مرکز کی مودی سرکار کا دعویٰ ہے کہ نئے زرعی قوانین کے ذریعےاے پی ایم سی منڈیوں کے باہر بھی زرعی پیداوار بیچنے اور خریدنے کا سسٹم تیار کیا جائےگا۔ حالانکہ کسانوں اور ماہرین کو اس بات کی فکرہے کہ اگریہ قانون نافذ کیا جاتا ہے تو اے پی ایم سی اور ایم ایس پی کا سسٹم ختم ہو جائےگا۔
نئی دہلی: صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے گزشتہ اتوار کو تین زرعی بلوں کو منظوری دی، جن کی وجہ سے اس وقت ایک سیاسی تنازعہ جاری ہے بالخصوص پنجاب اور ہریانہ کے کسان احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔بلوں کے خلاف پنجاب میں بی جے پی کے تین رہنماؤں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔
بہرحال گزٹ نوٹیفکیشن کےمطابق،صدر نےتین بلوں کومنظوری دی۔یہ بل ہیں زرعی پیداوارتجارت اورکامرس(فروغ اور سہولت)آرڈیننس ، 2020، کسان (امپاورمنٹ اورتحفط) پرائس انشورنس کانٹریکٹ اور زرعی خدمات بل ، 2020 اور ضروری اشیاء/اجناس(ترمیمی) بل ، 2020۔
زرعی پیداوارتجارت اورکامرس(فروغ اور سہولت)آرڈیننس ، 2020 کا مقصدمختلف ریاستی سرکاروں کی جانب سےبنائی گئی اے پی ایم سی کے زیرانتظام منڈیوں کے باہر زرعی پیداوار کی فروخت کی اجازت دینا ہے۔کسان (امپاورمنٹ اورتحفط) پرائس انشورنس کانٹریکٹ اور زرعی خدمات بل ، 2020 کامقصد کانٹریکٹ فارمنگ کی اجازت دینا ہے۔
ضروری اشیاء/اجناس(ترمیمی)بل ، 2020، اناج، دال، آلو،، پیازجیسی اشیائے خوردنی کی پیداوار، فراہمی،ڈسٹری بیوشن کوریگولیٹ کرتا ہے۔ان بلوں کوپارلیامنٹ میں پاس کیےجانے کے طریقے کو لےکراپوزیشن کے اعتراضات کے بیچ صدر نے انہیں منظوری دی ہے۔
Farm Bills Get Presidential Assent pic.twitter.com/1w4Salp6TD
— Live Law (@LiveLawIndia) September 27, 2020
ان بلوں کی مخالفت این ڈی اے کے سب سے پرانے اتحادی شرومنی اکالی دل نے بھی کی ہے اور اس نے خود کو این ڈی اے سے الگ کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ سرکار میں اس پارٹی سے واحد وزیر ہرسمرت کور بادل نے استعفیٰ دے دیا تھا۔
سرکار کا دعویٰ ہے کہ نئے قوانین کے ذریعےاے پی ایم سی منڈیوں کے باہر بھی زرعی پیداوار کی فروخت اور خریدنے کا سسٹم تیار کیا جائےگا۔ حالانکہ کسانوں اور ماہرین کو اس بات کو لےکرفکر ہے کہ اگریہ قانون لاگو کیا جاتا ہے تو اے پی ایم سی اور ایم ایس پی سسٹم ختم ہو جائےگا۔
صدر کی جانب سے ان متنازعہ بلوں کو منظوری دیےجانے کے بعد پنجاب کے تین بی جے پی رہنماؤں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔
ریاست میں بی جے پی کا گڑھ مانے جانے والے فیروزپور ضلع میں بی جے پی رہنما ککر سنگھ کتبے والا، جو پنجاب ببی جے پی کسان مورچہ کے سابق صدر تھے، فیروزپور(دیہی)کے جنرل سکریٹری چرندیپ سنگھ اور فیروزپور(دیہی)کے سابق جنرل سکریٹری انگریز سنگھ منٹو نے استعفیٰ دیا ہے۔
یہ سب لوگ پچھلے 20 سال سے بھی زیادہ سے بی جے پی سے جڑے ہوئے تھے۔ کتبے والا پنجاب بی جے پی کسان مورچہ کے سابق صدر ہیں۔
اپنے استعفیٰ کی تصدیق کرتے ہوئے چرندیپ سنگھ نے انڈین ایکسپریس سے کہا، ‘میں فخر کے ساتھ پارٹی کا جھنڈا لےکر چلتا تھا لیکن اب مجھے پتہ چلا ہے کہ یہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی،سابق مرکزی وزیرسشما سوراج اور سابق ریاستی صدر کمل شرما والی پارٹی نہیں ہے۔ میں ایسی پارٹی میں نہیں رہ سکتا جو کہ کسانوں سے ان کی روٹی چھین لے۔ میں پہلے کسان اوررہنما بعد میں ہوں۔’
حالانکہ ریاست کے بی جے پی کسان مورچہ کے موجودہ صدر بکرم جیت سنگھ چیمہ نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ قانون کسانوں کے حق میں ہیں اور رہنماؤں نے کئی وجہوں سے استعفیٰ دیا ہوگا۔بکرم جیت سنگھ چیمہ نے اخبار کو بتایا، ‘پارٹی میں کبھی کبھی کچھ لوگ ناخوش رہتے ہیں۔ انہوں نے کئی کوجہوں سے استعفیٰ دیا ہوگا۔ میں ان کے استعفیٰ پر تبصرہ نہیں کر سکتا ہوں، لیکن میرا ماننا ہے کہ یہ بل کسانوں کےحق میں ہیں۔’
معلوم ہو کہ ان بلوں کو پارلیامنٹ میں پاس کرانے کے لیے مبینہ طور پرخلاف ورزی کو لےکر مودی سرکار تنقید کے گھیرے میں ہے۔
اپوزیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ راجیہ سبھا میں سرکار اقلیت میں تھی، اس لیے اس بل کے پاس ہونے کاکوئی امکان نہیں تھا۔ لیکن ڈپٹی چیئرمین ہری ونش نارائن سنگھ نے بل پر ووٹنگ کی مانگ کو درکنار کیا اور ایوان کے اندر شور کے بیچ ‘صوتی ووٹ ’ سےبلوں کے پاس ہونے کا اعلان کر دیا۔
رہنماؤں نے کہا ہے کہ ایسا کرنا ہندوستان کی جمہوریت کے لیے سیاہ دن تھا اورمتنازعہ زرعی بلوں کوفوراً واپس لینے کی مانگ کی ہے۔دوسری جانب راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئر مین ہری ونش نارائن سنگھ نے ایک بار پھر اپنا رخ دہرایا کہ 20 ستمبر کو زرعی بلوں کو ضابطہ کے مطابق پاس کرایا گیا تھا اور اپوزیشن کے ذریعے ووٹنگ کی مانگ کو نہیں مانا گیا، کیونکہ ایوان میں ہنگامہ ہونے کی وجہ سےانتظام نہیں تھا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)