سیلابی ریلے: آبادی کی ضروریات اور ماحولیات میں توازن

سال 2014کے سیلاب کے بعد وزیراعظم  نریندر مودی نے 80 ہزار کروڑ روپے کے ایک پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت دریائے جہلم اور اس کی معاون ندیوں کی ڈریجنگ اور پشتوں کی مضبوطی کا کام ہونا تھا۔ مگر ایک آرٹی آئی کے مطابق،ایک دہائی کے بعد بھی 31 میں سے صرف 16 منصوبے مکمل ہو پائے ہیں۔یعنی 2014 کے سیلاب سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا گیا ہے۔

سال 2014کے سیلاب کے بعد وزیراعظم  نریندر مودی نے 80 ہزار کروڑ روپے کے ایک پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت دریائے جہلم اور اس کی معاون ندیوں کی ڈریجنگ اور پشتوں کی مضبوطی کا کام ہونا تھا۔ مگر ایک آرٹی آئی کے مطابق،ایک دہائی کے بعد بھی 31 میں سے صرف 16 منصوبے مکمل ہو پائے ہیں۔یعنی 2014 کے سیلاب سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا گیا ہے۔

علامتی تصویر، فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ

شمالی ہندوستان بشمول جموں و کشمیر اور پاکستان کا ایک بڑا حصہ اس وقت سیلاب کی زد میں ہے۔ ہندوستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق، ماہ ستمبر میں بھی 109فیصد زیادہ بارش ہونے کی توقع ہے۔

ہمالیائی خطے اترا کھنڈ اور ہماچل پردیش میں ایک بارپھر شدید بارش زمینی تودے گرنے اور اچانک آنے والے سیلاب کا سبب بن سکتی ہیں۔جس سے شمالی ہندوستان سمیت پاکستان میں بھی عام زندگی بدستور متاثر رہ سکتی ہے۔

سال 2014 میں اسی طرح دریائے جہلم نے قہر کے سیلاب کاروپ دھار کر جنوبی کشمیر اور سرینگر میں تباہی برپا کر دی تھی۔

اس  تباہ کن سیلاب نے 300 سے زائد جانیں لیں تھیں۔اس بار بھی گو کہ جہلم میں پانی کی سطح خطرے کے نشان سے اوپر چلی گئی، مگر اس بار تباہی کا شکار سرینگر کے بجائے جموں تھا۔ توی ندی، جو اکثر خشک رہتی ہے، اس بار طوفان پر ہے۔

جموں میں شدید بارش کے بعد دریائے توی کی سطح آب میں اضافہ ہوا ہے۔ تصویر: پی ٹی آئی

سال  2014کے سیلاب کے بعد وزیراعظم  نریندر مودی نے 80 ہزار کروڑ روپے کے ایک پیکیج کا اعلان کیا تھا۔

اس منصوبے کے تحت دریائے جہلم اور اس کی معاون ندیوں کی ڈریجنگ اور پشتوں کی مضبوطی کا کام ہونا تھا۔ مگر حق اطلاعات کے قانون یعنی آرٹی آئی کا استعمال کرکے حکومت سے جو جواب  موصول ہوا ہے اس کے مطابق ایک دہائی کے بعد بھی 31 میں سے صرف 16 منصوبے مکمل ہو پائے ہیں۔یعنی 2014 کے سیلاب سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا گیا ہے۔

 آر ٹی آئی جواب میں بتایا گیا کہ جہلم یا اس کی نکاسی کی نہروں پر پچھلے پانچ برس میں ایک بھی صفائی یا کھدائی کا کام انجام نہیں دیا گیا۔ کاغذی کارروائیاں ہوئیں، ٹینڈرز جاری ہوئے، لیکن زمین پر حقیقت بدستور جوں کی توں رہی۔

جامع منصوبہ سیلاب انتظام اب بھی کاغذی مرحلوں اور فائلوں میں الجھا ہوا ہے، جبکہ وہ دریا جو کبھی کشمیر کی حیات تھا، آج مٹی اور تجاوزات میں دم توڑ رہا ہے۔

سرکاری بیانیہ’غیر معمولی بارش’ اور ‘ماحولیاتی تبدیلی’ کی تکرار میں پناہ لے رہا ہے۔یہ سچ ہے کہ موسم کی شدت بڑھ رہی ہے، لیکن اصل ناکامی تیاری نہ ہونے کی ہے، جو انسانی، سیاسی اور دانستہ ہے۔سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ہر آفت کے بعد وعدوں اور فراموشی کا چکر دہرا دیا جاتا ہے۔

کمیٹیاں بنتی ہیں، سروے ہوتے ہیں، اور ‘جامع’ اور ‘طویل المدت’ جیسے الفاظ دہرائے جاتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی آسمان صاف ہوتا ہے، ہنگامی جذبہ ختم ہو جاتا ہے، فنڈ سوکھ جاتے ہیں اور ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ اگلی آفت آ دھمکتی ہے۔

دی ویلی آف کشمیر

برطانوی افسر سر والٹرلارنس نے اپنی کتاب دی ویلی آف کشمیر میں لکھا ہے کہ 1893ء میں سری نگر میں سیلاب آیا، تو مہاراجہ پرتاپ سنگھ کی حکومت کی ریاستی انتظامیہ بے خبری کی نیند سوئی رہی۔

اس سانحہ کے ٹھیک 121 برس بعد 2014  میں وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی حکومت میں بھی صورتحال کم و بیش ویسی ہی ہے۔

ستم ظریفی تو یہ تھی کہ بارش شروع ہونے سے صر ف دو روز قبل عمر عبداللہ کی حکومت ریاست کو خشک سالی سے متاثرہ قراردینے کے لیے کابینہ کے لیے ایک نوٹ تیار کررہی تھی۔

سرینگر پہنچنے تک جہلم میں پانی جمع کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے، ہاں اس کے بعد شمالی کشمیر میں داخل ہونے کے بعد یہ وسیع جھیل ولر میں ضم ہو جاتا ہے، جس سے یہ شمالی کشمیر پر زیادہ قہر نہیں ڈھاپاتا ہے۔ جھیل ولر اس کا پانی سمو کر پھر اس کو آب و تاب دیکر سوپور اور بارہمولہ کی طرف روانہ کرکے پاکستان کی طرف رخصت کردیتا ہے۔  چناب میں بھی اسٹوریج کا نظم کافی محدود ہے۔

چونکہ ان دریاؤں کے پانیوں کو پاکستان میں آبپاشی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ غالباً اسی لیے کشمیر میں سیلاب کی مانیٹرنگ کا میکانزم قائم کرنے یا ندیوں سے متعلق کسی دیگر امور میں سینٹرل واٹر کمیشن کو کوئی دلچسپی نہیں لی ہے۔

سال 2014 کے سیلاب  اور ابھی حال ہی میں بھی عمر عبد اللہ نے اس کا اظہار کیا کہ سیلا ب کی کوئی وارننگ نہیں دی گئی تھی۔ خاص طور پر 2004 ء میں تباہ کن سونامی کے بعدسے ساحلی علاقوں میں مانیٹرنگ سسٹم کی تعیناتی سے بڑی حد تک ہندوستان میں سمندری طوفانوں سے انسانی جانوں کو بچانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

اس پیشگی اطلاع کی وجہ سے 2019ء میں مشرقی صوبہ اڑیسہ میں نہایت ہی شدید سمندری طوفان ‘فانی’ سے ایک بڑی آبادی کو بچایا گیا۔

سال 2016 میں چین کے دورہ کے دوران تبت اور اس سے متصل یون نان صوبہ کے دور دراز اور بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان مجھے کئی دیہی بستیوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔

یہ علاقے کتنے دور دراز ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مئی میں بھی کئی علاقوں میں برف باری ہورہی تھی۔

میں نے دیکھا کہ دیہی علاقوں میں بس چند فٹ چوڑے چھوٹے ندی نالوں کے اوپرمخصوص فاصلوں پر لوہے کے بلند کھمبے پیوست ہیں اور ان کے اوپر سولر پینل، کیمرہ اور پرانے زمانے کے ٹی وی کے ایریل جیسے آلات لگے ہوئے ہیں۔

کیمرہ کا لینس پانی کے اوپر فوکس ہے۔ جب میں نے اپنی مترجم شان شون وو، جو بیجنگ سے ہی ہمارے ساتھ تھی، سے اس کے متعلق استفسار کیا، تو مقامی افسران اور آبادی کا معلوم کرنے پر اس نے بتایا کہ ان آلات سے پانی کے بہاؤ کو مانیٹر کیا جاتا ہے اور سینکڑوں میل دور لہاسہ اور کن منگ شہروں میں قائم مانیٹرنگ اسٹیشنوں کو براہ راست اس کا ڈیٹا ہر وقت موصول ہوتا رہتا ہے۔

کسی بھی دور دراز علاقے کے چھوٹے سے چھوٹے نالے میں بھی پانی کے غیر معمولی بہاؤ کو نوٹ کیا جاتا ہے اور نشیبی علاقوں کو اسی وقت متنبہ کیا جاتا ہے اور اس سے قبل کہ یہ کوئی تباہی مچا دے، اسکا تدارک کیا جاتا ہے۔

مزید حیرت ناک پہلو یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سندھ تاس معاہدہ کی معطلی تک وولر بیراج یا ٹولبل آبی پروجیکٹ کے حوالے سے سالہا سال سے بات چیت کے کئی دور ہوئے ہیں، مگر شاید ہی کبھی دونوں ممالک نے اس جھیل کی صحت پر غور و خوض کیا ہو۔

سوپور اور بانڈی پورہ کے قصبوں کے درمیان واقع کئی برس قبل تک یہ ایشیا میں تازہ پانی کی سب سے بڑی جھیل تھی۔ پاکستان کے میدانی علاقو ں کے کسانوں کے لیے یہ ایک طرح کا واٹر بینک ہے۔

ہندوستانی حکومت کی ویٹ لینڈ ڈائریکٹری میں اس جھیل کی پیمائش189 مربع کلومیٹر درج ہے‘ جبکہ سروے آف انڈیا کے نقشے میں اس کا رقبہ58.7 مربع کلومیٹر دکھایا گیا ہے۔سال1911میں جھیل ولر کا رقبہ 217 مربع  کلومیٹر تھا۔ کشمیر کے مالی ریکارڈ میں اس کی پیمائش 130مربع کلومیٹر ہے، جس میں 60 مربع کلومیٹر پر اب نرسریاں یازرعی زمین ہے‘ مگر ایک سابق مرکزی وزیر سیف الدین سوز کے بقول اس کا رقبہ اب صرف 24 مربع کلومیٹر تک محیط رہ گیا ہے۔

سیٹلائٹ تصاویر سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جھیل بڑی حد تک سکڑ گئی اور ہرگزرتے دن کے ساتھ سکڑتی ہی چلی جاتی ہے۔ غیر منصوبہ بند شجرکاری نے جھیل بھی کے رقبہ کوکافی کم کیا ہے اور سرما کے ایام تو یہ اور بھی سکڑ جاتی ہے۔

جھیل وولرایشیاکی سب سے بڑی آبی پناہ گاہ ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ’رام سر‘ سائٹ بھی ہے۔

جھیل کی سطح پرروزانہ دریائے جہلم کے علاوہ نالہ ارن،مدھومتی،اوردیگرندی نالوں سے ہزاروں ٹن مٹی اورگاراجمع ہوتا ہے۔جس نے پہلے ہی جھیل کے77فیصد رقبے کوختم کیا ہے۔جھیل کے25کلومیٹر سے بھی زائد دلدلی رقبے پر حکومت نے سوشل فارسٹری سکیم کے تحت بیدکے درختوں کی ایک نرسری لگائی ہے اورکچھ رقبے کو دھان کے کھیتوں میں تبدیل کیاگیا ہے۔

ہندوستان کے لیے شاید اس کی اتنی اقتصادی اہمیت نہیں ہے، مگر پاکستانی زراعت اور پن بجلی کے لیے اس کی حیثیت شہہ رگ سے بھی زیادہ ہے۔

وولر کے علاوہ بھی پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں کے منبع یعنی کشمیر میں موجود پانی کے ذخائر پچھلے 60 سالوں میں خطرناک حد تک سکڑ چکے ہیں۔

سرینگر کے نواح میں بڑی نمبل، میر گنڈ، شالہ بوگ، ہوکر سر اور شمالی کشمیر میں حئی گام کے پانی کے ذخائر کے بیشتر حصوں پر تجاوزات قائم ہیں۔ سوپور میں تحصیل کے پاس مسلم پیربوگ، جو شہر کے اندر پانی کی ایک جھیل تھی، پر اب شان و بان سے ساتھ ایک شاپنگ مال کھڑا ہے۔ اس قصبہ کی نئی نسل کو اب معلوم ہی نہیں ہوگاکہ وہاں ایک جھیل بھی تھی۔

اننت ناگ: جموں و کشمیر کے اننت ناگ میں بدھ، 27 اگست 2025 کو موسلا دھار بارش کے بعد دریائے جہلم ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

والٹر لارنس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ صرف بارش کی وجہ سے کشمیر میں سیلاب نہیں آسکتا تاوقتیکہ برف نہ پگھلنے لگے۔

اسی لیے شاید  1996ء میں ڈاکٹر نتیش سین گپتا کی سربراہی میں ایک پارلیامانی کمیٹی نے رپورٹ پیش کی تھی۔ مگر سیاسی اسباب کی بنا پر اور مذہبی جذبات کو ہوا دینے کے لیے مرکزی حکومتیں اسے اب تک نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔

سین گپتانے اپنی رپورٹ میں لکھا  تھاکہ اگر خطے کے ماحولیاتی توازن کو درست اور محفوظ رکھنا ہے تو مذہبی یاتراؤں اور سیاحوں کو ریگولیٹ کرنا ہوگا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اتراکھنڈ میں بی جے پی حکومت نے گنگوتری کے سلسلے میں ڈاکٹر سین گپتا کی رپورٹ کو نافذ کردیا ہے اور 2008  میں ہی نوٹیفیکیشن جاری کرکے دریائے گنگا کے منبع گومکھ تک جانے کے لئے یاتریوں کی تعداد یومیہ 150تک محدود کردی۔

اس کے برعکس کشمیر کے پہلگام اور اس کے گلیشیرز کو روز 25,000  سے زائد امر ناتھ جانے والے یاتری روندتے رہتے ہیں۔

حال ہی میں حکومت نے ایک اور روایت قائم کرکے پیر پنچال کے پہاڑوں میں واقع کوثر ناگ کی یاترا کی بھی منظوری دی۔ پہاڑوں میں واقع صاف شفا ف اور آلودگی سے پاک پانی کا یہ چشمہ جنوبی کشمیر میں اہربل کی مشہور آبشار، دریائے ویشو اور ٹونگری کو پانی فراہم کرتا ہے۔ بعض ناعاقبت اندیش کشمیری پنڈتوں کو آلہ کار بنا کر ہندو فرقہ پرست قوتوں نیز حکومت نے امرناتھ یاترا کی طرح کوثر ناگ یاترا چلانے کا اعلان کیا۔

متعدد ممالک نے بھی پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی تعداد کو ریگولیٹ کررکھا ہے۔ ہندوستان کی قومی ماحولیاتی پالیسی میں بھی اس بات کا ذکر ہے کہ پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی تعداد کو ریگولیٹ کیا جائے تاکہ پہاڑی علاقوں کے ماحولیات کو برقرار رکھا جاسکے۔

کشمیر میں حالیہ برسوں میں جو ماحولیاتی تبدیلیاں آئی ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ تقریباََ تمام گلیشیئرز کی اونچائی میں بھاری کمی آگئی ہے۔پچاس سال قبل چناب کے طاس کا تقریباََ8000 مربع کلومیٹر کا علاقہ برف سے ڈھکا رہتا تھا وہ آج گھٹ کر صرف 4000 مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔ پیرپنجال رینج میں تو شاید ہی کوئی گلیشیئر باقی بچا ہے۔

 گلیشیروں کے علاوہ کشمیر میں گھنے جنگلاتی رقبہ بھی37فیصد سے گھٹ کر 11فیصد رہ گیا ہے۔ ایک نیوز ویب سائٹ تھرڈ پول کے مطابق  پہلگام کے علاقے میں گھنے جنگلات کا رقبہ جو 1961میں 191مربع کلومیٹر تھا، 2010میں بس 3.9مربع کلومیٹر ریکارڈ کیا گیا۔ اب تو یہ اور بھی سکڑ گیا ہوگا۔

ماضی میں سری نگر کو تاریخ کے دو بدترین سیلابوں نے 1841ء اور1893ء میں تاخت وتاراج کیا۔ اس وقت کی ڈوگرہ حکومت نے خطرات کو بھانپ کر شہر سرینگر کوسیلابوں سے بچانے کے لئے بند اور فلڈ چینل تعمیر کروائے۔

پرانے شہر کے وسط میں نالہ مار نقل و حمل کا اہم ذریعہ تھا۔آبی چینلوں کے وسیع جال کی وجہ سے ہی سرینگر کو مشرق کا وینس کہا جاتا تھا،مگر یہ وینس اب کنکریٹ اور غیر متوازن پلاننگ کی علامت بن چکا ہے۔

سال 1977ء میں عوامی وزیر اعلیٰ مرحوم شیخ محمد عبداللہ نے اقتدار میں آتے ہی نالہ مار کو پاٹ کر دو رویہ سڑک بنائی، تاکہ سکریٹریٹ سے حضرت بل درگاہ اور ان کے آبائی علاقہ صورہ تک جانے کی صورت میں انہیں پیچ در پیچ راستوں سے گزرنا نہ پڑے۔

شہ پاکر ان کی پارٹی اور دیگر افراد نے بھی سیاسی اثرورسوخ کی بنیاد پر، کہیں رشوتوں اور سفارشوں کے بل پر اور کہیں قوت بازو کے زور پر قبضہ جماکر ان آبی ذخائر اور چینلوں پر فلک بوس کنکریٹ عمارات کھڑی کیں۔

یہی حال پورے جنوبی ایشیاء کا ہے، جہاں آبی ذخائر کی کوئی قدر نہیں ہے

یہ سچ ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کو رہائش کے لیے گھروں کی ضرورت ہے، بس تھوڑی سی پلاننگ کے ساتھ ماحولیات اور آبادی کی ضروریات کا خیال رکھنے سے دونوں میں ایک توازن برقرار رہ سکتا ہے۔ ضرور ت بس اس قدر ہے کہ فیصلہ ساز کرسی پر دور اندیش شخصیت کے ساتھ دردمند دل اور دماغ بیٹھا ہو۔