وقت آگیا ہے کہ پلوامہ، پارلیامنٹ، ممبئی اور اکشر دھام حملوں کی غیر جانبدارانہ تفتیش کا مطالبہ کیا جائے اور معلوم کیا جائے کہ جانکاری ہوتے ہوئے بھی پیش بندی کیوں نہیں کی گئی۔ آخر معصوم افراد کو دہشت گردی کی خوراک کس نے بننے دیا اور اس سے کیا سیاسی فوائد حاصل کئے گئے؟
پچھلی دو دہائیوں کے دوران ہندوستان اور پاکستان تقریباً تین بار جنگ کے دہانے تک پہنچ گئے تھے، جن میں 2001میں ہندوستانی پارلیامان پر حملہ، 2008میں ممبئی کے دو فائیو اسٹار ہوٹلوں پر دہشت گردانہ کاروائی اور 2019میں جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ میں نیم فوجی کانوائے پر خود کش حملہ شامل ہے۔
مگر جو تار ان تینوں واقعات کو جوڑتے ہیں، وہ ہیں کہ خفیہ ایجنسیوں کو ان کے بارے میں پیشگی جانکاری تھی۔ آخر ان واقعات کو روکنے لیے انہوں نے کاروائی کیوں نہیں کی؟یہ ایک بڑا سوال ہے، جو ہنوز جوا ب کا منتظر ہے۔پلوامہ حملوں کی دوسری برسی کے موقع پر ایک معروف جریدہ فرنٹ لائن نے انکشاف کیا ہے کہ2 جنوری 2019سے13 فروری 2019تک یعنی حملہ سے ایک د ن قبل تک حکام کو 11 ایسی خفیہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں، جن میں واضح طور پر اس حملہ کی پیشن گوئی کی گئی تھی۔
عام انتخابات سے 8ہفتے قبل اس حملے اور اس کے بعد پاکستان کے بالا کوٹ علاقے پر فضائی حملوں نے ایسی جنونی کیفیت پیدا کی کہ جو بھی اس حملہ کے متعلق حقائق جاننا چاہتا تھا، اس کو خاموش کردیاگیا۔ سینئر کانگریسی لیڈراور مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ دگوجئے سنگھ کے مطابق 8فروری کو جب انہوں نے ٹوئٹ کے ذریعے ایک انٹلی جنس رپورٹ کا حوالہ دےکر سوال کیا کہ پیشگی اطلاع کے باوجود یہ حملہ کیسے ہوا؟
تو ان کے اس ٹوئٹ کو ہی بلاک کردیاگیا۔ فرنٹ لائن کے نمائندے آنندوبھکتو نے اس رپورٹ میں بتایا ہے کہ خفیہ اطلاعات اتنی واضح تھیں کہ ان پر ایکشن نہ لینا مجرمانہ زمرے میں ہی آسکتا ہے۔پولیس سربراہ دلباغ سنگھ اور انسپکٹرجنرل آپریشنز کی میز پر 13فروری کو جو رپورٹ پہنچی اس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ قومی شاہرا ہ پر آئی ای ڈی بلاسٹ کی تیاریا ں ہو رہی ہیں۔
ایک دوسرے خفیہ ان پٹ میں ضلع پلوامہ کے اونتی پورہ تحصیل کے نزدیک قومی شاہراہ پر لتھی پورہ کراسنگ کو ہائی رسک علاقہ بتایا گیا۔ یہ وہی کراسنگ ہے، جہاں اگلے روز یعنی 14فروری کو دوپہر سوا تین بجے ایک خود کش بمبار نے نیم فوجی دستوں کی ایک کانوائے کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں 40اہلکار موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔
تقریبا ًڈھائی ہزار فوجی دستوں پر مشتمل 78گاڑیوں کی کانوائے جموں سے سرینگر آرہی تھی۔ اس اطلاع میں پولیس کو ہدایت دی گئی تھی کہ قومی شاہراہ کے اس حصے میں سکیورٹی کا خاطر خواہ انتظام کیا جائے۔ پولیس نے بعد میں ایک نوجوان مدثر احمد خان کو اس حملہ کا ماسٹر مائنڈ قرار دےکر 100گھنٹوں کے بعد ہلاک کرکے اپنی پیٹھ تھپتھپائی۔بتایا جاتا ہے کہ وہ کئی ماہ سے خفیہ ایجنسیوں کے راڈار پر تھا اور اس کی نقل و حرکت نہایت باریکی کے ساتھ مانیٹر کی جا رہی تھی۔
پچیس جنوری 2019کو جلی حروف میں ایک اطلاع حکام کو موصول ہوئی، جس میں بتایا گیا کہ مدثر اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ مڈورہ گاؤں میں موجود ہے اور اگلے چند روز میں اونتی پورہ یا پلوامہ کے آس پاس کوئی بڑی کاروائی ہونے والی ہے۔ 7جنوری کی اطلاع ہے کہ چند افراد دیہاتوں میں مقامی نوجوانوں کو آئی ای ڈی، اور دیگر گولہ بارود و اسلحہ استعمال کرنے کی ٹریننگ دے رہے ہیں۔
ان میں سے ایک شخص کی شناخت غیر کشمیر ی کے طور پر کی گئی تھی۔ 18جنوری کی ایک اور اطلاع میں بتایا گیا کہ 20مقامی اور ایک غیر ملکی عسکری پلوامہ اور اس کے گر د نواح میں ایک بڑی کاروائی کرنے والے ہیں۔ 22جنوری کو موصول ان پٹ میں تحریر ہے کہ مدثر اور اس کے ساتھی بڑی کاروائی کرنے والے ہیں۔
اس طرح کی کئی اور اطلاعات 13فروری تک مسلسل حکام کو موصول ہوتی رہی ہیں۔ آخری وارننگ مختلف انٹلی جنس ایجنسیوں کے مشترکہ پلیٹ فارم ملٹی ایجنسی سینٹر یعنی میک پر شیئر کی گئی۔ سوال ہے کہ اتنی واضح پیشگی اطلاعات کے باوجود اس حملہ کو روکنے کے لیے پیش بندی کیوں نہیں کی گئی؟ اگر خفیہ ایجنسیوں کا دعویٰ صحیح ہے کہ مدثر ہی پلوامہ کا ماسٹر مائنڈ تھاتو اس کے خلاف قبل از وقت کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ جب کی اس کی نقل و حرکت پر خصوصی نظر رکھی جا رہی تھی۔
حملہ کے چند روزبعد اس کو عبدالرشید غازی کے ساتھ ہلاک کرکے بظاہر تفتیش کی فائل بند کر دی گئی۔ اس خود کش حملہ کے ایک روز قبل جموں و کشمیر پولیس میں خاصا رد و بدل کیا گیا، جس میں اونتی پورہ کے سپر نٹنڈنٹ پولیس محمد زید کی ٹرانسفر بھی شامل تھی۔
کسی کارروائی کے خدشہ کے درمیان پولیس میں رو د بدل کرنا اور اس علاقے کے پولیس انچارج کو عین موقع پر ایسے وقت تبدیل کرنا جب و ہ خفیہ اطلاعات کی بنا پر پیش بندیا ں کر رہا تھا، ایک ایسا سوال ہے، جس کا جواب حکام کے لیے دینا لازمی ہے، کیونکہ اس حملہ کو بنیاد بنا کر پورے ملک پر ایک جنگی جنون طاری کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں وزیر اعظم نریندر مودی نے دوسری بار قطعی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپسی کی اور اسی کے نتیجے میں جموں و کشمیر کی آئینی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس کو دو حصوں میں تقسیم کیاگیا۔
معروف صحافی اور تھنک ٹینک آبزور ریسرچ فاونڈیشن کے ایک ممبر ستیش مشرا کے بقول؛
چالیس سیکورٹی اہلکاروں کی ہلاکت مودی کے لیے بھگوان کا وردان ثابت ہوگئی، اس نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سیاسی غبارہ میں دوبارہ ہوا بھر دی، جو زمین کی طرف آرہا تھا۔
جس وقت پلوامہ میں حملہ ہوا مودی اس وقت اتراکھنڈ صوبہ کی جم کاربٹ نیشنل پارک میں ڈسکوری ٹی وی چینل کے پروگرام Man V/S Wild کے اینکر بیر گریلز کے ساتھ شوٹنگ میں مصروف تھے۔ اس کے فوراً بعد جب وہ فون پر ایک جلسہ سے خطاب کر رہے تھےتو اس میں انہوں نے پلوامہ کا نام تک نہیں لیا کیونکہ و ہ جانتے تھے کہ اس کو کب بھنانا ہے۔
عام انتخابات سے قبل موخر ادارہ سینٹر فار سوسئیٹل ڈیولپمنٹ اسٹڈیز کے ایک جائزہ میں بتایا گیا تھا کہ 19صوبوں میں مودی مخالف لہر چل رہی ہے۔ اس سے ایک سال قبل 21اسمبلی اور لوک سبھا کی سیٹوں کے جو ضمنی انتخابات ہوئےان میں بی جے پی کو محض دو نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔
ہندو انتہا پسندوں کے گڑھ یعنی اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کی سیٹ گھورکھپورسے بھی بی جے پی انتخابات ہار گئی تھی۔ اس کے علاوہ پارٹی راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ صوبے گنوا چکی تھی اور مودی کی آبائی ریاست گجرات میں تو کانگریس نے کانٹے کی ٹکر دی تھی۔ ایک اور ادارے ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک رائٹس کی ایک سروے میں بتایا گیا تھا کہ صرف 3.6فیصد ووٹر دہشت گردی یا پاکستان کو کوئی ایشو مانتے ہیں۔
اکثریت نے معاشی صورت حال، نوکریوں کی فراہمی کو انتخابات کے اہم ایشو قرار دیا تھا۔ مگر گودی میڈیا کے ذریعے پلوامہ اور بالا کوٹ کے واقعات کو لےکر ایک جنگی جنون طاری کردیا گیا۔ نوکریا ں اور معاشی صورت حال پیچھے چلی گئیں۔
ووٹروں کو بتایا گیا کہ پاکستان اور کشمیریوں کو سبق سکھانے کے لیے ایک سخت شبیہ والے حکمران کی ضرورت ہے۔ ان حملوں کے فوراً بعد ہندوستان کی ایما ء پر امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جیش محمد کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کروانے پر ایک قرار داد پیش کی، جس کومنظور کیا گیا۔
پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار مزید نیچے کی گئی۔ پلوامہ حملوں کے بعد تو امریکی قومی سلامتی مشیر جان بولٹن نے تو یہ تک کہہ دیا کہ اپنے دفاع کی خاطر اور جوابی کاروائی کے لیے اگر ہندوستان بارڈر کراس کرتا ہے، تو وہ اس کی حمایت کرےگا۔
یہ ماضی کی اس پا لیسی کے بالکل برعکس تھا، جب ایسے مواقع پر امریکہ کشیدگی کو ہو ا دینے کے بجائے کم کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ ہاں، جب پاکستان نے جوابی کارروائی کرکے ادھم پور میں موجود آرمی کی شمالی کمانڈ کے بالکل پیچھے بم گرائے اور ہندوستان کا طیارہ گرا کر اس کے پائلٹ ابھی نندن ورتھمان کو گرفتار کیا، تو امریکہ نے مداخلت کرواکے اس کو فوراً رہا کرواکے انتخابات سے قبل مودی پر بن رہے شدید دباؤ کوکم کروانے میں مدد دی۔
بتایا جاتا ہے کہ ہندوستان نے امریکہ کو خبر دار کیا تھا کہ ابھی نندن کی مسلسل نظربندی کی صورت میں، وہ پاکستان میں چند اہداف پر میزائل داغنے والا ہے اور اس کے لیےاسٹریٹجک فورسز کی کمانڈ کو احکامات بھی دیے گئے تھے۔
انسانی سانحہ کو موقع میں تبدیل کرنے کا فن وزیر اعظم مودی کے لیے نیا نہیں ہے۔ 2002میں پہلی بار بطور وزیر اعلیٰ گجرات میں اسمبلی انتخابات کا سامنا کرنے سے قبل جب دو نامعلوم افراد نے سوامی نارائن فرقہ کی عبادت گاہ اکشر دھام پر احمد آباد میں دھاوا بول کر 32 افراد کو ہلاک کیا، تو انہوں نے انتخابی مہم میں اس کا بھر پور استعمال کرکے پوری ریاست پر ایک جنون طا ری کرکے اس کے لیے پاکستان کے اس وقت کے صدر پرویز مشرف کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا کس نے اور کس کی ایما پر یہ حملہ کیا گیا تھا۔ جب ہر طرف سے اس کیس کی تفتیش کے حوالے سے لعن و طعن ہو رہی تھی تو گجرات پولیس کی کرائم برانچ نے ایک سال بعد جمعیت علما ء ہند کے ایک سرکردہ کارکن مفتی عبدا لقیوم منصوری اور دیگر پانچ افراد کو گرفتار کرکے اس کیس کو حل کرنے کا دعویٰ کیا۔
ان کو نچلی عدالت نے موت کی سزا بھی سنائی جس کو گجرات ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ مگر 2014 میں سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کو رد کرکے 11 سال بعد سبھی افراد کو باعزت بری کرنے کے احکامات صادر کیے۔مفتی صاحب نے اپنی کتاب میں دردناک واقعات کی تفصیل دی ہے کہ کس طرح ان کو اکشر دھام مندر کے دہشت گردانہ واقعہ میں فریم کیا گیا۔
سخت جسمانی اور روحانی تشدد کے بعد ان کو بتایا گیا کہ وہ باہمی مشورہ اور بات چیت سے اس واقعہ میں اپنا کردار طے کریں بلکہ مختلف مقدمات میں سے انتخاب کا بھی حق دیا گیا، کہ وہ گو دھرا ٹرین سانحہ، سابق ریاستی وزیر داخلہ ہرین پانڈیا کے قتل، یا اکشر دھام میں سے کسی ایک کیس کا انتخاب کریں، جس میں انہیں فریم کیا جائے۔
نہ ہی نچلی عدالت اور نہ ہی ہائی کورٹ نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ جب خود پولیس کے بقول حملہ آوروں کی لاشیں خون اور کیچڑ میں لت پت تھیں اور ان کے بدن گولیوں سے چھلنی تھے اور ان حملہ آور وں کے جسموں میں 46 گولیوں کے نشانات تھے، تووہ خطوط کیونکر صاف و شفاف تھے، جو ان حملہ آورں کی جیبوں سے برآمد ہو گئے تھےاور جن کے بقول مفتی صاحب اس حملہ کے ماسٹر مائنڈ تھے۔۔ مفتی صاحب کے بقول ان سے یہ خطوط تین دن تک پولیس کسٹڈی میں لکھوائے گئے تھے۔
اسی طرح 2001 میں پارلیامنٹ حملہ کے ملزم افضل گورو نے کورٹ کو بتایا کہ حملہ کرنے والے چار افراد کو وہ پولیس کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ دیوندر سنگھ کے حکم پر دہلی لے کر آیا تھا۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ سنگھ کو سمن بھیجے جاتے اور اس کو تفتیش میں شامل کیا جاتا۔ مگر عدالت نے گورو کابیان اس حد تک ریکارڈ کیا کہ وہ ان حملہ آوروں کو سوپور سے ٹرک میں دہلی لے آیا مگر بعد کا بیان حذف کرکے اس کو موت کی سزا سنائی۔
دیوندر سنگھ کا نام نہ صرف 2001 میں ہندوستانی پارلیامان پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ میں آیا تھا بلکہ جولائی 2005 میں دہلی سے متصل گڑ گاؤں میں دہلی پولیس نے ایک ا نکاونٹر کے بعد چار افراد کو گرفتار کیا تھا۔ ان کے پاس ایک پستول اور ایک وائر لیس سیٹ برآمد ہوا۔
گرفتار شدہ افراد نے دہلی پولیس کو ایک خط دکھایا، جو جموں و کشمیر سی آئی ڈی محکمہ میں ڈی ایس پی دیوندر سنگھ نے لکھا تھا، جس میں متعلقہ سیکورٹی ایجنسیوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ ان افراد کو ہتھیار اور وائر لیس کے ساتھ گزرنے کے لیے محفوظ راہداری دی جائے۔ دہلی پولیس نے سرینگر جاکر دیوندر سنگھ سے اس خط کی تصدیق مانگی اور ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ بھی مارا، جہاں سے انہوں نے اے کے رائفل اور ایمونیشن برآمد کیا۔ یہ سب دہلی کی ایک عدالت میں دائر چارج شیٹ میں درج ہے۔
اسی طرح 1995 میں جنوبی کشمیر میں مغربی ممالک کے پانچ سیاحوں کو جب ایک غیر معروف تنظیم الفاران نے اغوا کیا، تو ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کو ان کے ٹھکانوں کے بارے میں پوری معلومات تھی۔ خفیہ ایجنسیوں کے طیارے مسلسل ان کی تصویریں لے رہے تھے۔ مگر ان کو ہدایت تھی کہ سیاحوں کو چھڑانے کا کوئی آپریشن نہ کیا جائے بلکہ اس کو طول دیا جائے۔
بعد میں ان سیاحوں کو ہندوستانی آرمی کی راشٹریہ رائفلز نے اپنی تحویل میں لے لیا۔مگر بازیابی کا اعلان کرنے کے بجائے ان کو موت کی نیند سلایا دیاگیا۔ مقصد تھا کہ مغربی ممالک تحریک آزادی کشمیر کو دہشت گردی سے منسلک کرکے اس کی حمایت سے ہاتھ کھینچیں اور جتنی دیر سیاح مبینہ عسکریت پسندوں کے قبضہ میں رہیں گے پاکستانی مندوبین کے لیے مغربی ممالک میں جواب دینا اتنا ہی مشکل ہو جائےگا۔
اس واقعہ کے ایک سال قبل ہی مغربی ممالک انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے ہندوستان پر اقتصادی پابندیا ں عائد کرنے پر غور کر رہے تھے۔یہ واقعہ واقعی کشمیر کی جدوجہد میں ایک تاریخی موڑ ثابت ہوا۔ دسمبر 1999 میں انڈین ایئرلائنز کے طیارہ IC 814 کے اغوا کے معاملے میں خفیہ ایجنسی کے ایک افسر نے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو دہشت گردوں کے مطالبات تسلیم کرنے کے بجائے مسافروں سے بھرے طیارے کو اڑا دینے کا مشورہ دیا تھا تاکہ پاکستان کو مکمل طور پر بدنام کیا جائے۔
سال2008 کے ممبئی حملوں سے قبل بھی ہندوستانی حکام کے پاس اس قدر خفیہ معلومات تھیں کہ ان سے دو ماہ قبل جب ممبئی پولیس کے ایک افسر وشواس ناگرے پا ٹل نے شہر کے فیشن ایبل علاقے کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کا چارج سنبھالا تو ان کی نظر اس خفیہ فائل پر پڑی جس میں نہ صرف حملوں کا ذکر تھا بلکہ اس کے طریقہ کار پر بھی معلومات بھی درج تھیں۔ان اطلاعات کا ماخذ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے تھی۔
اسی طرح لشکر طیبہ کے مبینہ ٹریننگ کیمپ میں موجود آئی بی کے ایک مخبر کی طرف سے بھیجی گئی پل پل کی اطلاعات موجود تھیں جن میں حملے کے لئے تاج ہوٹل کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس افسر نے فوراً تاج ہوٹل کی انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ وہ معقول حفاظتی انتظامات کا بندوبست کریں۔ستمبر 2008 ء میں اسلام آبادکے میریٹ ہوٹل میں دھماکہ اور اکتوبر میں دوبارہ اسی طرح کی خفیہ معلومات ملنے کے بعد پاٹل نے تاج ہوٹل کی سکیورٹی کے ساتھ گھنٹوں کی ریہرسل کی،کئی دروازے بند کروائے اور اس کے ٹاور کے پاس سکیورٹی پکٹ قائم کی۔
ان انتظامات کے بعد پاٹل چھٹی پر چلے گئے۔اس دوران تاج ہوٹل سے حفاظتی بندشیں اورسکیورٹی پکٹ ہٹوادی گئی۔ بتایا گیا حفاظتی اہلکاروں نے دوران ڈیوٹی کھانا مانگنا شروع کردیاتھا۔ اس حملہ کے ماسٹر مائنڈ یا ابو جندل کے بارے میں صوبہ مہاراشٹر میں ضلع بیہڑ کے رہنے والے بتاتے ہیں کہ وہ پولیس ہیڈکوارٹر میں بطورالیکٹریشن اورمقامی مخبرکام کرتا تھا۔انسداد دہشت گردی سیل کے سربراہ کے پی رگھونشی جب ایک بار بیہڑ کے دورے پر تھے، اس کو اپنے ساتھ لے گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ 2006ء میں اسی صوبے کے شہر اورنگ آباد میں اسلحے کے ایک بڑے ذخیرے کو پکڑوانے میں انصاری نے کلیدی کردار ادا کیا تھاجس کے بعد وہ لاپتہ ہوگیا۔2008 میں جن سم کارڈ نمبروں سے وہ تاج ہوٹل میں موجود حملہ آوروں گفتگو کررہا تھا یا ان کو ہدایت دے رہا تھا، بعد میں تفتیش میں معلوم ہوا کہ وہ جموں و کشمیر پولیس کی خفیہ ونگ نے خریدے تھے۔ یہ سم کیسے حملہ آورں کے پاس تھے ہنوز معمہ ہے۔
ممبئی حملوں کی خفیہ اطلاعات کے باوجود ہندوستان کی سکیورٹی انتظامیہ کی لاپروائی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب نیشنل سکیورٹی گارڈز (این ایس جی) نے دہلی سے متصل ہریانہ میں اپنے ہیڈکوارٹرسے حملوں کے بیس منٹ بعد ہی نقل و حرکت شروع کی تو کابینہ سیکرٹری اور بعد میں وزارت داخلہ کے ایک جوائنٹ سکریٹری نے فون کرکے انہیں متنبہ کیا کہ وہ احکامات کے بغیرنقل و حرکت کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔
اس تنبیہ کے ستر منٹ بعد وزارت داخلہ نے انہیں بتایا کہ صوبائی وزیراعلیٰ نے این ایس جی کی مدد مانگی ہے اس لئے وہ فوراً ممبئی روانہ ہوجائیں مگر ائیر پورٹ جاکر معلوم ہوا کہ ہندوستانی فضائیہ کا ٹرانسپورٹ طیارہ ابھی کئی سو کلومیٹر دور چندی گڑھ میں ہے۔ کمانڈو یونٹ کے سربراہ جیوتی دتہ نے را ء سے ان کا خصوصی طیارہ مانگا تو پتہ چلا کہ اس کا عملہ غائب ہے اور جہاز میں ایندھن بھی نہیں ہے۔
آدھی رات کے بعد جب دستہ طیارے میں سوار ہوا توان کو بتایا گیا کہ وزارت داخلہ کے چند افسر بھی ان کے ہمراہ جارہے ہیں اس لیے ان کا انتظار کیا جائے۔ بالآخر جب طیارہ اگلے دن صبح ممبئی پہنچا تو افسرکو لینے کے لئے چمچاتی اور لال بتی والی گاڑیاں موجود تھیں مگر کمانڈو دستوں کو لے جانے کے لئے کوئی ٹرانسپورٹ نہیں تھی۔
ان واقعات کو ہندوستان نے عالمی فورمز پر اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے اور پاکستان کو کٹہرے میں کھڑ ا کرنے کے لیے بھر پور استعمال کیا۔
وقت آگیا ہے کہ پلوامہ، پارلیامنٹ، ممبئی اور اکشر دھام حملوں کی طرف توجہ مبذول کرکے ان کی غیر جانبدارانہ تفتیش کا مطالبہ کیا جائے اور معلوم کیا جائے کہ اتنی معلومات ہوتے ہوئے بھی پیش بندی کیوں نہیں کی گئی۔ آخر معصوم افراد کو دہشت گردی کی خوراک کس نے بننے دیا اور اس سے کیا سیاسی فوائد حاصل کئے گئے؟ لاشوں کے سوداگروں کے نقاب اتارکر ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا وقت بھی آگیا ہے۔