پنجاب: دہائیوں کے بدترین سیلاب میں کم از کم 30 افراد ہلاک، ہزاروں گاؤں میں صورتحال تباہ کن

پنجاب میں موسلا دھار بارش جاری ہے۔ بھاکرا سمیت مختلف ڈیموں سے کنٹرول مقدار میں پانی چھوڑے جانے کے بعد ریاست میں سیلاب کی صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔ سیلاب میں کم از کم 30 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، جبکہ پانچ لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔

پنجاب میں موسلا دھار بارش جاری ہے۔ بھاکرا سمیت مختلف ڈیموں سے کنٹرول مقدار میں پانی چھوڑے جانے کے بعد ریاست میں سیلاب کی صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔ سیلاب میں کم از کم 30 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، جبکہ پانچ لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔

ضلع گرداسپور کے ڈیرہ بابا نانک قصبے میں زیر آب گاؤں میں لوگ۔ (تصویر: ارینجمنٹ)

نئی دہلی: پنجاب تقریباً چار دہائیوں کے بدترین سیلاب کی زد میں ہے، جس سے سرحدی ریاست کے 12 سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں کم از کم 30 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

پنجاب میں موسلادھار بارشں جاری ہے۔ بھاکرا سمیت مختلف ڈیموں سے کنٹرول مقدار میں پانی چھوڑے جانے کے بعد ریاست میں سیلاب کی صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔ سیلاب سے کم از کم 30 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ پانچ لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق، تقریباً 1400 گاؤں  زیر آب ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے تقریباً 1.50 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی کو نقصان پہنچا ہے۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، یکم اگست سے یکم ستمبر تک پنجاب حکومت کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق، ہماچل پردیش اور جموں و کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں شدید بارش کی وجہ سے ندیوں  اور نالوں  میں بہاؤ تیز ہونے کے بعد سے راوی ندی کے سیلاب میں پٹھان کوٹ ضلع میں 6 افراد ہلاک ہوئے، جبکہ ہوشیار پور، امرتسر، لدھیانہ، مانسہ، روپ نگر اور برنالاضلع میں تین تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

اس سیلاب نے بھٹنڈہ، گرداسپور، پٹیالہ، موہالی اور سنگرور اضلاع میں ایک ایک شخص کی جان لے لی ہے۔ راوی کے علاوہ دریائے بیاس اور ستلج نے بھی پنجاب میں تباہی مچا ئی ہے۔

دریں اثنا، پٹھانکوٹ ضلع میں گزشتہ ہفتے سیلاب کے بعد تین افراد لاپتہ ہیں۔

اخبار نے ریاستی حکومت کے ایک سینئر اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ‘موت کے اعداد و شمار ضلع ہیڈکوارٹر سے موصولہ اطلاعات کی بنیاد پر مرتب کیے گئے ہیں۔ اس میں متاثرہ علاقوں میں  کرنٹ لگنے، مکانات گرنے اور ڈوبنے سے ہونے والی اموات کے اعداد و شمار شامل ہیں۔

حکومت کی طرف سے جاری فلڈ بلیٹن کے مطابق، ایک اندازے کے مطابق 2.56 لاکھ لوگ سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں، جن میں سب سے زیادہ 1.45 لاکھ آبادی گرداسپور ضلع کی ہے، جہاں 321 گاؤں متاثر ہیں۔

اس تباہ کن سیلاب نے کسانوں کو شدید معاشی نقصان پہنچایا ہے، خاص طور پر دھان کی کاشت کے اہم سیزن کے دوران، کیونکہ ریاست بھر میں 2.32 لاکھ ایکڑ (94,061 ہیکٹر) اراضی ڈوب گئی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ضلع امرتسر میں 56,834 ایکڑ زرعی اراضی متاثر ہوئی ہے، اس کے بعد ضلع مانسا میں 42,020 ایکڑ، کپورتھلہ میں 36,902 ایکڑ، ترن تارن میں 29,363 ایکڑ، فیروز پور میں 27,754 ایکڑ، ہوشیار پور میں 14,754 ایکڑ اورپٹھانکوٹ ضلع میں 6,034 ایکڑ زمین متاثر ہوئی ہے۔

گرداسپور ضلعی انتظامیہ نے ابھی تک ممکنہ نقصان کے اعداد و شمار جمع نہیں کیے ہیں کیونکہ سیلاب سے متاثرہ دیہات میں پانی کی سطح بڑھنے کی وجہ سے ابتدائی سروے میں تاخیر ہوئی ہے۔

ریاستی حکومت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ مویشیوں اور بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ سیلاب کا پانی کم ہونے کے بعد ہی لگایا جا سکے گا۔

خصوصی راحت پیکج کا مطالبہ

دریں اثنا، لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف اور کانگریس کے رکن پارلیامنٹ راہل گاندھی نے بدھ کے روز وزیر اعظم نریندر مودی سےپنجاب، جموں و کشمیر، اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش کے لیے فوراًخصوصی ریلیف پیکیج کا اعلان کرنے  اور راحت اور بچاؤ کاموں میں تیزی لانے کی اپیل کی ۔

لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر نے کہا، ‘مودی جی، سیلاب نے پنجاب میں شدید تباہی مچائی ہے۔ جموں و کشمیر، ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ کی صورتحال بھی انتہائی تشویشناک ہے۔’

گاندھی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا ، ‘ایسے مشکل وقت میں مرکزی حکومت کی طرف سے آپ کی توجہ اور فعال مدد انتہائی ضروری ہے۔ ہزاروں خاندان اپنے گھروں، جانوں اور پیاروں کو بچانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔’

اس بار کے سیلاب نے 1988 کی اداس یادیں تازہ کر دیں

پنجاب میں آئے سیلاب نے 1988 کی ہولناکیوں کی یادیں تازہ کر دی ہیں – جب دریائے ستلج، بیاس اور راوی میں سیلاب نے 500 سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا تھا – جس سے دوبارہ ایسی ہی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

انڈین ایکسپریس نے انڈین میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ (آئی ایم ڈی) کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 1988 میں پنجاب، ہریانہ اور ہماچل پردیش اور آسام، اروناچل پردیش، بہار وغیرہ میں سیلاب اس سال کے ‘چار سب سے تباہ کن موسمی واقعات’ میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ مغربی بنگال میں بھی سائیکلون طوفان، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں شدید گرمی اور جموں و کشمیر میں شدید برف باری ہوئی تھی۔

سال1988کے سیلاب میں شمالی ہندوستان میں 1,400 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، جن میں کم از کم 685 لوگ پنجاب، ہریانہ اور ہماچل پردیش کےتھے۔ رپورٹس کے مطابق، صرف پنجاب میں 535 افراد کی موت ہوئی۔ لیکن پنجاب حکومت کے مطابق، 383 افراد ہلاک اور 62 لاپتہ ہوئے۔

آئی ایم ڈی کی رپورٹ کے مطابق، اس سال پنجاب میں مسلسل بارش مارچ میں شروع ہوئی تھی، لیکن سب سے زیادہ تباہی ستمبر میں اس وقت ہوئی جب تین ندیاں ستلج، راوی اور بیاس نے تباہی مچائی، جس سے تقریباً پورا پنجاب گرداسپور سے لدھیانہ، جالندھر سے سنگرور تک ڈوب گیا تھا۔

اس کے پانچ سال بعد 1993 میں پنجاب کو پھر تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، جس میں 300 سے زائد افراد ہلاک اور 6200 مویشی مارے گئے۔ سب سے زیادہ متاثر امرتسر، گرداسپور، لدھیانہ، پٹیالہ، فتح گڑھ صاحب، ہوشیار پور، فیروز پور اور سنگرور وغیرہ تھے۔