پیغمبر اسلام کے بارے میں قابل اعتراض تبصرہ کرنے کے بعدگوشا محل کے ایم ایل اے راجہ سنگھ کوگرفتار کیا گیا تھا۔ بعد میں ایک مقامی عدالت نے انہیں ضمانت دے دی تھی، جس کے خلاف رات بھر شہر کے کئی حصوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ بی جے پی نے انہیں وجہ بتاؤ نوٹس دے کر پارٹی سےسسپنڈ کر دیا ہے۔
نئی دہلی: بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایم ایل اے راجہ سنگھ کے پیغمبر اسلام کے بارے میں مبینہ قابل اعتراض تبصرے کے خلاف رات بھر احتجاجی مظاہرے کے بعد بدھ کی صبح شہر کے کچھ حصوں میں اضافی پولیس فورس تعینات کی گئی۔
اسلام کے خلاف سنگھ کےمبینہ متنازعہ ریمارکس کے معاملے نے اس وقت طول پکڑ لیاجب ان کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے کمیونٹی کے لوگوں نےحیدرآباد میں دھرنادیا۔
اس معاملے میں ایف آئی آر درج ہونے کے بعد سنگھ کو پہلے حراست میں لیا گیا اور پھر انہیں
گرفتار کر لیا گیا تھا۔ تاہم بعد میں ایک مقامی عدالت نے انہیں ضمانت دے دی۔
سنگھ کی رہائی سے ناراض لوگ منگل کی رات سڑکوں پر نکل آئے، جس کے بعد چارمینار علاقہ سمیت شہر کے کئی حصوں میں اضافی پولیس فورس تعینات کی گئی۔
اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس (چارمینار) جی بکشم ریڈی نے بدھ کو کہا، جہاں بھی ضرورت تھی وہاں اضافی فورس تعینات کر دی گئی ہے۔ رات کو مظاہرہ کیا گیا۔ تاہم اب صورتحال پرامن ہے۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ایم ایل اے پرانے شہر کے کئی حصوں میں پہنچے جہاں بڑی تعداد میں مسلم نوجوانوں نے سیاہ جھنڈے لے کر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ پارٹی کے ذرائع نے یہ اطلاع دی۔
معلوم ہو کہ راجہ سنگھ کے خلاف دبیر پورہ پولیس اسٹیشن میں محمد وجیہ الدین سلمان نامی شخص کی طرف سے شکایت درج کرائی گئی ہے، جس میں ان پر پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
پولیس نے بتایا کہ سنگھ کے خلاف کئی تھانوں میں شکایت درج کرائی گئی ہے۔
دبیر پور پولیس اسٹیشن کے انسپکٹر جی کوٹیشور راؤ نے بتایاکہ انہیں سنگھ کے خلاف شکایت ملی ہے، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ بی جے پی ایم ایل اے نے ایک خاص مذہب کے خلاف توہین آمیز تبصرے کیے ہیں۔
راؤ کے مطابق، سنگھ کے خلاف آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت مذہب کی بنیاد پر پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے، جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی کام کرنے، مذہب اور مذہبی عقائد کی توہین کرنے اورکسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی منشا اور اور مجرمانہ طور پردھمکی دینے کے الزا م میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
بی جے پی نے راجہ سنگھ کو پارٹی سےسسپنڈ کیا
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے تلنگانہ کے اپنے ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ کو اسلام کے خلاف کیے گئے ایک متنازعہ تبصرہ کے سلسلے میں منگل کو پارٹی سےسسپنڈ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی پارٹی نے انہیں وجہ بتاؤ نوٹس بھی جاری کیا ہے، جس میں پوچھا گیا کہ کیوں نہ انہیں پارٹی سے نکال دیا جائے۔
بی جے پی کی سنٹرل ڈسپلنری کمیٹی کے سکریٹری اوم پاٹھک کی طرف سے جاری ایک بیان میں سنگھ کو پارٹی سے سسپنڈ کیے جانے کے بارے میں جانکاری دی گئی ہے۔
اس سلسلے میں پاٹھک کی طرف سے سنگھ کو بھیجے گئے نوٹس میں کہا گیا ہے، آپ نے مختلف ایشوز پر پارٹی سے مختلف نقطہ نظر کا اظہار کیا ہے، جو بی جے پی کے آئین کے قاعدہ XXV 10( اے) کی خلاف ورزی ہے۔ مجھے آپ کو مطلع کرنے کی ہدایت دی گئی ہے کہ آگے کی جانچ تک آپ کو پارٹی سے فوری اثر سے معطل اور تمام ذمہ داریوں سےبری کیا جاتا ہے۔
پاٹھک نے سنگھ سے یہ بھی کہا کہ وہ 10 دنوں کے اندر جواب دیں کہ انہیں پارٹی سے کیوں نہ نکالا جائے۔ انہوں نے کہا، آپ کا دستخط شدہ تفصیلی جواب 2 ستمبر 2022 تک مل جانا چاہیے۔
بی جے پی ایم ایل اے نے سوموار کو ایک ویڈیو جاری کیا تھا جس میں اسٹینڈ اپ کامیڈین منور فاروقی اور ایک خاص مذہب پر تنقید کی گئی تھی۔ ویڈیو میں سنگھ کو مبینہ طور پر ایک خاص مذہب کے خلاف کچھ ریمارکس کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ فاروقی نے حال ہی میں شہر میں ایک پروگرام میں پرفارم کیا تھا۔
سنگھ حیدرآباد کے گوشا محل اسمبلی حلقہ سے ایم ایل اے ہیں۔ یہ حیدرآباد لوک سبھا حلقہ کا ایک حصہ ہے۔ ان کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ سنگھ نے اپنے ریمارکس میں کسی خاص مذہب یا مذہبی شخص کا نام نہیں لیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ چند ماہ قبل بی جے پی نے اپنی قومی ترجمان نوپور شرما اور پارٹی کی دہلی یونٹ کے میڈیا انچارج نوین جندل کو پیغمبر اسلام کے خلاف متنازعہ تبصرہ کرنے پر پارٹی سے باہر کا راستہ دکھا دیا تھا۔
ان رہنماؤں کے بیانات کے بعد ہندوستان کے علاوہ بیرون ممالک میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔ کئی اسلامی ممالک نے بھی اس پر اعتراض کیا تھا اور ہندوستان کے ساتھ سفارتی طور پراس معاملے کو اٹھایا تھا تھا۔
اس تنازعہ کے بعد بی جے پی نے ایک سرکاری بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے اور کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کی توہین کو قبول نہیں کرتی۔
اس وقت بی جے پی کے جنرل سکریٹری ارون سنگھ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ بی جے پی ایسے کسی بھی خیال کو قبول نہیں کرتی، جس سے کسی مذہب یا فرقے کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ملک کا آئین بھی ہندوستان کے ہر شہری سے تمام مذاہب کے احترام کی توقع کرتا ہے۔
بی جے پی نے نوپور شرما کے معاملے سے کوئی سبق نہیں سیکھا: اویسی
دریں اثنا، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسد الدین اویسی نے منگل کو بی جے پی ایم ایل اے راجہ سنگھ کو پیغمبر اسلام کے بارے میں ان کے مبینہ ریمارکس کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ بی جے پی نے نوپور شرما کے واقعہ سےکوئی سبق نہیں سیکھا۔
یہاں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے اویسی نے الزام لگایا،اپنی پارٹی کے ارکان کوا یسی زبان میں بات کرنے کی اجازت دے کر مسلمانوں کو ذہنی اور جذباتی طور پر ہراساں کرنے کو یقینی بنانا بی جے پی کی سرکاری پالیسی ہے ۔
انہوں نے کہا، ہم پیغمبر اسلام کے بارے میں ایسی زبان کو سڑک چھاپ زبان کہتے ہیں۔ یہ بی جے پی کی دانستہ کوشش ہے اور انہوں نے اپنے ایم ایل اے کو اس زبان میں بات کرنے کی اجازت دی ہے۔ نوپور شرما نے جو کچھ کیا اس سے انہوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہ نوپور شرما کی کہی باتوں کا تسلسل ہے۔
انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ شرما کو ان کے ریمارکس کے لیے اب تک گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟
اویسی نے الزام لگایا کہ یہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت کا تسلسل ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش ہے کہ اقلیتیں ہمیشہ خطرے میں رہیں اور ان کے اندرعدم تحفظ کا احساس گامزن رہے۔
اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ نے سوال کیا کہ بی جے پی حیدرآباد اور تلنگانہ میں امن وامان سے کیوں خوش نہیں ہے؟
انہوں نے کہا، آپ اپنی سیاسی جنگ لڑو… آپ لوگوں میں اختلافات پیدا نہیں کر سکتے۔ اگر آپ میں ہمت ہے تو کے سی آر (چندر شیکھر راؤ) اور اویسی سے سیاسی طور پر مقابلہ کیجیے۔
اویسی نے کہا کہ سوموار کی رات 12.30 بجے سے لے کرمنگل کی صبح 6.30 بجے تک اے آئی ایم آئی ایم کا ہر کارکن شہر کی سڑکوں پر تھا اور راجہ سنگھ کے تبصروں سے ناراض لوگوں کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس بات کو یقینی بنارہا تھا کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
انہوں نے بی جے پی ایم ایل اے کے خلاف بروقت کارروائی کرنے کے لیے ٹی آر ایس حکومت کا شکریہ ادا کیا۔
بی جے پی ایم ایل اے راجہ سنگھ کا تنازعات سے پرانا رشتہ رہا ہے اور وہ اکثر ایک خاص مذہب کے خلاف شدت پسند رویہ اختیار کرتے ہوئے نظر آتے رہے ہیں۔
جون میں ان کے خلاف اجمیر کے خواجہ معین الدین چشتی کے مزار کے بارے میں اشتعال انگیز تبصرے کرنے پر
مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
سال 2020 میں فیس بک نےہیٹ اسپیچ کی وجہ سے ان کے اکاؤنٹ پر پابندی لگا دی تھی۔ اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات میں وہ ووٹرز کو یوگی آدتیہ ناتھ کے حق میں ووٹ دینے کی دھمکی دیتے نظر آئے تھے۔ ماب لنچنگ،گئو رکشا، رام مندر وغیرہ جیسے ایشوز پر انہیں وقتاً فوقتاً قابل اعتراض تبصرہ کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)