آخر کیا بات ہے کہ زراعتی معاملہ ہو، اقتصادیا ت کے دوسرے پہلوہوں، یونیورسٹی ہوں یا اسکول، ہندی اخباروں یا چینلوں سے ہمیں نہ تو صحیح جانکاری ملتی ہے، نہ تنقیدی تجزیہ؟ کیوں ساری ہندی میڈیا حکومت کی جئے جئے کار میں مصروف ہے؟
یہ بھی پڑھیں:رویش کا بلاگ: چراغ پٹیل کا جلنا، پنیہ پرسون باجپئی کا نکال دیا جانا اور آپ کا خاموش رہنا…
اس ماحول میں پنیہ پرسون ایک ایسا کام کر رہے تھے جو ان کو باقی صحافیوں کی نگاہ میں مضحکہ خیز بنا رہا تھا۔ جیسے رویش کمار یا ابھیسار ہیں، ان کو صحافی نہیں، جانبدار کہا جاتا ہے۔ جانبداریہ ہیں، لیکن عوام کے جاننے کے حق کا اور اس کی قیمت ان کو چکانی ہی ہے۔ پنیہ پرسون اس سے پہلے جس چینل میں تھے، وہاں سے بھی ان کو بناوجہ بتائے نکال دیا گیا تھا۔اس نئے چینل کو آخر کیا لگا کہ جس شخص کو ابھی دو مہینہ پہلے بہت اصرار کرکے وہ لے آنے میں کامیاب ہوا تھا، اس کو اچانک الگ کرنا پڑا؟ابھی کچھ روز پہلے ہمیں پنیہ کے دفتر سے فون آیا، یوگیندر یادو کے ساتھ آج کے حالات پر بات چیت کرنا طے ہوا ہے۔ جب ہم پہنچے تو یوگیندر نے ہنستے ہوئے پوچھا کہ آخر اس چینل کے مالک کو کیا جنون سوار ہوا کہ آپ کو لے آیا! کیا وہ آپ کو نہیں جانتا؟ کیا اس سسٹم کے بارے میں آپ کے خیال سے واقف نہیں ہے؟پنیہ جواب میں ہنستے ہی رہے۔ شاید اس سوال کا اور کوئی جواب ہو بھی نہیں سکتا۔ جو بات پنیہ نے مرتب کی، وہ اتنے ٹھہراؤ کے ساتھ ہوئی کہ دیکھنے والے دنگ رہ گئے۔ یہ اطمینان ہندی کے چینلوں میں نایاب ہو چکا ہے۔ اب کوئی بھی اینکر ناظرین کو جانکاری دینے یا سوچنے کے لئے ذریعہ جٹانے میں دلچسپی نہیں رکھتا یا رکھتی۔مرغا لڑانے کا رواج عام ہو چکا ہے، شور کے گھٹا ٹوپ میں خیالات کی اکثریت کی غلط فہمی ہوتی ہے، سننے والے کے دماغ میں غلط فہمیوں کے علاوہ اور کچھ نہیں بچتا۔ بات کرنے، سوچنے کا اور طریقہ ہو سکتا ہے، یہ اگر سامعین یا ناظرین کو معلوم ہونے لگے تو پھر جھوٹ کے شور میں کون دلچسپی لےگا؟یہ ایک وجہ ہے کہ پنیہ جیسے لوگوں کو عوام کی نگاہ سے الگ کرنا ضروری ہے، یہ صرف حکومت کی تنقید نہیں ہے، یہ بات کرنے کا یہ راستہ دکھانا ہے جو ان کو خطرناک بناتا ہے۔ تو کیا پنیہ پرسون کے ساتھ ہوئے اس برتاؤ پر بولنے کا کام انہی چند لوگوں کا ہوگا، جن کی پہلے ہی شناخت ہو چکی ہے؟وہ سب جو چاہتے ہیں کہ میڈیا ان کی اور ان کی طرف سے بات کریں، وہ جلد ہی پائیںگے کہ ان کے کانوں میں شور بھر دیا گیا ہے اور وہ چیخنا چاہتے ہیں، لیکن گلے سے چیخ نکل نہیں رہی ہے۔ وہائس باکس نکالا جا چکا ہے۔ (مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)