نریندر مودی کواقتدارسنبھالے ساڑھے چھ سال ہو چکے ہیں اور اس دوران وہ لگ بھگ اتنی ہی بار رو چکے ہیں۔ حالانکہ یہ ان کی سیاست ہی طے کرتی ہے کہ ان کے آنسوؤں کو کب بہنا ہے اور کب سوکھ جانا ہے۔
اس ملک میں نرم دل وزرائے اعظم کے جذباتی ہوکر آنکھیں چھلکانے کی روایت پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے وقت سے ہی چلی آتی ہے۔
سال 1962کےجنگ میں چین کے ہاتھوں ملی شکست کے بعد 1963 کے یوم جمہوریہ کے موقع پر راجدھانی دہلی کے رام لیلا میدان میں گلوکارہ لتا منگیشکر نے شاعر پردیپ کا لکھا ‘اے میرے وطن کے لوگو! ذرا آنکھ میں بھر لو پانی’ گایا تو نہرو کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔
اس سے بہت پہلے 30 جنوری1948 کو مہاتما گاندھی کی موت کے بعد کہتے ہیں کہ ان کے جسد خاکی کے پاس ہی نغمہ نگار راجیندر کرشن کا لکھا اور محمد رفیع کا گایا ‘سنو سنو اے دنیا والو، باپو کی یہ امر کہانی’ سن کر بھی وہ خود پر قابو نہیں رکھ پائے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے تھے۔
بعد میں محمد رفیع کو اپنے گھر بلاکر انہوں نے ان سے دوبارہ یہ گیت سنا اور اگلے یوم جمہوریہ کےموقع پر سلور میڈل سے نوازا۔
وشوناتھ پرتاپ سنگھ کے وزارت عظمیٰ کا عرصہ طویل نہیں رہا۔ وہ اس مدت کی پہلی سالگرہ بھی نہیں منا پائے تھے۔ لیکن اس دوران اپنی آبائی ریاست اتر پردیش میں ایک دلت خاتون کے ساتھ ہوئی ہراسانی کے بعد اس کوحوصلہ دینےپہنچے تو وہ بھی اپنی آنکھیں نم کر بیٹھے تھے۔
وزیر اعظم تو وزیر اعظم، کانگریس رہنما ماکھن لال فوتےدار کی خودنوشت کی گواہی مانیں تو چھ دسمبر 1992 کو ایودھیا میں بابری مسجدانہدام کے بعد وہ اس وقت کےصدر ڈاکٹر شنکردیال شرما سے ملنے گئےتو ڈاکٹر شرما بھی بچوں کی طرح رو پڑے اور جذباتی ہوکر ان سے پوچھنے لگے تھے، ‘پی وی(اس وقت کےوزیر اعظم پی وی نرسہماراؤ)نے یہ کیا کرا ڈالا؟’
دراصل وہ اس انہدام سے پانچ مہینے پہلے ہی ملک کے صدربنے تھے اور ان سے یہ انہدام برداشت نہیں ہو رہا تھا۔
ہاں وزرائے اعظم کے اس طرح آنکھیں چھلکانے کی جہاں یہ کہہ کر تعریف کی جاتی رہی ہے کہ اس سے کم سے کم اتنا تو ثابت ہوتا ہی ہے کہ سیاست میں رہ کر بھی وہ کلی طور پر بے رحم یا بے ضمیر نہیں ہوئے ہیں، وہیں اعتراضات بھی کچھ کم نہیں کیے گئے ہیں۔
سال 1963 میں لتا کا گیت سن کر نہرو کی آنکھیں ڈبڈ بانے کی خبر آئی تو ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نے غصے میں ان کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعظم کا کام رونادھونا نہیں، ملک کی قیادت کرنا اور اس کا حوصلہ بڑھانا ہوتا ہے۔
لیکن جیسےمحدودسیاسی مفادات گزشتہ ہفتے کانگریس رہنما غلام نبی آزاد کی راجیہ سبھا سے وداعی کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی کے رو پڑنے کو لےکر نکالے جا رہے ہیں، نہ صرف ان کے مخالفین بلکہ حمایتی میڈیا کے ذریعے بھی، ویسے کسی وزیر اعظم کے آنسوؤں کو لےکر کبھی نہیں نکالے گئے۔
شاید اس لیے کہ تب وزیر اعظم یا صدر کے آنسو اتنے نقلی،مطلب پرست یا گھڑیالی نہیں ہوا کرتے تھے۔
وزیر اعظم اور ان کی جماعتوں کے حمایتی مانے جانے والے ایک ہندی روزنامہ نے لکھا ہے کہ ان کی جذباتیت کا مذکورہ لمحہ سیاسی تصویربھی بدل سکتا ہے کیونکہ انہوں نے غلام نبی کو اپنا ‘سچا متر’بتاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انہیں ریٹائر نہیں ہونے دیں گے۔
کانگریس میں غلام نبی کو‘نظرانداز کرکے حاشیے پر ڈال دیے جانے’ کا ذکر کرتے ہوئے اس روزنامہ نے اشارہ دیا ہے کہ وزیر اعظم انہیں اپنے پالے میں لاکر کشمیر کے حالات کو ٹھیک کرنے میں اپنا معاون بنانے والے ہیں۔غلام نبی نے اس موقع پر جس طرح اپنے ہندوستانی مسلمان ہونے پرمسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ کبھی پاکستان نہیں گئےاس سے بھی اندر اندر کوئی کھچڑی پکنے کے قیاس لگائے جا رہے ہیں۔
اگر یہ مفروضے سچے ہیں تو بلاشبہ وزیر اعظم کے آنسوؤں کے تقدس پر بڑا سوال کھڑا کرتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا تو یہی کہ کیا اب مقتدرہ پارٹی کے حق میں وزیر اعظم کے آنسوؤں کا بھی سیاسی استعمال ہوگا؟ اگر ہاں تو اس کا انجام کیا ہوگا اور اس سے وزیر اعظم کے عہدے کا وقار کتنا بڑھےگا؟
یہ سوال اس طور پر جواب کادعویدار ہے کہ ایک طرف وزیر اعظم غلام نبی کو وداع کرتے ہوئے روتے ہیں اور دوسری جانب کسانوں کی تحریک میں جان گنوانے والوں ایک سو ستر سے زیادہ کسانوں کے لیےرسمی طور پر بھی افسوس کا اظہار نہیں کرتے۔
راہل گاندھی لوک سبھا میں کسانوں کے لیے دو منٹ کی خاموشی اختیار کرکےخراج عقیدت کی تجویز پیش کرتے ہیں تو وزیر اعظم کی پارٹی کے ایم پی شور شرابہ اور ہنگامہ سے اس کا جواب دیتے ہیں۔بلاوجہ نہیں کہ جہاں وزیر اعظم کے آنسوؤں کو لےکر کئی حلقوں میں پوچھا جا رہا ہے کہ یہ رونا ہے یا رلانا، وہیں ان کی ‘بے حد آمرانہ ’ اور ‘سفاکانہ ’طرز حکومت کو لےکر کہا جا رہا ہے کہ وہ ہیں تو وزیر اعظم لیکن سرکار وزیر اعلیٰ کی طرح چلا رہے ہیں۔
کئی جان کار ان کے آنسوؤں کو لےکر دوسری طرح کی باتیں بھی کہتے ہیں۔ مثلاً، انہیں اقتدار سنبھالے ساڑھے چھ سال ہو چکے ہیں اور اس دوران وہ لگ بھگ اتنی ہی بار رو بھی چکے ہیں۔سال2014 میں وہ پارلیامنٹ کے سینٹرل ہال میں لال کرشن اڈوانی پر بولتے بولتے رو پڑے تھےتو اس کے اگلے ہی سال فیس بک کے دفتر میں اپنی ماں کو یاد کرکے۔ 2016 میں نوٹ بندی کے بعد بھی وہ روئے تھے۔
پھر 2020 میں جن دھن یوجنا کےایک مستفید سے بات کرتے ہوئے بھی، جس نے ان کا موازنہ بھگوان سے کر ڈالا تھا۔
کہیں ڈاکٹرلوہیا آج ہوتے تو ان سے پوچھے بنا رہ نہیں پاتے کہ آپ کیسے وزیر اعظم ہیں، جو ذرا ذرا سی بات پر اس طرح رو پڑتے ہیں؟ پھر آپ کی یہ رلائی اس وقت کیوں نہیں پھوٹتی، جب غریب، لاچار و کمزور لوگوں پر آپ کی حکومت کے سفاک فیصلوں کی مار پڑتی ہے؟
کیوں لال کرشن اڈوانی تک کے لیے ان کے آنسو اس قدر گھڑیالی ثابت ہوئے کہ اڈوانی کو ہمیشہ کے لیےسیاسی بنواس پر بھیج دیا گیا؟
نوٹ بندی کے موقع پر جذباتی ہوکر بھی وزیر اعظم اس کے کروڑوں متاثرین کے لیے بےرحم کیوں بنے رہے، جنہیں بینکوں میں جمع اپنے ہی روپیوں کے لیے کئی کئی گھنٹوں لائن میں لگنا، جوجھنا اور جان کا جوکھم اٹھانا پڑا؟ کیا اس لیے کہ انہیں بھروسہ تھا کہ اس کے باوجود وہ ان کے ہپناٹزم کے شکار بنے رہیں گے؟
یہ سوال یہیں ختم نہیں ہوتے۔ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے ایک روزنامہ نے پوچھا ہے کہ وزیر اعظم مہنگائی و بےروزگاری کے ساتھ لاک ڈاؤن ونقل مکانی کی مار بھی جھیلنے والے عام لوگوں کے لیے آنسو کیوں نہیں بہاتے؟
شہریت قانون بناکر اور این آر سی کی تجویز پیش کرکے اقلیتوں کے لیے حالات اور مشکل بنا دینے کے بعد بھی انہیں افسوس کیوں نہیں ہوتا؟ان کے خلاف شاہین باغ سے شروع ہوئی تحریک کے دوران متعدد خواتین پریشانیاں اٹھاکر دھرنے پر بیٹھیں تو ‘بھکتوں’کی جانب سے ان کی توہین کیے جانے کے باوجود وزیر اعظم کے آنسو کیوں نہیں بہے؟
اس کے بعد راجدھانی میں فرقہ وارانہ فسادات میں جان و مال کے بڑے نقصان سے بھی وزیر اعظم کا دل بے چین کیوں نہیں ہوا؟ تجاوز کرنے والی چینی فوج کو روکنے میں ہندوستانی جوانوں کی شہادت پر بھی کسی نے ان کی آنکھیں نم ہوتی کیوں نہیں دیکھیں؟
ملک میں متعددخواتین،یہاں تک کہ بچیوں تک پربہیمانہ جنسی حملے ہوئے، جس میں وزیر اعظم کی پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں پر بھی الزام لگے، ہاتھرس میں ایسے ہی ایک معاملے میں آخری رسوم کی ادائیگی کے وقت بھی متاثرہ کے انسانی وقارکا دھیان نہیں رکھا گیا اور معاملے کو غلط موڑ دےکر اس کو ہی مجرم ثابت کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ وزیر اعظم کی رلائی تب بھی نہیں پھوٹی۔
دوسرے پہلو پر جائیں تو ان کے راج میں ملک کی جمہوریت کا حال یہ ہو گیا ہے کہ اپنے حق کے لیے سڑک پر اتر کر آندولن کرنے والوں سے ہمدردی رکھنے کا رواج ہی جاتا رہا ہے۔انہیں اس قدر کہ بے عزت کیا جاتا ہے اور ان کے حالات پر قہقہے لگائے جاتے ہیں۔ پھر بھی وزیر اعظم کی آنکھیں نم نہیں ہوتیں ۔
سوال پھر وہی کہ انہوں نے اپنے آنسوؤں کو سیاست کی قلابازیوں میں کیوں بدل دیا ہے؟ کیوں ان کی سیاست ہی طے کرتی ہے کہ انہیں کب بہنا ہے اور کب سوکھ جانا ہے؟ کیا کبھی ہمیں اسکا جواب مل پائےگا؟
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)