائمس آف انڈیا چھوڑ دیا تھا اور تب سے مرلی سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔ پھر سال 2015 میں جب د ی وائر کو منظرعام پرلانے کی تیاری ہو رہی تھی، تب وہ  میری زندگی میں واپس آئے۔ اس وقت تک مرلی بڑے سے ٹائمس گروپ کے مختلف  شعبوں  میں کام کر چکے تھے اور ان کی عمر 58 سال ہو چکی تھی۔ یہ وہی سرکاری عمر تھی، جب اکثر نجی کمپنیاں اپنے ملازمین کو سبکدوش کرتی ہیں۔

انہوں نے فون پر مجھ سے پوچھا،‘میں نے سنا ہے کہ آپ اور آپ کے دوست کچھ شروع  کر رہے ہیں۔ کیا میں آپ کے ساتھ کام کر سکتا ہوں؟’ہمارے پاس اس وقت کوئی پیسہ نہیں تھا، نہ ہی اسے لے کر کوئی ٹھوس منصوبہ  ہی تھا، لیکن میں نے فون پر کہا، ‘ہاں، بالکل۔’

ان کے پاس ایک اور نوکری کی پیش کش تھی، لیکن انہوں نے اس سےانکار دیا، صرف میری  اس تسلی پر کہ ہم ان کی تنخواہ  کا کوئی نہ کوئی انتظام کر ہی لیں گے۔ شاید وہ دی وائر میں آنے کے لیے اس لیے راضی ہوئے کہ میڈیا میں جو بھی اپنی عمر گزارتا ہے، کہیں نہ کہیں ان کی رگوں میں خون کے علاوہ سیاہی بھی دوڑ رہی ہوتی ہے۔

مرلی دی وائر کی اہمیت سمجھتے تھے اور اس کے کام میں ان کا یقین تھا۔ وہ  بے حدمذہبی انسان  تھے، جو باقاعدگی سے پر ترپتی جایا کرتے تھے۔ وہ  اپنے پریوار اور ساتھ کام کرنے والوں  کی بہت پرواہ کرتے تھے۔

ایک سینئر صحافی  کے ٹائمس آف انڈیا سے سبکدوش  ہونے کے کئی سالوں بعدمرلی نے ان کے لیے ڈھیر ساری کاغذی کارروائی کو انجام دیا، جس کی وجہ سے ان صحافی  کی پنشن رکی ہوئی تھی۔ ایسا کرنا نہ تو ان پرفرض تھا، نہ کوئی وجہ، لیکن انہوں نے مسکراتے ہوئے یہ کیا۔ دی وائر میں وہ  نظم وضبط کو قائم رکھنے والے رول میں تھے، لیکن وہ یہ بھی یقینی بناتے تھے کہ اگرساتھ میں کام کرنے والےکسی  کے ساتھ واقعی کوئی پریشانی  ہے تو اس کا جیسا حل  ہو سکے، کیا جائے۔

میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ دنیا کے ہر ملک کے کسی بھی مہذب  میڈیااداروں  میں مرلی جیسے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ آزاد پریس کے گمنام ہیرو ہوتے ہیں، جن کی محنت ومشقت کی وجہ سے صحافی  وہ کام کر پاتے ہیں، جو وہ کرتے ہیں۔ ان کے لیے کوئی ایوارڈ، کوئی تعریف  نہیں ہوتی لیکن رپورٹر کے ذریعےادارے کو مل رہے اعزاز کو وہ  اپنا سمجھ کر اس کی قدر کرتے ہیں۔

وہ میڈیا کی آزادی پر ہو رہے حملوں سے نہیں گھبراتے، نہ ہی وہ  چڑانے والے مقدموں سے فکرمند ہوتے ہیں۔اقتصادی بحران  بھی انہیں مایوس نہیں کرتی۔ وہ بس خاموشی سےاپنا کام کرتے رہتے ہیں۔

آئندہ جب آپ کوئی عمدہ تفتیشی رپورٹ یا کوئی اچھا مضمون  پڑھیں، یا کوئی ایسی خبر دیکھیں، جو آپ کو متاثر کرتی ہے، تو یاد رکھیں؛ جس صحافی  کا نام آپ نے اس رپورٹ کے ساتھ پڑھا، اس کے پاس دفتر میں ایک فرشتہ نگہبان ہے، جو ہمیشہ اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ مرلی سر وائر کے لیے وہی فرشتہ تھے۔ وہ وائر کی لکشمن ریکھا کے دوارپال تھے اور ہم جانتے ہیں کہ اب بھی آسمان کے اس پار سے ان کی نظر ہم پر ہی ہوگی۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)