سینئر وکیل پرشانت بھوشن کوتوہین عدالت کاقصوروار ٹھہرانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پرسابق مرکزی وزیر ارون شوری نے کہا کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جمہوریت کا یہ ستون اتنا کھوکھلا ہو چکا ہے کہ محض دو ٹوئٹ سے اس کی بنیاد ہل سکتی ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن کو دو ٹوئٹ کی وجہ سے توہین عدالت کا قصوروار ٹھہرائے جانے اور کورٹ کے ذریعے اس کے لیے سزا طے کرنے کی بحث کے بیچ سابق مرکزی وزیر،صحافی اوررائٹر ارون شوری نے کہا ہے کہ اگرسپریم کورٹ کی کسی تبصرے سے توہین ہوتی ہے تو اس کو قانون کے تحت شخص کو اپنی بات ثابت کرنے کا موقع دینا چاہیے کیونکہ سچ ہی دفاع ہے۔
انڈین ایکسپریس کو دیے ایک انٹرویو میں شوری نے کہا کہ اس معاملے میں کورٹ کا فیصلہ دکھاتا ہے کہ جمہوریت کا یہ مرکزی ستون اتنا کھوکھلا ہو چکا ہے کہ محض دو ٹوئٹ اس کی بنیاد کو ہلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔معلوم ہو کہ جب سپریم کورٹ نے بھوشن کے ٹوئٹ کے سلسلے میں ازخود نوٹس لےکر انہیں نوٹس جاری کیا تھا، سینئر صحافی این رام اور پرشانت بھوشن کے ساتھ مل کر شوری نے عرضی دائر کرکے توہین عدالت قانون، 1971 کی دفعہ 2(سی)(آئی) کوچیلنج دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ اظہار رائےکی آزادی اورمساوات کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
حالانکہ بعد میں یہ عرضی واپس لے لی گئی اور سپریم کورٹ نے انہیں اس معاملے کو ہائی کورٹ میں اٹھانے کی چھوٹ دی۔سپریم کورٹ کے پرشانت بھوشن کو توہین عدالت کا قصوروار ٹھہرانے والے فیصلے میں کیے گئے تبصروں کی کئی سابق ججوں، وکیلوں اور ماہرین قانون نے تنقید کی ہے۔
کورٹ نے مانا تھا کہ بھوشن کے ٹوئٹ کی وجہ سے لوگوں کا سپریم کورٹ میں بھروسہ متاثر ہو سکتا ہے اور اس میں اس ادارے کی بنیاد کو ہلانے کی صلاحیت ہے۔اس پر شوری نے کہا، ‘اگرسپریم کورٹ خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتا، تو وہ ہماری حفاظت کیسے کرےگا؟ کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ اس ٹوئٹ کی وجہ سےدوسرے ممالک میں ہندوستان کی امیج خراب ہوگی۔جمہوریت کو لےکرہندوستان کی طرف دیکھا جاتا ہے اور یہ ٹوئٹ جمہوریت کے اس مرکزی ستون کو کمزور کرتے ہیں۔’
عدالت کی جانب سے اس طرح کےتبصروں پرمایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ارون شوری نے طنزیہ لہجے میں کہا کہ اگرکوئی اشتہار کمپنی ٹوئٹر کے لیےاشتہار بنانا چاہتی ہے تو اس سے اچھا کوئی اشتہار نہیں ہوگا کہ ‘آؤ ٹوئٹر سے جڑو، ہمارا پلیٹ فارم اتنا طاقتور ہے کہ اس پر کیا گیا ٹوئٹ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے مرکزی ستون کو ہلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔’
انہوں نے کہا کہ یہ دکھاتا ہے کہ سپریم کورٹ کی بنیاد کتنی کھوکھلی ہو چکی ہے کہ یہ محض دو ٹوئٹ سے ہل سکتی ہے۔
سابق مرکزی وزیر نے کہا کہ بھوشن کے ٹوئٹ نہیں، بلکہ سپریم کورٹ کے تین ججوں کے ذریعے کیے گئے ان تبصروں کی وجہ سے لوگوں کا بھروسہ عدالت میں ختم ہوگا۔ لوگ کہیں گے ‘ارے یار تم سپریم کورٹ کے پاس بھاگ رہے ہو کہ وہ تمہیں بچائیں گے جبکہ وہ خود کہہ رہے ہیں کہ وہ اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ دو چھوٹے سے ٹوئٹ سارے ڈھانچے کو گرا دیں گے۔’
انہوں نے کہا، ‘یہ بات وہی ہوئی جیسا کہ شاعر کلیم عاجز نے کہا ہے؛
ہم کچھ نہیں کہتے ہیں کوئی کچھ نہیں کہتا
تم کیا ہو تمہیں سب سے کہلوائے چلو ہو
ارون شوری نے کہا کہ کورٹ کے فیصلوں کی تنقید اورتجزیہ کرنا توہین نہیں ہے۔ انہوں نے کچھ معاملوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ کورٹ کے کئی ایسے فیصلے ہیں جہاں عدالت نےدلائل کو نظر انداز کرتے ہوئے فیصلہ دیا یا ابھی بھی زیرالتوا ہیں۔انہوں نے کہا کہ جیسا کورٹ نے جج لو یا اور رافیل فیصلے میں لیا، دونوں معاملوں میں اہم شواہد کی طرف سے منھ پھیر لیا گیا۔
بتا دیں کہ سپریم کورٹ نے 14 دسمبر 2018 کو رافیل ڈیل کی کورٹ کی نگرانی میں جانچ کی مانگ والی چارعرضیوں کو خارج کر دیا تھا۔ اس معاملے میں شوری اور بھوشن بھی عرضی گزار تھے۔شوری نے کہا کہ عدالت ہمارے آئین کے مرکز میں واقع بےحداہم معاملوں کشمیر، انکاؤنٹر، سی اےاے وغیرہ کو لگاتار نظر انداز کر رہی ہے۔
غور طلب ہے کہ27 جون کو ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے بھوشن نے پچھلے چھ سالوں میں رسمی ایمرجنسی کے بغیر جمہوریت کی تباہی کے لیے سپریم کورٹ کے آخری چارچیف جسٹس جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس جےایس کھیہر کے رول کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
اس پر ارون شوری نے کہا کہ لوگ کورٹ کے فیصلوں اور ججوں کے کاموں سے متاثر ہوتے ہیں نہ کہ کسی کے دو ٹوئٹ سے۔اگر کورٹ کسی بات سے خود کو بےعزت محسوس کرتا ہے تو اسے شخص کو اپنی بات ثابت کرنے کا موقع دینا چاہیے۔انہوں نے کہا، ‘کیا سچ کو اس ملک میں دفاع کے طور پرقبول نہیں کیا جائےگا، جس کا قومی آئیڈیل جملہ ستیہ میو جیتے ہے؟ جس ملک کے بابائے قوم نے باربار کہا ہے کہ ستیہ ہی بھگوان ہے۔’
ارون شوری نے کہا کہ عدلیہ کی قدر کسی ٹوئٹ نے کم نہیں ہوتی ہے بلکہ اور کئی وجوہات جیسےحقائق کو نظر انداز کرنے، مواخذے جیسے معاملوں کو ڈیل کرنے کی کارروائی ناکافی اورغیرجانبدار نہ ہونے اورسابق چیف جسٹس کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کے سلسلے میں پوری طرح پرائیویسی برتنے سے کورٹ کی قدروعظمت کم ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی کے ٹوئٹ پر اپنا غصہ نکالنے سے اچھا ہے کہ ان کمیوں کو دور کیا جائے۔یاد رکھیں کہ ‘بدعنوانی’ کامطلب صرف پیسہ قبول کرنا نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک اکادمک یا صحافی پیسے کو قبول نہ کرے اور پھر بھی وہ دانشورانہ طور پرکرپٹ ہو سکتا ہے کہ وہ عادتاً دوسروں کے کام کو اپنا بتاکر چھاپتا ہو یا اس سے نقل کرتا ہو۔
شوری نے کہا کہ اس طرح اگر کوئی بدعنوانی کے الزام لگاتا ہے تو اس کا مطلب ہمیشہ یہ نہیں ہوتا کہ وہ پیسے کی بدعنوانی کی بات کر رہا ہے۔
انہوں نے آگے کہا، ‘ایک شخص، ایک جج یا ایک سیاسی رہنماپیسے کے معاملے میں پوری طرح سے ایماندار ہو سکتا ہے، لیکن اخلاقی طور پربدعنوان ہو سکتا ہے، وہ کتابوں میں اعلیٰ قدروں کی خوب پیروی کرتا ہوگا، بنیادی حقوق کے بارے میں خوب بولتا ہوگا لیکن جب اس کونافذ کرنے کی بات ہوتی ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ اس طرح کی بدعنوانی کے متعددمثالیں ہیں۔’
معلوم ہو کہ پرشانت بھوشن کے خلاف ایک اور ہتک کامعاملہ چل رہا ہے، جس میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ بھوشن نے سال 2009 میں تہلکہ میگزین کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پچھلے 16چیف جسٹس میں سے کم سے کم آدھے بدعنوان تھے۔ٹوئٹ والے معاملے میں قصوروار ٹھہرائے جانے کے بعد گزشتہ جمعرات کو سزا پر ہوئے بحث کے دوران بھوشن نے اپنا بیان پیش کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی بنچ سے کہا کہ وہ معافی نہیں مانگیں گے اور نہ ہی ان کے لیے کسی بھی طرح کی رحمدلی کی اپیل کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کورٹ جو بھی سزا دےگا، اس کو وہ قبول کریں گے۔ وہیں اس شنوائی میں اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے عدالت میں پرشانت بھوشن کا ساتھ دیا اور کورٹ سے اپیل کی کہ انہیں کوئی سزا نہ دی جائے۔لیکن کورٹ نے کہا کہ جب تک بھوشن اپنا بیان نہیں بدلتے ہیں، تب تک کورٹ انہیں سزا دینے سے انکار نہیں کر سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کی بنچ نے پرشانت بھوشن کو ان کے بیان پر نظرثانی کرنے کے لیے 2-3 دن کا وقت دیا ہے۔ حالانکہ سینئر وکیل نے کہا کہ انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر اپنا بیان پیش کیا ہے اور اس طرح بےوجہ وقت دینا کورٹ کے وقت کو برباد کرنا ہونا۔