اتر پردیش انتظامیہ نے جے این یو کی اسٹوڈنٹ آفرین فاطمہ کے والد اور ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے رہنما جاوید محمد کے الہ آباد واقع گھر کو بلڈوز چلا کرزمین دوزکر دیا تھا۔ پولیس نے یہ قدم جاوید کو 10 جون کو شہر میں ہوئے احتجاجی مظاہروں کا ‘ماسٹر مائنڈ’ قرار دینے کے بعد اٹھایا تھا۔ مذکورہ مظاہرہ بی جے پی لیڈروں کے پیغمبر اسلام کے بارے میں تبصرے کے بعد ہوا تھا۔
آفرین فاطمہ کے گھر کے باہر سیکورٹی اہلکاروں کی بھاری موجودگی کے درمیان ایک جے سی بی بلڈوزر۔ (فوٹو کریڈٹ: ٹوئٹر/ابو شیزو)
نئی دہلی: جے این یو کی اسٹوڈنٹ اورایکٹوسٹ آفری
ن فاطمہ کے اتر پردیش کے الہ آباد واقع گھر کو پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) کےذریعےگرائے جانے پر کارکنوں، اپوزیشن لیڈروں، صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کے ایک طبقے نے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے اور اس کی مذمت کرتے ہوئے پرامن احتجاج کے ساتھ اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔
گزشتہ سوموار کو اتر پردیش کے مختلف شہروں میں 10 جون کو پیش آئے تشدد کے ملزمان کے مکانات کو مسمار کیے جانے کے خلاف دہلی میں یوپی بھون کے سامنے فرٹینٹی موومنٹ کے ممبروں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔سوموار کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے بھی ایسا ہی ایک مظاہرہ کیا۔
اس سے پہلے 11 جون کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین (جے این یو ایس یو) نے اس کے خلاف جے این یو کیمپس میں دھرنا دیا تھا۔
اتر پردیش کے شہر اٹالہ اور کریلی میں 10 جون کو پتھراؤ اور تشدد کے بعد فاطمہ کے والد اور ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے رہنما جاوید محمد کے الہ آباد کے کریلی واقع
دو منزلہ مکان کو الہ آباد انتظامیہ نے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بلڈوز کر دیا تھا۔
انہدام کے خلاف
الہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی گئی ہے۔ جاوید اس وقت پولیس کی حراست میں ہیں۔
پیغمبر اسلام کے بارے میں بی جے پی کے معطل لیڈر نوپور شرما اور نوین جندل کے بیان کے خلاف الہ آباد میں پیش آئےتشدد کے سلسلے میں اتر پردیش پولیس نے جاوید محمد عرف جاوید پمپ کو 10 دیگر افراد کے ساتھ ‘کلیدی سازش کار’ بتایا ہے۔
جاوید کے وکیل کے کے رائے نے اس سےپہلے مکان کو گرائے جانے کی کارروائی کو
دی وائرسے بات کرتے ہوئے مشکوک بتایاتھا، جو کہ فاطمہ کو نوٹس دینے کے چند گھنٹوں کے اندر کردی گئی، جب کہ ان کا باقی خاندان پولیس کی حراست میں تھا۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے کہا کہ آدتیہ ناتھ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کارول ادا کیا ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق، گجرات میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اویسی نے کہا، یوپی کے وزیر اعلیٰ الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے ہیں۔ وہ کسی کو بھی قصوروار ٹھہرا دیں گے اور ان کے گھر کو گرا دیں گے۔
دریں اثنا، 10 جون کو سہارنپور میں پیش آئےتشدد کے
دو ملزمین کے گھروں کو پولیس نے 11 جون کو بلڈوزر سے مسمار کر دیا تھا۔
سہارنپور کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (سٹی) راجیش کمار نے بتایا تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں فساد پھیلانے والے دو اہم ملزمین مزمل ساکن راحت کالونی 62 فٹا روڈ اور عبدالوقیر ساکن کھٹا کھیڑی کے مکانوں پر میونسپل ٹیم کے ساتھ مل کر بلڈوزر چلایا گیا اور ان کے غیر قانونی تعمیرات کو گرا دیا گیا۔
دوسری جانب کانپور میں پولیس نے
محمد اشتیاق کی جائیداد کو مسمار کردیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اشتیاق کا تعلق ظفر حیات ہاشمی سے تھا جو 3 جون کو کانپور میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے کلیدی لزم تھے۔ متنازعہ جائیداد سوروپ نگر میں واقع تھی، جو کانپور میں پیش آئےتشدد کے مقام سے تین کلومیٹر دور ہے۔
بتادیں کہ اتر پردیش کے کان پورمیں جمعہ 3جون کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی ترجمان نوپور شرما کے پیغمبر اسلام کے بارے میں کیے گئے تبصرے کے خلاف دکان بند کرنے کو لے کر دو فریقوں کے درمیان جھگڑے کے بعد
تشدد کا واقعہ پیش آیا تھا۔
ملزمین کے گھر کے انہدام کے بارے میں کانگریس کے رکن پارلیامنٹ ششی تھرور نے ٹوئٹ کرتے ہوئے قانون کے مناسب عمل کو جمہوریت کے لیے ضروری بتایا اور کہا کہ وہ اس خبر سے حیران ہیں۔
تھرور نے مزید لکھا کہ یہ کس قانون اور عمل کے تحت کیا گیا؟ کیا اتر پردیش نے خود کو آئین ہند سے مستثنیٰ قرار دےدیا ہے؟
ایم پی کارتی چدمبرم نے فاطمہ کے معاملے کی تفصیلات پیش کیے بغیرہیش ٹیگ بلڈوزر کے ساتھ لکھا، ‘ہندوستان کو اپنی ‘بلڈوزر مہم’ کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
وہیں سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے ٹوئٹ کرکے کارروائی پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے ثقافت، مذہب، قانون اور آئین کے خلاف قرار دیا اور تنازع کے بعد نوپور شرما کو دی گئی سیکورٹی پر سوال اٹھایا۔
بتا دیں کہ ایک ہفتہ قبل دہلی پولیس نے بی جے پی کی معطل ترجمان نوپور شرما اور ان کے اہل خانہ کو
سیکورٹی فراہم کی تھی۔ یہ سکیورٹی اس شکایت پر درج ایف آئی آر کے بعدملی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہیں ایک ٹی وی چینل پر پیغمبر اسلام کے خلاف ریمارکس کے بعد جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔
ترنمول کانگریس کی ایم پی مہوا موئترا نے بھی گہرائی میں جائے بغیر قانونی عمل کو نظر انداز کرنے کے خطرات کو اجاگر کیا۔
انہوں نے لکھا، پولیس صرف قانون کو نافذ کرتی ہے، عدالتیں مناسب کارروائی کے بعد سزا کا فیصلہ کرتی ہیں۔
انہوں نے مزید لکھا، یہ ہندوستان اور قانون کی حکمرانی کے لیے بہت خطرناک ہے اگر مدھیہ پردیش میں پولیس بلیڈ سے حملہ کرنے والےملزمین کے گھروں کو عدالت سے سزا سنانے سے پہلے ہی مسمار کر دیتی ہے۔ جنگل راج اس کا جواب نہیں ہو سکتا۔
اپوزیشن لیڈروں کے ردعمل یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کو گھیر رہے ہیں لیکن تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی قیادت میں اس سلسلے میں سڑکوں پر کوئی احتجاج نظر نہیں آرہا ہے۔
سوموارکو بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کی سربراہ مایاوتی نے کئی ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ‘خوف اور دہشت’ کا ماحول پیدا کیا ہے اور اس کارروائی کو غیر منصفانہ اور متعصبانہ قرار دیتے ہوئے عدالت سے اس کا نوٹس لینے کو کہا ۔
انہوں نے مزید لکھا، ‘مسئلے کی جڑ نوپور شرما اور نوین جندل ہیں، جن کی وجہ سے ملک کا وقار متاثر ہوا اور تشدد پھوٹ پڑا۔ حکومت ان کے خلاف کارروائی نہ کرکے قانون کی حکمرانی کا مذاق کیوں اڑا رہی ہے؟ دونوں ملزمین کو ابھی تک جیل نہ بھیجنا انتہائی متعصبانہ اور افسوس ناک ہے۔ ان کی فوری گرفتاری ضروری ہے۔
انہوں نے اگلے ٹوئٹ میں
مدھیہ پردیش میں پی ایم آواس یوجنا کے گھر کے انہدام کا ذکر کرتے ہوئے لکھا، حکومت کی طرف سے قواعد و ضوابط کو نظر انداز کرتے ہوئے عجلت میں بلڈوزر کی تخریبی کارروائیوں میں نہ صرف معصوم خاندان کچلے جا رہے ہیں، بلکہ بے گناہوں کے گھر بھی گرائے جا رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں پی ایم آواس یوجنا کے گھر کو گرانے کا بھی بہت چرچہ ہوا، اتنی زیادتی کیوں؟
سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے قومی میڈیا چینلوں کی جانب سے بلڈوزر کی کارروائی کی کوریج کے انداز پر بھی تنقید کی۔ مثال کے طور پر،سی این این نیوز18 نے بلڈوزر کی کارروائی کی فوٹیج کو ٹکر کے ساتھ چلایا، (یہ) کارروائی وہ بھولیں گےنہیں۔
بہت سے دوسرے لوگوں نے بھی اس طرح کے اقدامات پر سوال اٹھائے اور انہیں فرقہ وارانہ قرار دیا۔
الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس گووند ماتھر نے
انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کی کارروائی مکمل طور پر غیر قانونی ہے۔
انہوں نے کہا تھا، یہ (کارروائی ) مکمل طور پر غیر قانونی ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ ایک لمحے کے لیے یہ مان بھی لیں کہ تعمیر غیر قانونی تھی، حالانکہ کروڑوں ہندوستانی اسی طرح رہ رہے ہیں، پھر بھی آپ کو یہ اجازت نہیں ہے کہ آپ اتوار کے دن ایک گھر کو اس وقت توڑ دیں جب گھر والے حراست میں ہوں۔ یہ کوئی تکنیکی مسئلہ نہیں ہے بلکہ قانون کی حکمرانی پر اٹھنے والا ایک سوال ہے۔
کانگریس کے سابق لیڈر کپل سبل نے کہا کہ قانون سو رہا ہے۔
تاہم، اس دوران اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ
برجیش پاٹھک نے 10 جون کو احتجاج کے دوران تشدد کے تناظر میں سوموار کو کہا تھا کہ ترقیاتی کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کے لیے ریاست میں کوئی جگہ نہیں ہے اور شرپسندوں پربلڈوزر چلتے رہیں گے۔
نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے پاٹھک نے دعویٰ کیا کہ ریاست میں قانون کی حکمرانی ہے اور کسی بھی قسم کی بدامنی اور سماج دشمن عناصر کی سرگرمیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔