ایک انٹرنیشنل جوائنٹ رپورٹنگ پروجیکٹ نےیہ دکھایا ہے کہ ہندوستان سمیت دنیا بھر کی کئی حکومتیں دہشت کی حد تک سرولانس کے طریقوں کا استعمال اس طرح سے کر رہی ہیں،جس کاقومی سلامتی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
Photo: Bruno/Germany via Pixabay
نئی دہلی: دی وائر اور 16میڈیاپارٹنرس کی ایک تفتیش کے مطابق، اسرائیل کی ایک سرولانس تکنیکی کمپنی کے کئی سرکاروں کے کلائنٹس کی دلچسپی والے ایسے لوگوں کے ہزاروں ٹیلی فون نمبروں کی لیک ہوئی ایک فہرست میں300 مصدقہ ہندوستانی نمبر ہیں، جنہیں وزیروں،اپوزیشن رہنماؤں،صحافیو ں،عدلیہ سے وابستہ لوگوں، کاروباریوں، سرکاری افسروں ، کارکنوں وغیرہ کے ذریعے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
اس پروجیکٹ کے حصہ کےطورپر ان نمبروں سے جڑے فون کے ایک چھوٹے سے حصے پر کی گئی فارنسک جانچ دکھاتی ہے کہ پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے37 فون کو نشانہ بنایا گیا تھا، جن میں سے 10ہندوستانی ہیں۔ فون کا تکنیکی تجزیہ کیے بنافیصلہ کن طور پریہ بتاناممکن نہیں ہے کہ اس پر صرف حملے کی کوشش ہوئی یا کامیابی کے ساتھ اس سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔
دنیا بھر میں پیگاسس کی فروخت کرنے والی اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کا کہنا ہے کہ اس کے کلائنٹ‘مصدقہ سرکاروں’ تک محدود ہیں۔ حالانکہ یہ اپنے کلائنٹ کی پہچان کرنے سے انکار کرتا ہے،لیکن اس کا اس ہفتے دہرایا گیا یہ دعویٰ، اس امکان کو خارج کر دیتا ہے کہ ہندوستان میں یا بیرون ملک کوئی نجی ادارہ اس دراندازی کے لیے ذمہ دار ہو سکتا ہے، جس کی تصدیق د ی وائر اور اس کےآؤٹ لیٹس نے کی ہے۔
لیک ڈیٹابیس پیرس واقع غیرمنافع بخش میڈیاادارےفاربڈین اسٹوریز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ذریعے حاصل کیا گیا اور اسے دی وائر، ل موند، دی گارڈین، واشنگٹن پوسٹ، سڈڈوئیچ زائیٹنگ اور دس دیگر میکسن، عربی اور لبنانی نیوزاداروں کے ساتھ ‘پیگاسس پروجیکٹ’ نام کی ایک مشترکہ تحقیقات کے حصہ کے طور پر ساجھا کیا گیا۔
فہرست میں پہچان کیے گئےنمبروں کا اکثر حصہ جغرافیائی طور پر 10ممالک کے گروپوں ہندوستان، آزربائیجان، بحرین،قزاقستان، میکسکو، مور کو، روانڈا، سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات میں مرکوزتھا۔
یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں واقع ڈیجیٹل سرولانس تحقیقی ادارےسٹیزن لیب، جس نے 2019 میں این ایس اوگروپ کے خلاف وہاٹس ایپ کے قانونی مقدمے کی زمین تیار کی تھی، کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان سبھی ممالک میں2018 میں پیگاسس کے متحرک آپریٹرس تھے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کےتکنیکی لیب کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے، فاربڈین اسٹوریز کے ذریعےمربوط 60 سے زیادہ صحافیوں کی ایک ٹیم نے ان نمبروں والے لوگوں کی پہچان اور تصدیق کرنے کی کوشش کی اور اس کے بعد ان کے ذریعےاستعمال میں لائے جا رہے فون کی، ڈیٹا میں بتائی گئ مدت کے لیے، جو ہندوستان کے معاملے میں2017 کےوسط سے جولائی 2019 تک کے لگ بھگ کا وقت ہے، فارنسک جانچ کرنے کی کوشش کی۔
دی وائر ان ناموں کو اگلے کچھ دنوں میں اپنے معاون میڈیا آؤٹ لیٹس کے ساتھ ایک ایک کرکے اجاگر کرنے جا رہا ہے، جس کی تصدیق یہ مختلف زمروں کے تحت کر پانے میں کامیاب رہا ہے۔
انڈین ٹیلی گراف ایکٹ اور انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ ایسےعمل کومتعین کرتا ہے،جس کا قانوناً نگرانی کے لیےعمل کیا جانا چاہیے۔ الگ الگ ملکوں کے اپنے الگ الگ قانون ہیں،لیکن ہندوستان میں کسی شخص نجی یا سرکاری،کے ذریعے ہیکنگ کرکے کسی سرولانس اسپائی ویئر کا استعمال کرنا آئی ٹی ایکٹ کے تحت ایک جرم ہے۔
نشانہ بنانے کے لیے چنے گئے ناموں میں40 سے زیادہ صحافی ،تین اہم اپوزیشن رہنماؤں، ایک آئینی اتھارٹی، نریندر مودی سرکار میں دو وزیر،سیکیورٹی اداروں کے موجودہ اورسابق سربراہ اور افسر اور بڑی تعداد میں کاروباریوں کے نام شامل ہیں۔
پیگاسس پروجیکٹ کے ڈیٹابیس میں شامل نمبروں میں ایک نمبر سپریم کورٹ جج کے نام پر رجسٹرڈ تھا۔ لیکن دی وائر اس بات کی تصدیق نہیں کر پایا ہے کہ یہ نمبر جو کہ ان جج نے نشانہ بنانے کے لیے چنے جانے سے پہلے ہی چھوڑ دیا تھا، کیا تب بھی ان کے ذریعے وہاٹس ایپ یا کسی دیگر ان کرپٹیڈ میسیجنگ ایپ کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا، جب یہ نمبر چنا گیا تھا۔
جب تک ہم اس کے اصل صارف کی تصدیق نہیں کر لیتے ہیں، تب تک ہم اس جج کا نام شائع نہیں کر رہے ہیں۔
دنیا بھر کے 12سربراہان مملکت یا سرکاروں کے مکھیا کے استثنیٰ کو چھوڑکر دی وائر اور اس کے معاون ان نشانوں کی پہچان بھی اجاگر نہیں کریں گے، جو دہشت گرد مخالف یاملکوں کے بیچ جاسوسی کا معاملہ ہو سکتے ہیں۔
حالانکہ این ایس او گروپ کا کہنا ہے کہ لیک ڈیٹابیس‘سرکاروں کے ذریعے پیگاسس کا استعمال کرتے ہوئے نشانہ بنائے گئے نمبروں کی فہرست نہیں ہے’، اس نے دی وائر اور پیگاسس پروجیکٹ کے معاونین کو اپنے وکیل کے توسط بھیجی گئی چٹھی کے ذریعے بتایا کہ اس کے پاس ‘یہ یقین کرنے کی خاطر خواہ وجہ ہیں’ کہ لیک ڈیٹا ان نمبروں کی ایک بڑی فہرست کا حصہ ہو سکتا ہے، جس کا استعمال ممکنہ این ایس او گروپ کے کلائنٹ کے ذریعے دوسرے مقصدوں کے لیے کیا گیا ہو۔
آگے یہ پوچھے جانے پر کہ یہ‘دوسرے مقصد’کیا ہو سکتے ہیں،کمپنی نے پینترا بدلتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ لیک ریکارڈ‘عوامی طور پر دستیاب، ایچ ایل آر لک اپ سروس جیسےظاہری ماخذ’پر مبنی ہیں اور اس کا پیگاسس یا این ایس او کے کسی دوسرے پروڈکٹ کے کسٹمر ٹارگٹس کی فہرست کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے۔’
ایچ ایل آر لک اپ سروس کا استعمال یہ ٹیسٹ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے کہ دلچسپی والا کوئی نمبرموجودہ وقت میں کسی نیٹ ورک میں ہے یا نہیں اور حالانکہ ان کی بھلے ہی ٹیلی مارکیٹنگ والوں کے لیے کاروباری افادیت ہو، ٹیلی کام سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایچ ایل آر لک اپس ایک اسپائی ویئر پر مبنی سرولانس کا لازمی حصہ ہو سکتے ہیں۔
برلن کے سیکیورٹی ریسرچ لیبس کے چیف سائنٹسٹ کارسٹن نول نے پیگاسس پروجیکٹ کو بتایا کہ ‘ایک ایچ ایل آر لک اپ کو استعمال کرنے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اس سے یہ پتہ چل جائےگا کہ فون چالو ہے’- یعنی ہیکنگ کے لیے دستیاب ہے۔
یہ مانتے ہوئے کہ لیک ہوئے نمبر ایچ ایل آر لک اپ سروس کے آؤٹ پٹ کوپیش کرتے ہیں، جیسا کہ این ایس او کا خود کہنا ہے، یہ بات کہ ماضی میں معلوم طور پر پیگاسس کا استعمال کرنے والے کم از کم 10 سرکاروں سے لیک ہوا ڈیٹا مرتب صورت میں سامنے آیا،یہ اشارہ کرتا ہے کہ یہ سب یا تو ایک ہی سروس پرووائیڈر کے ذریعےنکالے گئے یا انہیں کسی مقصد سے ایک جگہ اکٹھا کرکے رکھا گیا۔
زیرغور معلومات کی حساسیت—بڑی ہستیوں کو ممکنہ ہیکنگ اور سرولانس کے لیے چننے والی سرکاریں بالکل بھی نہیں چاہیں گی کہ ان کے اہداف کی تفصیلات کے بارے میں کسی غیر ملکی سرکار یا نجی ادارے کو جانکاری ہو اس سوال کو مضبوطی دیتی ہے، جو لیک ہوئے ڈیٹابیس اور پیگاسس کے ساتھ اس کے تعلقات کو لےکر این ایس او کی پر زورتردید سے اٹھتی ہے۔
حالانکہ قانون کے ضابطوں سےمقتدرہ ممالک میں اس بات کا امکان ہے کہ ایک بہت بڑے پیمانے کا اور ایک غیرقانونی سرولانس پروگرام کا استعمال جمہوری طریقوں کو کمزور کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے، ایک آزاد عدالتی جانچ کی مانگ کو جنم دینے والا ہے۔