شرد یادو تقریباً چار دہائیوں کے طویل سیاسی دور کے اہم کردار اور گواہ بھی رہے ہیں۔ کاش انہوں نے ایک مربوط خود نوشت لکھی ہوتی تاکہ سیاست کی نئی نسل بالخصوص مساوات، سیکولرازم اور سماجی انصاف کے لیے لڑنے والے نوجوان یہ سیکھتے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔
شرد یادو نہیں رہے ان کی ناگہانی موت انتہائی افسوسناک اور چونکانے والی ہے۔ اپنی طویل علالت سے صحت یاب ہو کر وہ آہستہ آہستہ صحت مند اور سرگرم ہو رہے تھے۔ پچھلے سال، مارچ میں انہوں نے اپنی پارٹی لوک تانترک جنتا دل (ایل جے ڈی) کو بھی راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) میں ضم کر دیا تھا۔
انہوں نے 2018 میں جنتا دل (یو) سے علیحدگی کے بعد یہ پارٹی بنائی تھی۔ لیکن یہ ملکی سیاست میں اپنی کوئی قابل ذکر شناخت نہ بنا سکی۔ شاید اس نئی پارٹی کو شرد جی کی قیادت میں ٹھیک سے کام کرنے کا وقت بھی نہیں ملا۔ اپنی بیماری کی وجہ سے وہ پہلے کی طرح سرگرم بھی نہیں ہوسکتے تھے۔
ان کے قریبی لوگوں کے مطابق وہ نسبتاً صحت مند تھے اور کچھ عرصے سے بہتر محسوس کر رہے تھے۔ اپنے دوستوں اور قریبی ساتھیوں سے ان کا ملنا جلنا بھی جاری تھا۔ اسی دوران کل رات ان کے انتقال کی افسوسناک خبر آئی۔یہ اطلاع ان کی بیٹی سبھاشنی کے فیس بک پوسٹ سے ملی۔
شرد جی کی پیدائش مدھیہ پردیش کے ہوشنگ آباد ضلع میں ہوئی تھی، لیکن ان کا میدان عمل بہار اور دہلی تھا۔ انہوں نے 1974 میں مدھیہ پردیش کے جبل پور سے پہلا الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔تب وہ انجینئرنگ کالج سے نکلےایک نوجوان اسٹوڈنٹ لیڈر تھے۔
‘جے پی کے امیدوار’ کے طور پر ضمنی انتخاب لڑا اور کانگریس امیدوار کو شکست دے کر پہلی بار لوک سبھا میں داخل ہوئے۔ ایمرجنسی کے دوران وہ مسلسل جیل میں رہے۔ شرد جی نے اپنی سیاسی زندگی کا بیشتر حصہ دہلی، بہار اور یوپی میں گزارا۔ 1989 میں وہ یوپی کے بدایوں سے بھی ایم پی بنے۔ اس کے بعد وہ اگلے کئی انتخابات میں بہار کے مدھے پورہ سے ایم پی رہے۔ 1999 کے مدھے پورہ پارلیامانی انتخابات میں لالو پرساد یادو اور شرد یادو آمنے سامنے ہوگئے۔ شرد جی نے قریبی لڑائی میں لالو جی کو شکست دی۔
اپنے بہت سے دوستوں اور ہم عصر رہنماؤں کی طرح شرد جی بھی جے پی تحریک سے نکلے تھے۔ ستر اور اسی کی دہائی میں اس تحریک سے ابھرنے والے رہنماؤں میں، سوشلسٹ-جنتا دل دھارے سے تعلق رکھنے والے چار رہنما نوے کی دہائی میں قومی سیاست کے نئے ستارے بن کر ابھرے۔ ان میں سے تین ٹھیٹ بہاری تھے اور ایک مدھیہ پردیش کے تھے۔ یہ چار لیڈر تھے شرد یادو، رام ولاس پاسوان، لالو پرساد یادو اور نتیش کمار۔
کرپوری ٹھاکر کا فروری 1988 میں انتقال ہو گیا تھا۔ 1990 میں بہار اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو شکست ہوئی تھی۔ حکومت جنتا دل نے بنائی تھی۔ دوسری طرف جنتا دل کی قیادت والی وی پی سنگھ کی حکومت 1989 میں مرکز میں بن چکی تھی۔ وی پی سنگھ رام سندر داس کو بہار کا وزیر اعلیٰ بنانا چاہتے تھے۔ لیکن دیوی لال اور شرد یادو سمیت دیگر رہنما لالو پرساد جیسے نسبتاً نوجوان لیڈر کو قیادت سونپنے کے حق میں تھے۔ بالآخر لالو یادو لیڈر بن گئے اور 10 مارچ 1990 کو انہوں نے پہلی بار بہار کے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لیا۔
لالو یادو کو وزیر اعلیٰ بنانے میں دیوی لال اور شرد یادو جیسے لیڈروں کا اہم رول مانا جاتا ہے۔ تاہم کئی معنوں میں اس میں چندر شیکھر جی کا بھی بہت اہم کردار تھا۔ لیجسلیچر پارٹی لیڈر کے عہدے کے انتخاب میں وی پی سنگھ کے حمایت یافتہ رام سندر داس کو شکست دینے میں بالآخر، چندر شیکھر کی حمایت یافتہ رگھوناتھ جھا کی امیدواری اہم ثابت ہوئی۔
لالو یادو کی حکومت کے قیام کے بعد بہار میں اقتدار میں تین طاقتور لیڈروں کی تثلیث بنی: لالو-شرد-نتیش! اس دور میں وی پی سنگھ حکومت نے منڈل کمیشن کی 40 سفارشات میں سے صرف ایک پسماندہ (او بی سی) ریزرویشن کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے شرد، پاسوان، لالو، نتیش سمیت کئی لیڈروں نے وی پی سنگھ کی ہر طرح سے حمایت کی۔
ادھر، بی ایس پی سربراہ کانشی رام نے بھی اس معاملے پر وی پی سنگھ کی حمایت کی۔ اسی دور میں شرد– لالو جیسے لیڈر دیوی لال کو چھوڑ کر وی پی سنگھ سے جڑ گئے۔ پارٹی کا اندرونی فارمولہ بالکل بدل گیا۔ منڈل کمیشن کی ایک سفارش کے نفاذ کے اعلان سے بدلی سیاست پر آر ایس ایس-بی جے پی کی گہری نظر تھی۔ انہوں نے منڈل کے خلاف ‘کمنڈل’ کا ہتھیار استعمال کیا اور 1992 میں بھگوا بریگیڈ کی قیادت میں ایودھیا کی پرانی بابری مسجد کو منہدم کر دیا گیا۔
کچھ عرصے بعد ‘جنتا دل پریوار’ کا بکھراؤ مزید بڑھ گیا۔ ملائم سنگھ یادو نے 1992 میں ہی جنتا دل سے الگ ہو کر سماج وادی پارٹی بنالی تھی۔ 1994 میں جارج اور نتیش نے مل کر سمتا پارٹی بنالی۔ بعد میں شرد بھی نتیش کمار کے ساتھ آ گئے اور جنتا دل یو ایک بڑا پلیٹ فارم بن گیا۔
شرد اور نتیش طویل عرصے تک ساتھ رہے۔ پھر ان کا ساتھ بھی چھوٹا۔ سماج وادی دھارے کی جنتا دلیوں کے ٹوٹنے، بکھرنے اور جڑنے کی دلچسپ کہانی ہے۔ اس میں جتنی سنسنی اور اسرار ہے، اس سے زیادہ ذاتی عزائم کا تصادم اور نظریاتی سطحی پن!
کانگریس کے زوال اور جنتا دلیوں کے بکھراؤ کے بعد ہندی بولنے والے علاقوں میں بی جے پی کی سماجی بنیاد اور اثرات دونوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ اپنی غلطیوں کی وجہ سےلگاتار ہار تی کانگریس کے ہندو اشرافیہ میں بی جے پی نےاپنے لیے جگہ بنانا شروع کر دی۔ کانگریس کو چھوڑ کر مسلم کمیونٹی بہار میں لالو پرساد یادو کے ساتھ اور یوپی میں ملائم سنگھ یادو کے ساتھ جانے لگی۔ اس طرح کانگریس کے زوال سے خالی ہونے والی جگہ پر بی جے پی نےاپنے ہندوتوا کی بنیاد بنانے تیزی سے قدم بڑھایا۔
طویل عرصے تک شرد یادو، نتیش کمار اور جارج فرنانڈس بی جے پی کے مضبوط حلیف اور اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے اڈوانی کے دور والے این ڈی اے کی مرکزی حکومت میں سینئر وزیر بھی رہے۔ بعد میں شرد اور نتیش بی جے پی اتحاد سے ناراض ہوگئے۔ پھر شرد اور نتیش نے بھی راستے الگ کر لیے۔
وقت کے ساتھ ساتھ گنگا جمنا میں بہت سا پانی بہہ گیا۔ سیاست کا انداز بدل گیا۔ بی جے پی آج ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ یہ سیکولر جمہوری سیاست کے لیے برا وقت ہے۔ بائیں بازو کا مورچہ کمزور ہوچکا ہے اور سماجی انصاف کی تحریک کرنے والوں کا کنبہ بھی بکھر چکا ہے۔ ان کے انتشار کا سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو ہوا ہے۔
شرد جی تقریباً چار دہائیوں کے اس طویل سیاسی دور کے ایک اہم کردار اور گواہ بھی رہے ہیں۔ کاش انہوں نے اپنی ایک مربوط خود نوشت لکھی ہوتی! اس سے سیاست کی نئی نسل، خاص طور پر آج کے نوجوان جو مساوات، سیکولرازم اور سماجی انصاف کے لیے لڑ رہے ہیں، انہیں اس سے بہت کچھ ملتا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے!
شاید، شرد جی اپنی سوانح عمری میں اپنی تنقید کا ایک باب بھی شامل کرتے کہ ان سے کیا سیاسی غلطیاں ہوئیں؟ ایک کٹر سوشلسٹ نے ہندوتوا کی طاقتوں سے ہاتھ کیوں ملایا؟ اس معاملے میں سوشلسٹ رجحان کے جنتا دلیوں میں شاید لالو پرساد یادو واحد رہنما ہیں جو بی جے پی کے ساتھ نہیں گئے!
ایک زمانے میں شرد جی سے پارلیامنٹ ہاؤس میں ملاقات ہوتی رہتی تھی۔سینٹرل ہال میں ساتھ بیٹھ کر کبھی کبھی گپ شپ بھی ہو جاتی تھی۔ کبھی کبھار ان کے بنگلے پر بھی جانا ہوا۔ متحدہ محاذ کے دور میں ان کے دفتر یا گھر پر کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ لیکن میری ان سے کبھی مستقل ملاقات نہیں رہی ۔ اس لیے میں انہیں زیادہ جاننے اور سمجھنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ لیکن جہاں تک میں نے دیکھا اور سمجھا ہے وہ سیاست میں نظریات اور تنظیم دونوں کو اہم سمجھتے تھے۔
پچھلے کچھ سالوں سے وہ بیمار رہے۔ بیماری اور بڑھتی عمر کی وجہ سے شاید وہ ایمانداری، ندامت اور نئی نسل کو ضروری پیغام دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن سیاسی منظر نامے پر ان جیسے تجربہ کار لیڈر کی موجودگی اہم ہوتی۔
اتفاق دیکھیں، پچھلے سال مارچ میں ہی شرد یادو نے اپنی پارٹی کو راشٹریہ جنتا دل میں ضم کر دیا تھا۔ دوسری طرف بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے چند ماہ بعد بی جے پی چھوڑ کر راشٹریہ جنتا دل میں شامل ہو کر بہار میں مہا گٹھ بندھن (جے ڈی یو، آر جے ڈی اور کانگریس وغیرہ) کی حکومت بنائی، جس میں لالو پرساد یادو کے چھوٹے بیٹے تیجسوی یادو نائب وزیر اعلیٰ ہیں۔ یعنی جے پی تحریک سے ابھرنے والے تین پرانے دوست ایک طویل وقفے کے بعد دوبارہ ایک مشترکہ پلیٹ فارم کی طرف بڑھے۔ یہ ایک بڑا واقعہ تھا… اسی لیے ابھی شرد یادو کا ہونا ضروری تھا۔
لیکن وہ گزشتہ شب چلے گئے ۔ شرد جی کوشردھانجلی۔
(ارملیش سینئر صحافی ہیں۔)
(یہ مضمون فیس بک پر شائع ہوا ہے)