سپریم کورٹ نے جیل مینوئل میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق کو غیر آئینی قرار دیا

عدالت دی وائر کی صحافی سکنیا شانتا کی جانب سے دائر ایک پی آئی ایل کی سماعت کر رہی تھی، جس میں انہوں نے اپنی پڑتال کی بنیاد پر بتایا ہے کہ کئی ریاستوں کے جیل مینوئل جیلوں میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، دراصل جیلوں کے اندر کام تفویض کیے جانے میں امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔

عدالت دی وائر کی صحافی سکنیا شانتا کی جانب سے دائر ایک پی آئی ایل کی سماعت کر رہی تھی، جس میں انہوں نے اپنی پڑتال کی بنیاد پر بتایا ہے کہ کئی ریاستوں کے جیل مینوئل جیلوں میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، دراصل جیلوں کے اندر کام تفویض کیے جانے میں امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔

(السٹریشن:پری پلب چکرورتی/دی  وائر)

(السٹریشن:پری پلب چکرورتی/دی  وائر)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات (3 اکتوبر) کو جیل مینوئل میں ذات پات کی بنیاد پر امتیاز سے متعلق اہتماموں کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو جیل مینوئل میں ترمیم کرنے کی ہدایت دی۔

رپورٹ کے مطابق،چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی  والی بنچ ، جس میں جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا تھے، نےیہ بھی فیصلہ سنایا کہ جیل مینوئل میں عادی مجرموں کا حوالہ غیر آئینی قرار دیا جانا چاہیے اور اگر ریاست کے پاس ایسی کوئی  نظر ثانی شدہ تعریف نہیں ہے، تو  ریاست کو ایک نئی تعریف وضع کرنی چاہیے۔

لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے تمام ریاستوں کو جیل مینوئل میں ضروری تبدیلیاں کرنے کی ہدایت دی ہے۔

معلوم ہو کہ عدالت دی وائر کی صحافی سکنیا شانتا کی جانب سے دائر ایک پی آئی ایل کی سماعت کر رہی تھی، جس میں انہوں نے اپنی پڑتال کی بنیاد پر بتایا ہے کہ کئی ریاستوں کے جیل مینوئل جیلوں میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق  کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، دراصل جیلوں کے اندر کام تفویض کیے جانے میں امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔

فیصلہ پڑھتے ہوئے سی جے آئی  چندرچوڑ نے کہا کہ قیدیوں کے درمیان ذات پات کی تفریق نہیں کی جاسکتی اس سے دشمنی پیدا ہوگی۔

عدالت نے جمعرات کو فیصلے کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے کہا کہ اول تو فوجداری قوانین کو نوآبادیاتی یا نوآبادیاتی فلسفے کی حمایت نہیں کرنی چاہیے اور دوسرا یہ کہ ایک آئینی معاشرے کے قوانین کو شہریوں کے درمیان مساوات اور وقار کو برقرار رکھنا چاہیے۔

سی جے آئی چندرچوڑ نے واضح طور پر کہا، ‘جیل کے قوانین براہ راست امتیازی سلوک کرتے ہیں کیونکہ اونچی ذات کو کھانا بنانے اور پکانے کے لیے کہا جاتا ہے، جبکہ نچلی ذاتوں کو صفائی کا کام کرنے کو کہا جاتا ہے۔ اس میں ذات کے سے متعلق  بالواسطہ حوالہ جات ہیں، مثال کے طور پر ‘مینیل’ اور ‘عادی’ جیسے لفظ گروہوں کے درمیان امتیازی سلوک کرتے ہیں۔

درخواست دائر کرنے والی سکنیا شانتا نے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا، ‘ذات  پات کی تفریق  کو پہلے ہی غیر آئینی قرار دیا جا چکا ہے۔ لیکن 2024 میں بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جیل مینوئل میں لکھا ہے کہ مخصوص ذات کے لوگ مخصوص قسم کے کام کریں گے۔ مثال کے طور پر، دلت قیدیوں کو صفائی جیسے چھوٹے کام کرنے ہوں گے، جبکہ ایک برہمن قیدی کو کھانا پکانا ہوگا۔ جب ہم نےیہ رپورٹ کی  تو راجستھان ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا۔ہم نے محسوس کیا کہ اگر ہمیں اس مسئلے کو قومی سطح پر اٹھانے کی ضرورت ہے، تو ہمیں عدالت کے لیے اس پر کارروائی کرنے کا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ ریاستیں اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیں گی۔’

واضح ہو کہ اس سال جولائی میں چیف جسٹس چندرچوڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی ایک ڈویژن بنچ نے اشارہ دیا تھا کہ وہ وزارت داخلہ کو ہندوستان کی جیلوں میں ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے نمٹنے کے لیے ایک نوڈل افسر کی تعیناتی کو سلسلے میں ہدایت دے گی۔

وزارت داخلہ نے 26 فروری کو ایک ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کے جیل مینوئل میں قیدیوں کو ان کی ذات یا مذہب کی بنیاد پرالگ کرنے یا کام تفویض کرنے کا اہتمام نہ ہو۔

ایڈوائزری میں کہا گیا تھا، ‘تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے استدعا ہے کہ وہ مذکورہ بالا  باتوں پر توجہ دیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے ریاستی جیل مینوئل/جیل ایکٹ میں اس طرح کا  امتیازی سلوک  کرنے والا اہتمام نہیں ہونا چاہیے۔’

اس میں کہا گیا ہے، ‘اگر اس نوع کا کوئی اہتمام موجود ہے، تو مینوئل/ایکٹ سے امتیازی شق میں ترمیم/حذف کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔’

درخواست میں امتیازی اہتماموں پر بھی توجہ مرکوز کی گئی ہے جو خاص طور پر انتہائی پسماندہ ڈینوٹیفائیڈ قبائل کو نشانہ بناتے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ جولائی میں سپریم کورٹ نے ریاستی جیل مینوئل کے کچھ اہتماموں کو پڑھتے ہوئے ان رواجوں کو ‘سب سے زیادہ پریشان کن’ بتایا تھا۔ عدالت نے درخواست پر حتمی فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

رپورٹ میں کیا تھا

بارڈ دی پریزن پروجیکٹ’ سیریز کے حصے کے طور پر پلتجر سینٹر آن کرائسس رپورٹنگ کے ساتھ شراکت میں کی گئی رپورٹ میں سکنیا نے بتایا تھاکہ کس طرح کئی ریاستوں میں جیل کے دستور العمل قیدیوں کے کام کا تعین ان کی ذات کی بنیاد پر کرتے ہیں۔  جیل میں ذات پات کی اذیت اور ذلت  کا سامنا کرنے والے اجئے کمار (بدلا ہوا نام)نے رپورٹر کو بتایا تھا کہ جیل میں سب کچھ ذات پات کی بنیاد پر ہوتا تھا۔

سکنیا اپنی رپورٹ میں لکھتی ہیں،
حقیقت  میں ذات پات کے لحاظ سے کام  کئی ریاستوں کے  جیل کے دستورالعمل میں رائج ہے۔انیسویں صدی کے اواخر میں نوآبادیاتی قوانین میں شاید ہی کوئی ترمیم  ہوئی ہے اور ان دستورالعمل میں ذات کے لحاظ سے کام والے حصہ کو چھوا بھی نہیں گیا ہے۔ حالانکہ، ہر ریاست کاجیل سے متعلق اپنامخصوص دستورالعمل  ہے، لیکن وہ اکثر حصوں میں دی پریزن ایکٹ ،1894 پر مبنی ہیں۔

جیل کے دستورالعمل ہر طرح کے کاموں کا تفصیل سےذکرکرتے  ہیں۔کھانے کی تول سے لےکرہر قیدی کے درجہ  اور ‘حکم عدولی ’کے لیےسزاتک کا ان میں ذکر ہے۔ اجئے کا تجربہ راجستھان کےجیل کےدستورالعمل سے میل کھاتا ہے۔ جیل میں کھانا بنانے اورطبی سہولیات کی دیکھ ریکھ کا کام اشرافیہ کا  مانا جاتا ہے، وہیں جھاڑو لگانے اور صاف صفائی کو سیدھے نچلی ذات کو سونپ دیا جاتا ہے۔

کھانا بنانے کے بارے میں جیل کا دستورالعمل  کہتا ہے:‘کوئی بھی برہمن یا اپنی کمیونٹی سے اشرافیہ  کا کوئی بھی ہندو قیدی باورچی  کے طور پر بحالی کے لیےاہل  ہے۔’

اسی طرح سے اس دستورالعمل  کا ‘امپلائمنٹ، انسٹرکشن اینڈ کنٹرول آف کنوکٹس’کے عنوان والا حصہ 10 کہتا ہے (یہ پریزن ایکٹ قیدی ایکٹ کے آرٹیکل 59 (12)کے تحت دستورالعمل میں بھی مذکور ہے):

‘صفائی اہلکاروں  کا انتخاب ان کے بیچ سے کیا جائےگا، جو اپنی رہائش  کے ضلع کی روایت کے مطابق یا ان کے ذریعےپیشہ کو اپنانے کی وجہ سےصفائی اہلکار(سوئپر)کا کام کرتے ہیں جب وہ  خالی ہوں۔ کوئی بھی دوسرا قیدی رضاکارانہ طور پر یہ کام کر سکتا ہے، لیکن کسی بھی صورت میں ایک شخص جو  پیشہ ور صفائی اہلکار(سوئپر)نہیں ہے، اسے یہ کام کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جائےگا۔’

لیکن یہ ضابطہ‘صفائی اہلکاروں کی کمیونٹی’ کی رضامندی کے سوال پرخاموش  ہے۔