خصوصی رپورٹ : 14 فروری 2019 کو جموں و کشمیر کے پلواما ضلعے میں ہوئے دہشت گردانہ حملے میں بہار کے رہنے والے دو سی آر پی ایف جوان بھی مارے گئے تھے۔ حملے کے ایک سال بعد ان کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ شہادت کے بعد حکومت کی طرف سے بڑے-بڑے وعدے کئے گئے تھے، لیکن سارے کاغذی نکلے۔
شہید جوان رتن کمار ٹھاکر (فوٹو : امیش کمار رائے)
پٹنہ : ‘ بندوق لےکر 24 گھنٹے ملک کی خدمت کرنے والے میرے بیٹے کی فوٹو پر میں گل پوشیکرنے جا رہا ہوں۔ یہ کتنی تکلیف دہ بات ہے۔ ایک سال میں حکومت اس کی یادگار بھی نہیں بنوا پائی ہے۔ ‘ حکومت کو لےکر اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے بھاگل پور کے رہنے والے رتن کمار ٹھاکر کے باپ رام نرنجن ٹھاکر یہ بات کہتے ہیں۔ رتن کمار ٹھاکر سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کی 45 بٹالین میں تھے۔ پچھلے 14 فروری کو جموں و کشمیر میں ایک خودکش حملے میں شہید ہوئے 40 جوانوں میں رتن بھی شامل تھے۔
رام نرنجن ٹھاکر کہتے ہیں، ‘ شہادت کے بعد حکومت کی طرف سے بڑے-بڑے وعدے کئے گئے تھے، لیکن سارے کاغذی نکلے۔ بیٹے کے نام پر یادگار، انٹری گیٹ، کھیل کا میدان وغیرہ بنانے کی بات تھی، لیکن کچھ بھی نہیں بنا۔ ہاں، سی آر پی ایف کی طرف سے جو معاوضہ دینے کی بات تھی وہ ملا ہے۔ چھوٹے بیٹے کو بہار حکومت نے نوکری دی ہے۔ بہو کی پنشن بھی جاری ہو گئی ہے۔ بیٹے کی تنخواہ اور بہو کی پنشن سے فیملی چل رہی ہے۔ ‘
رتن ٹھاکر سال 2011 میں سی آر پی ایف میں شامل ہوئے تھے۔ پلواما حملے سے وہ پہلے مہاراشٹر میں ایک ٹریننگ میں شامل ہوئے تھے۔ ‘ حملے سے ایک دن پہلے ہی فون پر اس سے بات ہوئی تھی، تو اس نے بہن کے لئے لڑکا دیکھنے کو کہا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ وہ ہولی میں گھر آئےگا، تو بہن کی شادی کرکے خود کنیادان کرےگا۔ میرا نصیب خراب ہے کہ میرے ہاتھ سے میرا جوان بیٹا چلا گیا، ‘ یہ کہہکر 53 سالہ رام نرنجن ٹھاکر رونے لگتے ہیں۔
رتن ٹھاکر کی شادی کچھ سال پہلے ہی ہوئی تھی، دو بیٹے ہیں۔ ایک کی عمر ساڑھے 4 سال ہے اور دوسرا 10 مہینے کا ہے۔ دوسرے بیٹے کا جنم پلواما حملے کے دو مہینے بعد رام نومی کے دن ہوا تھا۔ اس کا نام رام رکھا گیا ہے۔ دو مہینے بعد رام کو ایک سال ہو جائےگا، لیکن اس کو اب بھی نہیں پتہ کہ اس کے والد اس دنیا میں ہیں ہی نہیں۔
پلواما حملے کی جانچ نہ ہونے کو لےکر رام نرنجن ٹھاکر مرکز کی مودی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہتے ہیں، ‘ جب جموں سے گاڑی سرینگر کے لئے سکیورٹی فورسز کو لےکر گاڑیاں چلتی تھیں، تو ان کو اسکارٹ کیا جاتا تھا۔ پیٹرولنگ پارٹی رہتی تھی۔ لیکن اس دن؟ دوسری بات کہ جوانوں کی گاڑیوں کے درمیان وہ خودکش کار کہاں سے آ گئی؟ اس پر حکومت نے توجہ سے جانچ پڑتال نہیں کی۔ یہ حملہ کیسے ہوا، کیوں ہوا، اس کی کوئی تفتیش نہیں ہوئی ہے۔ اس کی جانچ پڑتال کی جانی چاہیے۔ ‘
پلواما حملے میں بہار کے پٹنہ ضلع کے تارےگنا کے رہنے والے مہیندر پرساد سنہا کے بیٹے سنجے کمار سنہا بھی مارے گئے تھے۔ سنجے کمار سنہا کی بیوی بےبی دیوی اور والد ‘ بھی حملے کی جانچ کو لےکر مرکزی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ‘ اس حملے کے لئے حکومت قصوروار ہے۔ اگر سکیورٹی چاک و چوبند ہوتی، تو اتنا بڑا حملہ ہو جاتا؟ اتنے جوان شہید ہو گئے۔ اتنے روپے معاوضہ دیا گیا، یہ سب ملک کا گیا نہ! وزیر اعظم نے گیہوں بیچکر تھوڑے دیا؟ ‘
مہیندر پرساد سنہا کہتے ہیں، ‘ جب جوانوں کی گاڑیاں گزر رہی تھیں، تو حفاظت کا پختہ انتظام کیا جانا چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس میں پوری طرح حکومت کی غلطی ہے۔ ہر روز ملک کے جوان شہید ہو رہے ہیں۔ حکومت کو ان کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے۔ ‘
جوان سنجے کمار سنہا کی فیملی نے ان کی تصویر اپنے گھر کے دروازے پر لگوائی ہے (فوٹو : امیش کمار رائے)
وہ بھی حکومت پر وعدہ خلافی کا الزام لگاتے ہیں۔ ان کے مطابق، سی ایم سے لےکر ڈی ایم تک نے وعدہ کیا تھا کہ ان کے بیٹے کے نام پر یادگار بنےگا، اسکول بنےگا، لیکن ایک سال گزر جانے کے بعد بھی کچھ نہیں بنا۔
وہ آگے کہتے ہیں، ‘ وزیر اعظم سے لےکر وزیرِ دفاع تک کہتے ہیں کہ وہ شہید جوانوں کی فیملی کے ساتھ ہیں، لیکن ایک سال میں ایک بار بھی ہماری خیریت کے بارے میں نہیں پوچھا۔ کبھی ہم سے ہمارا حال جاننے نہیں آئے۔ صرف کہہ دینے سے نہیں ہوگا، ان کو آکر دیکھنا چاہیے کہ ہم کس حال میں جی رہے ہیں۔ ‘
سنجے کمار سنہا سال 1993 میں سی آر پی ایف کی 176 بٹالین میں کانسٹیبل کے عہدے پر بھرتی ہوئے تھے۔ ان کی دو بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔ چھوٹی بیٹی کو بہار حکومت نے بلاک دفتر میں نوکری دی ہے۔ بڑی بیٹی کچھ نہیں کر رہی ہے۔ بیٹا میڈیکل کی تیاری کر رہا ہے۔
سنجے کی بیوی بےبی دیوی نے بتایا کہ چھوٹی بیٹی کی نوکری تو لگ گئی ہے، لیکن ابھی تک تنخواہ نہیں ملی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ‘ مجھے پنشن مل رہی ہے۔ اسی پنشن سے فیملی کسی طرح سے چل رہی ہے۔ حملے کے بعد وزیراعلیٰ نتیش کمار ملنے کے لئے آئے تھے، تو انہوں نے اپنے پی اے کا نمبر دےکر کہا تھا کہ جب بھی ضرورت ہو، ہم لوگ فون کر سکتے ہیں۔ لیکن اب تو فون اٹھاتے بھی نہیں ہیں کہ اپنا دکھڑا ان کو سنائیں۔ ‘
بےبی دیوی چاہتی ہیں کہ ان کی بڑی بیٹی کو حکومت ریلوے یا بینک میں نوکری دے۔ وہ اب اپنی فیملی سے کسی کو فوج میں نہیں بھیجنا چاہتی ہیں۔
مرحوم جوان سنجے کمار سنہا کی بیوی بےبی دیوی(فوٹو : امیش کمار رائے)
انہوں نے بھی یادگار نہیں بننے پر غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ‘ اس وقت کہا گیا تھا کہ ایک یادگار بنائی جائےگی۔ ایک سال تو گزر گیا، لیکن کچھ نہیں ہوا۔ میں نے خود سے گھر کے دروازے کے پاس دیوار پر ان کا ایک فوٹو لگوایا ہے۔ اب تو وہ لوٹیںگے نہیں، اس لئے ان کی یادگار کے طور پر تصویر لگوا دی ہے۔ ‘
حملے کے واقعہ سے ٹھیک پہلے ان سے بات ہوئی تھی، تو انہوں نے بڑی بیٹی کے لئے لڑکا دیکھنے کو کہا تھا۔ وہ بتاتی ہیں، ‘ نو بجے کے قریب فون کئے تھے، تو بڑی بیٹی کی شادی کی بات ہوئی تھی۔ میں نے ایک لڑکے کے بارے میں ان کو بتایا تھا، تو انہوں نے کہا تھا کہ چھٹیوں میں گھر لوٹکر وہ بات کریںگے۔ لیکن اس سے پہلے ہی یہ سب ہو گیا۔ بیٹی کی شادی بھی نہیں ہو پائی۔ ‘
انہوں نے بھی شوہر کی شہادت کے لئے حکومت کو قصوروار ٹھہرایا۔ ان کا کہنا تھا، ‘ اگر گاڑیوں کے گزرنے سے پہلے حکومت نے سڑک کی چھان بین کی ہوتی، یہ واقعہ نہیں ہوا ہوتا۔ اب جو ہوا سو ہوا، لیکن حکومت کو اب یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ایسا واقعہ دوبارہ نہ ہو، تاکہ دوسری عورتوں کو وہ دکھ-درد جھیلنا نہ پڑے، جو ہم جھیل رہے ہیں۔ ‘
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔ )