گزشتہ 14 دسمبر کے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے رافیل ڈیل سے متعلق دائر سبھی عرضیوں کو خارج کر دیا تھا اور کورٹ کی نگرانی میں جانچ کی مانگ ٹھکرا دی تھی۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے رافیل معاملے میں دائر ریویو پیٹیشن کو لے کر کہا کہ وہ جلد اس کی شنوائی کریں گے۔ اس معاملے میں عرضی گزار اور وکیل پرشانت بھوشن جب جمعرات کو چیف جسٹس رنجن گگوئی کے سامنے اس معاملے کو لے کر آئے تو جسٹس گگوئی نے ان کو بھروسہ دلایا کہ وہ جلد ہی اس کی شنوائی کریں گے۔جسٹس گگوئی نے کہا،’ یہ مشکل ہے کہ میں ابھی کوئی خاص تاریخ متعین کر پاؤں کیونکہ ابھی بنچ کی تشکیل کرنا باقی ہے۔ ہم جلد ہی اس معاملے کو سنیں گے۔’
Advocate @pbhushan1 mentions before CJI Gogoi, the review petition and perjury application in #Rafale case. CJI says it is difficult to give specific date for want of combination of bench that heard Rafale case originally. CJI, however, says he will consider urgent hearing.
— The Leaflet (@TheLeaflet_in) February 21, 2019
2015 کی رافیل ڈیل کی آزادانہ طور پر جانچ کی مانگ کرنے والی اپنی عرضی خارج ہونے کے بعد سابق وزیر ارون شوری اور یشونت سنہا کے ساتھ ساتھ سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے سپریم کورٹ میں ریویو پیٹیشن دائر کر کے فیصلے کا تجزیہ کرنے کی مانگ کی ہے۔ گزشتہ 14 دسمبر کے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے رافیل ڈیل سے متعلق دائر سبھی عرضیوں کو خارج کر دیا تھا اور کورٹ کی نگرانی میں جانچ کی مانگ کو ٹھکرا دیا تھا۔
ریویو عرضی میں کہا گیا ہے کہ کورٹ کے فیصلے میں کئی حقائق غلط ہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ حکومت کے ذریعے ایک سیل بند لفافے میں دی گئی جانکاری پر مبنی ہے جس پر کسی شخص کے دستخط بھی نہیں ہیں۔ عرضی گزاروں نے یہ بھی کہا ہے کہ فیصلہ آنے کے بعد کئی سارے نئے حقائق سامنے آئے ہیں جس کی بنیاد پر معاملے کی تہہ میں جانے کی ضرورت ہے۔
رافیل معاملے میں فیصلہ آنے کے بعد کانگریس ایک (جوائنٹ پارلیامنٹ کمیٹی)جے پی سی جانچ پر زور دے رہی ہے،حالانکہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اس نے رافیل ڈیل کے ساتھ کچھ بھی غلط نہیں پایا۔ چیف جسٹس رنجن گگوئی ، جسٹس سنجے کشن کؤل اور جسٹس کے ایم جوزف کی 3 رکنی بنچ نے یہ فیصلہ دیا۔ کورٹ نے کہا کہ رافیل حصول کے پروسیس کی جانچ عدالت کا معاملہ نہیں ہے۔
چیف جسٹس رنجن گگوئی نے کہا،’کورٹ کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ متعین کی گئی رافیل قیمت کا موازنہ کرے۔ ہم نے معاملے کا مطالعہ کیا، ڈیفنس افسروں کے ساتھ بات چیت کی ، ہم فیصلہ لینے کے پروسیس سے مطمئن ہیں۔‘کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ہم اس فیصلے کی جانچ نہیں کر سکتے کہ 126 رافیل کی جگہ 36 رافیل کی ڈیل کیوں کی گئی۔ ہم حکومت سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ 126 رافیل خریدیں۔
غور طلب ہے کہ ستمبر 2017 میں ہندوستان نے تقریباً 58 ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے 36 رافیل لڑاکو ہوائی جہاز کی خرید کے لیے فرانس کے ساتھ انٹر گورنمنٹ ڈیل پر دستخط کیے تھے۔ اس سے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے 2015 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے پیرس کے سفر کے دوران اس تجویز کا اعلان کیا تھا۔
الزام لگے ہیں کہ سال 2015 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے اس سودے میں کی گئی تبدیلیوں کے لیے ڈھیروں سرکاری اصولوں کو طاق پر بھی رکھا گیا۔ یہ تنازعہ اس سال ستمبر میں تب اور گہرایا جب فرانس کی میڈیا میں ایک خبر آئی، جس میں سابق فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے کہا کہ رافیل ڈیل میں ہندوستانی کمپنی کا انتخاب نئی دہلی کے اشارے پر کیا گیا تھا۔
اولاند نے ‘میڈیا پارٹ‘ نامی ایک فرنچ ویب سائٹ سے کہا تھا کہ حکومت ہند نے 58 ہزار کروڑ روپے کی رافیل ڈیل میں فرانسیسی کمپنی داسو کے ہندوستانی ساجھے دار کے طور پر انل امبانی کی کمپنی ریلائنس ڈیفنس کے نام کی تجویز دی تھی اور اس میں فرانس کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)