ممنوعہ تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی اسٹوڈنٹ ونگ کیمپس فرنٹ آف انڈیا کے ممبرعتیق الرحمان کو 5 اکتوبر 2020 کو صحافی صدیق کپن کے ساتھ اس وقت گرفتار کیا گیا تھا، جب وہ اترپردیش کے ہاتھرس میں ریپ متاثرہ سے ملنے جا رہے تھے۔ انہیں گزشتہ 14 جون کو جیل سے رہا کیا گیا ہے۔
نئی دہلی: 960 دنوں کی جیل کی سزا کاٹنے کے بعد رہا ہوئے سماجی کارکن عتیق الرحمان نے کہاکہ انہیں مسلمان ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا اورمسلسل جیل میں گزارے وقت نے انہیں یقین دلایا ہے کہ ‘ہندوستان میں جمہوریت’ نام کی کوئی چیز نہیں بچی ہے۔
رحمان کو 5 اکتوبر 2020 کو صحافی صدیق کپن اور دو دیگر افراد(مسعود احمد اور محمد عالم) کے ساتھ اتر پردیش میں ہاتھرس جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔
وہ 19 سالہ دلت لڑکی کے اہل خانہ سے ملنے ہاتھرس جا رہے تھے، جس کے ساتھ مبینہ طور پر ‘اشرافیہ کمیونٹی’ کے چارمردوں نے گینگ ریپ کیا تھا۔ بعد میں لڑکی نے دم توڑ دیا تھا۔
حالاں کہ متاثرہ نے اپنی موت سے پہلے دیے گئے بیان میں تین لوگوں پر جنسی زیادتی کا الزام لگایا تھا، لیکن اس سال مارچ میں ایک ایس سی /ایس ٹی عدالت نے کسی بھی ملزم کو ریپ کا قصوروار نہیں پایا۔ ایک شخص کوغیر ارادتاً قتل اور ایس سی /ایس ٹی (پریوینشن آف ایٹروسیٹیز) ایکٹ کے تحت دیگر جرائم کے لیےقصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔
دریں اثنا، اتر پردیش حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ رحمان اور صدیقی نسلی فسادات بھڑکانے کی سازش کا حصہ تھے۔ رحمان پر سیڈیشن، منی لانڈرنگ اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کی دفعات کے تحت الزام عائد کیا گیا تھا۔ ان پر انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعات کے تحت بھی الزام لگائے گئے تھے۔
انہیں گزشتہ ماہ منی لانڈرنگ کے کیس میں ضمانت ملی تھی اور گزشتہ 14 جون کو جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ دیگر مقدمات میں انہیں پہلے ہی ضمانت مل چکی تھی۔ دی وائر سے بات کرتے ہوئے رحمان نے کہا کہ 32 ماہ کی قید ان کے حوصلے کو پست کرنے میں ناکام رہی۔
انہوں نے کہا کہ جیل سے باہر آیا تومیں نے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگایا اور آج بھی مجھے کوئی خوف نہیں ہے۔ میں ملک کے کسی بھی حصے میں ہونے والی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتا رہوں گا۔
جب کپن ایک صحافی کے طور پر اس معاملے کو کورکرنے جا رہے تھے، رحمان (جو کیمپس فرنٹ آف انڈیا کے ممبر تھے، جو کہ اب ممنوعہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی اسٹوڈنٹ ونگ ہے) متاثرہ کے خاندان کے ساتھ ‘اظہار یکجہتی’ کے لیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا، ‘میں نے ہمیشہ اپنی آواز بلند کی ہے اور اہم مسائل کے لیےیکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے، چاہے وہ نربھیا کیس ہو یا ہاتھرس کیس۔ میں نے ہاتھرس جاکرمتاثرہ خاندان سے ملنے اور اظہار یکجہتی کا فیصلہ کیا تھا۔
مسلمان ہونے کی سزا ملی : رحمان
رحمان کا کہنا ہے کہ انہیں مسلمان ہونے کی وجہ سے سزاملی۔ انہوں نے کہا، ‘جب (کانگریس لیڈر) راہل گاندھی 2 اکتوبر 2020 کو اپنے کچھ حامیوں کے ساتھ ہاتھرس گئے تو ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور واپس بھیج دیا گیا۔ اگلے دن جب راشٹریہ لوک دل کے جینت چودھری نے وہاں جانے کی کوشش کی تو ان پر لاٹھی چارج کیا گیا۔ 4 اکتوبر 2020 کو (بھیم آرمی کے) چندر شیکھرنے وہاں جانے کی کوشش کی، لیکن اسے حراست میں لے لیا گیا اور بعد میں مظفر نگر میں چھوڑیا گیا۔
وہ سوال اٹھاتے ہیں،’انہیں کیوں رہا کیا گیا؟ کیونکہ وہ ہندو تھے، جبکہ ہم چاروں کو اس لیے جیل بھیج دیا گیا کہ ہم مسلمان تھے۔
گزشتہ 25 مئی کو الہ آباد ہائی کورٹ نے منی لانڈرنگ کیس میں رحمان کو یہ کہتے ہوئے ضمانت دی کہ ان کے خلاف صرف یہ الزام تھا کہ ان کے بینک اکاؤنٹ میں5000 روپے جمع کرائے گئے تھے۔ دی وائر نے فیصلہ پڑھا ہے، جس میں عدالت نے کہاکہ ‘(رقم) ان کے اکاؤنٹ میں ایک ایسے شخص کے ذریعے جمع کی گئی تھی، جو کیس میں ملزم نہیں ہے۔
جج نے یہ بھی کہاکہ منی لانڈرنگ کیس کے کلیدی شریک ملزم کے اے رؤف شیرف کو پہلے ہی ضمانت دے دی گئی تھی۔
حالانکہ رحمان کو گزشتہ ماہ ضمانت دےگئی تھی، لیکن وہ 14 جون کو جیل سے باہر آئے ۔ ان کے ایک وکیل شیریں علوی کے مطابق ایسا ‘ضابطے کو پورا کرنے میں تاخیر’ کی وجہ سے ہوا۔
گزشتہ 15 مارچ کو، ہائی کورٹ نے انہیں یو اے پی اے کیس میں یہ نوٹ کرتے ہوئے ضمانت دے دی تھی کہ ان کی مسلسل حراست کو جائز ٹھہرانے کے لیے کوئی ‘مضبوط وجہ’ نہیں دی گئی تھی۔
یو اے پی اے کیس میں انہیں ضمانت دیتے ہوئے عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کے دونوں شریک ملزمین کپن اور عالم کو ضمانت دے دی گئی ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ رحمان کے خلاف مقدمے کی سماعت کا مناسب موقع فراہم کیے بغیر الزامات طے کیے گئے تھے۔
رحمان نے کہا، ’میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ مجھے اور میرے ساتھ تین دیگر لوگوں کو مسلمان ہونے کی سزا دی گئی۔‘
جیل میں زندگی کاٹنے کا ڈر
رحمان نے کہا کہ جیل میں گزارے گئے سالوں کے دوران انہیں لگتا تھا کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے۔ انہوں نےکہا ’ان 32 مہینوں کے دوران میں نے بہت جدوجہد کی اور بعض اوقات مجھے لگا کہ میری بگڑتی ہوئی صحت کی وجہ سے میری جان خطرے میں ہے۔
نومبر2021 میں نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس ) میں ان کے دل کی سرجری ہوئی تھی۔ ان کے اہل خانہ کی جانب سے الہ آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے کے بعد ہی سرجری ممکن ہو پائی تھی۔
سرجری کے بعد مناسب طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے ان کی صحت مزید بگڑ گئی۔ اگست 2022 میں انہیں لکھنؤ کی کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی کے اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ ان کا دایاں حصہ مکمل طور پر مفلوج ہو چکا تھا۔ وہ 10 دن تک ہسپتال میں رہے تھے۔
ستمبر 2022 میں ان کے اہل خانہ کی جانب سے فوری طبی امداد کی اپیل کی ٹوئٹر پر متعدد کارکنوں نے حمایت کی۔
شہری حقوق کے کارکنوں نے انہیں فوری طبی دیکھ بھال فراہم کرنے کے لیے اتر پردیش کے ٹربیونلز کو ایک خط بھی لکھا تھا۔
رحمان نے کہا کہ انہیں اپنی دوسری سرجری کے بعد جان جانےکا ڈرستا رہا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’بھلے ہی انہیں امید تھی کہ میں جیل میں مر جاؤں گا، لیکن میں کسی طرح بچ گیا۔
ہندوستان میں جمہوریت
رحمان نے کہا کہ وہ ہندوستان میں ناانصافی کے خلاف اپنی آواز بلندکرتے رہیں گے۔ وہ لائبریری اور انفارمیشن سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔
تیس (30) لاکھ روپے سے زیادہ کی قانونی فیس ادا کرنے کے بعد رحمان نے کہا کہ انہیں ان لوگوں کو پیسہ واپس کرنے کا طریقہ تلاش کرنا ہوگا، جنہوں نے ان کے خاندان کو قرض دیا تھا۔
انہوں نے کہا، ‘میرے خاندان نے بہت جدوجہد کی ہے۔ ہمیں 30 لاکھ روپے سے زیادہ کی قانونی فیس ادا کرنی ہے۔ ہم نے دوستوں اور خاندان والوں سے ادھار اور قرض لے کر کسی طرح گزارہ کیا۔ مجھے اس قرض کو ادا کرنے کا طریقہ تلاش کرنا ہے۔
جیل میں گزارے گئے 32 ماہ نے ان کویقین دلا دیا ہے کہ ‘ہندوستان میں جمہوریت نام کی کوئی چیز باقی نہیں ہے۔’انہوں نے کہا، ‘جیل میں میرے تجربے نے مجھے سمجھایا ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت اب صرف کتابوں میں موجود ہے۔’
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔