بی جے پی کی آٹھ سالہ حکومت نے ایک بڑی آبادی ایسی پیدا کی ہے جو مانتی ہے کہ پارٹی لیڈر کے بگڑے بول کی وجہ سے ہوئی بین الاقوامی شرمندگی کے لیے پارٹی کے ‘شعلہ بیاں مقرر’ ذمہ دار نہیں ہیں، بلکہ وہ لوگ ذمہ دار ہیں جو اس موضوع پر اتنی دیر تک چرچہ کر تے رہے کہ بات ہندوستان سے باہر پہنچ گئی۔
پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز تبصرہ کرنے کی وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے دو بڑے اور اہم رہنماؤں کے خلاف کارروائی کر چکی ہے۔ لیکن یہ جملہ صحیح نہیں ہے۔
اس کو اس طرح لکھا جانا چاہیے کہ ؛ پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز تبصرے کے چند دن بعد قطر کی جانب سے ہندوستانی حکومت پر سخت اعتراض اور دیگر خلیجی ممالک کی ناراضگی کے اندیشے کےپیش نظر بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے دو بڑے لیڈروں کے خلاف کارروائی کی۔
ان دونوں جملوں میں نمایاں فرق ہے۔ یہ بات بھارتیہ جنتا پارٹی کے پیروکاروں کو معلوم ہے۔ اسی لیے وہ اپنے اُن لیڈروں سے ناراض نہیں ہیں جنہوں نے پیغمبر اسلام کے بارے میں نازیبا تبصرےکیے، بلکہ وہ ان خلیجی ممالک سے ناراض ہیں،جن کو خوش کرنے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کو اپنے ان لیڈروں کی قربانی دینی پڑی جو اس کی پالیسیوں اور طرز عمل کے سب سے مؤثر ترجمان کے طور پر ابھر رہے تھے۔
ان کو اس بات کی شرمندگی نہیں ہے کہ ہندوستان کو بین الاقوامی دنیا میں ذلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یکے بعد دیگرے ممالک، جو سائز میں ہم سے چھوٹے ہیں اور جو سیکولر نہیں ہیں لیکن جن کے ساتھ ہمارے ہمیشہ دوستانہ تعلقات رہے ہیں، وہ ہندوستان کی سرزنش کر رہے ہیں۔
وہ ان حالات کو پیدا کرنے والوں سے خفا ہیں۔ اس کے لیے وہ اپنے ان لیڈروں کو ذمہ دار نہیں سمجھتے، جن کی لفاظی اور بدزبانی سے یہ صورتحال پیدا ہوئی۔ وہ ہندوستان کے ان لوگوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں جنہوں نے ان لیڈروں کی بداعمالیوں کو ایشو بنایا اور اس پر اتنی دیر تک بحث کرتے رہے کہ بات ہندوستان سے باہر پہنچ گئی۔
گھرکی بات گھر میں نہ رکھ کر باہر لے جانے کے لیے وہ ان صحافیوں،بالخصوص آلٹ نیوز کے محمد زبیر کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں–جنہوں نے ان بی جے پی لیڈروں کے اس بیان کی طرف ہم سب کی اور حکومت ہند کی توجہ مبذول کرائی۔ اسی لیے مسلسل محمد زبیر کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
یہ خیال صرف ان کا ہو، ایسا نہیں ہے۔ خود حکومت ہند بھی یہ بات اپنے سفیروں کے توسط سےکہہ رہی ہے۔ قطر کی سرزنش کے بعد دیے گئے ایک بیان میں وہاں کے ہندوستانی سفیر نے کہا کہ قطر اور ہندوستان کے تعلقات کو خراب کرنے کے لیے کچھ ‘مفاد پرست’ لوگوں کو اکسا رہے ہیں۔
اس کا مطلب یہی ہوا کہ مسئلہ کچھ نہیں ہے، کچھ لوگ ہیں جو جان بوجھ کر اس معاملے کو لے کر ہنگامہ برپا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ اصل مجرم ہیں۔ یہی بی جے پی کے حامیوں کی سمجھ ہے۔
اس ردعمل کوہم کم کرکے نہ دیکھیں۔ بی جے پی کے حامیوں کا یہ طبقہ، اور یہ کوئی چھوٹا طبقہ نہیں ہے، اس بات سے فکرمند نہیں ہے کہ اگر ان خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہوں گے تو ہندوستان کی معیشت کو کتنا نقصان پہنچے گا۔ ان کو اس بات کی مطلق پرواہ نہیں کہ اگر یہ ممالک ہمارے ساتھ کاروبار بند کر دیں تو یہاں کس طرح کی بدحالی پیدا ہو گی۔
بلکہ یہ آپشن تجویز کیا جا رہا ہے کہ ہندوستان کی معیشت پر یہاں کے 20 کروڑ مسلمان بوجھ ہیں اور اگر ہم ان سے چھٹکارا پا لیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر ہم ان کو اناج اور گوشت ایکسپورٹ نہ کریں تو ان کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔
یہ سب کچھ ہمیں احمقانہ لگ سکتا ہے، لیکن بی جے پی کے 8 سالہ اقتدار نے ایک بڑی آبادی پیدا کی ہے جو ان چیزوں کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔
آخر کار اس کے لیڈروں نے اپنے لوگوں کو یہ ماننے پر مجبور کر ہی دیا تھا کہ روسی صدر نے نریندر مودی کے کہنے پر چند گھنٹوں کے لیے جنگ روک دی تھی تاکہ ہندوستانی یوکرین سے نکل جائیں۔ یہ جھوٹ تھا۔ خود ہندوستان کی وزارت خارجہ نے بتایا کہ یہ جھوٹ ہے، لیکن کچھ عرصہ پہلے تک بی جے پی کے بڑے لیڈر یہی کہتے رہے۔
ہندوستان کے بہت سے لوگ یہ بھی مانتے ہیں کہ نریندر مودی دنیا کے سب سے طاقتور لیڈر ہیں۔ حال ہی میں کشمیری پنڈتوں کے احتجاج میں ایک شخص یہی کہہ کر اپنی حفاظت کی فریاد کر رہا تھا۔ ایسے لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ پوتن ہوں یا بائیڈن، وہ مودی سے پوچھ کر اپنے فیصلے لیتے ہیں۔
یہ ذہن کس قسم کاہے؟ وہ کھیتی سے متعلق قوانین کو غلط نہیں سمجھتا، ان کی مخالفت کو غلط سمجھتا ہے۔ حکومت نے ان قوانین کو واپس لے لیا، اس کے بعد بھی وہ ان پر الزام نہیں لگاتا بلکہ مظاہرین کو ہی قصوروار مانتا ہے کہ انہوں نے ایسا تعطل پیدا کردیا کہ مودی کو اپنا درست فیصلہ واپس لینا پڑا۔ اس لیے وہ احتجاج کرنے والے کسانوں سے ناراض ہیں۔
وہ شہریت قانون کو غلط نہیں سمجھتے، اس کی مخالفت کو جرم سمجھتے ہیں۔ وہ کشمیری پنڈتوں سے ناراض ہیں کہ وہ حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔
ابھی جو کچھ ہو رہا ہے اسے دیکھ کر 2002 کا گجرات یاد آنا فطری ہے۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ کی نگرانی میں جو تشدد کے واقعات پیش آئے ،اس کے خلاف پوری دنیا میں گجرات حکومت کی شدید تنقید ہوئی تھی۔ شاید اسی وجہ سے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے بھی کھلے عام نریندر مودی کو راج دھرم پر چلنے کا مشورہ دیا تھا۔
یہ تقریباً وہی قدم تھا جو اب بی جے پی نے اپنے لیڈروں کو معطل کرکے اٹھایا ہے۔ لیکن نریندر مودی نے اپنی تنقید کو گجرات کی تنقید میں بدل دیا۔ اس تنقید کو گجرات کے فخر پر حملہ قرار دیا گیا۔
اس کے بعد اس فخر کو بحال کرنے کے لیے گجرات گورو یاترا کا انعقاد کیا گیا، جس کے ذریعے گجرات کے ہندوؤں میں اس تشدد کو لے کر ایک قسم کی ڈھٹائی پیدا کر دی گئی۔ وہ یہ کہ جو کیا گیا وہ جائز تھا۔ ان پر تنقید کرنے والے گجراتی سماج کے دشمن ہیں۔ یہ سمجھ بنائی گئی۔
بی جے پی رہنماؤں نے کہا کہ واجپائی نے دنیا کو دکھانے کے لیے کچھ کہہ دیا تھا، قصوروار وہ ہیں جن کی وجہ سے انہیں ایسا کہنا پڑا۔
جو اس وقت گجرات کا فکری محاورہ تھا، وہ اب کافی حد تک وسیع ہو چکا ہے۔ اس سماجی ڈھانچے کے کچھ دوسرے پہلوؤں پر بھی توجہ دینےکی ضرورت ہے۔ بھلے ہی بی جے پی نے اپنےان حد سے زیادہ بے باک لیڈروں کو برطرف کر دیا ہو، بی جے پی کے لوگ یہ نہیں مانتے کہ انہوں نے کچھ غلط کہا تھا۔ یہ کہنا ان کا حق ہے، یہ بھی وہ مانتے ہیں۔
بی جے پی کے کچھ زیادہ پڑھے لکھے لوگ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اس طرح کی بحث بند ہونے سے مسلمانوں کے اندر اپنے مذہب کی انتہا پسندی پر غور کرنے کا موقع ختم ہو جائے گا۔ایسا کہنے سے روکنا ہی غلط ہے، یہ بہت سے لوگ مانتے ہیں۔
یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ مسلم معاشرے کی اصلاح کر رہے ہیں۔ وہ اس مذہب کو تنگ نظر سمجھتے ہیں، پیغمبر صاحب کے بارے میں ان کے خیالات وہی ہیں جو بی جے پی لیڈروں نے ظاہر کیے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ قرآن ایک متشدد صحیفہ ہے۔ اس میں ترمیم کرنے کا چیلنج مسلمانوں کو دیتے ہیں۔ وہ خود ہندو مذہب کو دنیا کا عظیم مذہب مانتے ہیں اور اس کا حق خود ہندوؤں کو بھی نہیں دینا چاہتے کہ وہ اس کی تنقیدکریں۔
ایسے لوگوں کی تعداد اپنے آپ نہیں بڑھی ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی کئی تنظیمیں، رام دیو، شری شری، سد گرو جگی واسودیو جیسے کئی ‘سنتوں’ نے بھی ایسے لوگوں کو تیار کیا ہے۔ یہ خود کو لبرل، ترقی پسند اور سیکولر سمجھتے ہیں۔ ان کو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں یا عیسائیوں کی زندگی کو کنٹرول کرکےوہ خود کو سیکولر قرار دیں۔
اس بات کا اندیشہ ہے اور پورا امکان ہے کہ بی جے پی اپنے لوگوں کو اس ذلت کا بدلہ لینے کے لیے تیار کرے گی جس کا اسے اس وقت سامنا کرنا پڑا ہے۔ جو تجربہ 2002 میں گجرات میں کیا گیا تھا اسے پورے ہندوستان میں دہرایا جا سکتا ہے۔
یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ بی جے پی ہندوستان کے مسلمانوں کو اور دبائے لیکن اسلام پر خاموش رہے۔ ان کے خلاف مہم ویسی ہی رہےجیسی ان لیڈروں کے بیان سے پہلے کامیابی سے جاری تھی۔ بی جے پی کے حامیوں کو بتایا جائے کہ سفاک اور پرتشدد ہونے میں کوئی برائی نہیں ہے، اس کے لیے عوامی ہوشیاری کی ضرورت ہے، جیسا کہ ہمارے لیڈر کے پاس ہے۔
کیا ہم سب اس مکار نفرت اور تشدد کے بدلے عقل و شعور، ہم آہنگی اور ایمانداری کے جذبے کی تعمیر کر سکتے ہیں؟
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)