دی وائرکی خصوصی رپورٹ: آرٹی آئی کے تحت حاصل کیے گئے خفیہ دستاویز بتاتے ہیں کہ ریزرو بینک نے اپنی رسک اسسمنٹ رپورٹ میں پنجاب نیشنل بینک کی کئی سنگین خامیوں کو اجاگر کیا تھا، لیکن اس میں ان محکمہ جاتی کمیوں کو ٹھیک کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہیرا کاروباریوں میہل چوکسی اور نیرو مودی نے 13000 کروڑ روپے کا گھوٹالہ کیا۔
نئی دہلی:ریزرو بینک آف انڈیا(آر بی آئی)کی جانب سےمالی سال2016-17 کے لیے تیار کیے گئے پنجاب نیشنل بینک(پی این بی) کی خفیہ اسسمنٹ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ نیرو مودی اور میہل چوکسی گھوٹالے سے پہلے یہ سرکاری بینک کئی ساری سنگین خامیوں اور بے ضابطگیوں سے جوجھ رہا تھا، لیکن گھوٹالے کے امکانات کو لےکر کوئی وارننگ نہیں دی گئی تھی۔
دی وائر کےذریعےآر ٹی آئی قانون کےتحت تقریباً دو سال کی مسلسل کوششوں کے بعد پہلی بار حاصل کیے گئے ان حساس دستاویزوں کو آراےآریا رسک اسسمنٹ رپورٹ کہتے ہیں، جسے آر بی آئی کی سپروائزری پروگرام فار اسسمنٹ آف رسک اینڈ کیپٹل(ایس پی اےآرسی)کے تحت تیار کیا جاتا ہے۔
ایس پی اےآرسی کے ذریعے آر بی آئی ملک کے تمام بینکوں کے پورے سال کے کام کاج کی صورتحال،بے ضابطگیوں، کمیوں، گھوٹالوں وغیرہ پر رپورٹ کارڈ تیار کرتا ہے۔ یہ عمل بے حد وسیع ہوتا ہے، جس میں سائٹ پر جاکر اسسمنٹ کرنے کا بھی اہتمام شامل ہے۔اس کے ذریعے بینک کے مختلف حصوں میں موجود کمیوں کا تفصیلی حساب وکتاب تیار کیا جاتا ہے۔ کسی بھی بینک کی حقیقی صورتحال جاننے کے لیے یہ ایک بےحداہم دستاویز ہوتا ہے۔
اس تناظرمیں سال 2017 کی پی این بی کی اسسمنٹ رپورٹ دکھاتی ہے کہ اس دوران بینک میں بے ضابطگیوں اور خلاف ورزیوں کی ایک لمبی چوڑی فہرست تھی، جو چھوٹے معاملوں سے لےکرسنگین مسائل تک جاتی ہے۔
مثال کےطورپر اس میں کہا گیا ہے کہ روزمرہ کے کام کاج میں بینک کی اعلیٰ انتظامیہ کارول‘ناکافی’تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فارن ایکسچینج مینجمنٹ ایکٹ(فیما) کے تحت مالی سال2016-17 کے لیے کیے گئے آڈٹ میں اکثر بے ضابطگیاں وہی ہیں جو کہ اس سے پچھلے سال کے دوران دیکھنے کو ملی تھی، جو یہ دکھاتا ہے کہ بینک میں‘تعمیل کی کمی’ ہے۔
اسسمنٹ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ‘غیر ملکی قرضوں ، این بی ایف سی(نان بینکنگ فنانشل کمپنی)کو دیے گئے قرضوں میں شامل خطرات، کئی سارے بینک کھاتوں کی نوعیت بدلنے’وغیرہ کے معاملوں میں سینئر مینجمنٹ نے ناکافی نگرانی کی تھی۔
خاص طور پر اس میں کہا گیا ہے کہ ‘بینک کی کئی سارے شاخوں میں سنگین فراڈ ہونے کے معاملے’سامنے آئے تھے، لیکن اس کے باوجود پی این بی نے ان شاخوں کو ‘سنگین خطرے’کے زمرے میں نہیں رکھا تھا۔
PNB Inspection Report 2017 by
The Wire
اتنا ہی نہیں، پنجاب نیشنل بینک کئی سارے ایسے کھاتوں کو ایک الگ زمرے(اسپیشل مینشن اکاؤنٹس)کےطورپرلسٹ نہیں کیا تھا، جو کہ آخرکار31 مارچ 2017 تک این پی اے (یعنی پھنسا ہوا قرض )میں تبدیل ہو گئے تھے۔ آر بی آئی کا کہنا ہے کہ اس طرح کا رویہ ‘بینک میں مؤثرکنٹرول میں کمی’ کو دکھاتا ہے۔
اس کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا ہے،‘ایسے کئی معاملے دیکھنے کو ملے جہاں کےوائی سی/اے ایم ایس(نو یور کسٹمر/اینٹی منی لانڈرنگ) میں خامیاں تھیں اور اکاؤنٹ ہولڈر سے جڑی ضروری جانکاری صحیح سے درج نہیں کی جا رہی تھی۔’
کل ملاکر آر بی آئی نے 3107‘موضوعات’پر پی این بی کا معائنہ کیا تھا، جس میں سے 373 معاملوں میں خلاف ورزی کرتے پایا گیا ہے۔ یہ کل معاملوں کے مقابلے 12 فیصدی سے تھوڑا زیادہ ہے۔
نیرو مودی اور میہل چوکسی گھوٹالہ
ان سنگین نتائج کے باوجودآر بی آئی کی رپورٹ میں ان محکمہ جاتی کمیوں کو دور کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا تھا، جس کی وجہ سے اس کے ایک سال بعد 2018 میں پی این بی میں 13000 کروڑ روپے کا گھوٹالہ ہوا تھا۔
اپنے چارج شیٹ میں سی بی آئی نے کہا ہے کہ پی این بی کے 13000 کروڑ روپے کے گھوٹالے میں سے چوکسی نے 7080.86 کروڑ روپے کی اور نیرو مودی نے 6000 کروڑ روپے کی ہیراپھیری کی ہے۔ پی این بی فرضی واڑے کی جانچ سی بی آئی اور ای ڈی کر رہی ہے۔
رپورٹ میں
بینک کی ایس ڈبلیوآئی ایف ٹی سسٹم میں موجود خامیوں کو اجاگر کیا گیا ہے، جس میں خصوصی طور پر اسے بینک کے کور بینکنگ سالیوشن(سی بی ایس)سے نہ جوڑ نے کی کمی کا ذکر کیا گیا ہے۔
ایس ڈبلیوآئی ایف ٹی کا مطلب سوسائٹی فار ورلڈوائیڈ انٹر بینک فنانشیل کمیونی کیشن ہے۔ بینک اس کا استعمال غیرممالک میں پیسے بھیجنے کے لیے کرتے ہیں۔ایس ڈبلیوآئی ایف ٹی ایک میسیجنگ نیٹ ورک ہے، جس کے ذریعےبیرون ملک ادائیگیوں کے لیے ایک بینک سے دوسرے بینک میں پیسے ٹرانسفر کیے جاتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی بینک کی انٹرنل آڈٹنگ ٹیم کی ناقص کارکردگی کو لےکرتشویش کاا ظہارکیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘ناکافی انسانی وسائل، ضروری مہارتوں کی کمی،مقررہ وقت کی پیروی نہ کرنے اور سبکدوش افسروں کے ذریعےاہم چوک کے معاملے میں موزوں ضابطوں/اقدامات کی کمی کی وجہ سےانٹرنل آڈٹنگ کا معیارمتاثرہوا تھا۔’
اس میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ سی بی ایس اور مختلف اہم ایپلی کیشنز کے مابین کوئی ایس ٹی پی(براہ راست پروسیسنگ) کا انضمام نہیں تھا اور سی بی ایس اور کے+ٹی پی(ٹریزری بیک آفس)ایپلی کیشنز‘جڑے نہیں تھے’۔
کور بینکنگ سالیوشن یعنی کہ سی بی ایس ایک سافٹ ویئر پروڈکٹ ہے جو بینک کے سبھی صارفین کو جوڑتا ہے، چاہے ان کی ہوم برانچ کوئی بھی ہو۔ سی بی ایس کا بنیادی مقصدمالی لین دین کی تفصیلات کو سینٹرلائز کرنا اورالگ الگ شاخوں کے صارفین کے کریڈٹ ہسٹری کا ایک گلوبل ڈیٹابیس بنائے رکھنا ہے۔
وہیں
ایس ٹی پی ایک ایسا سسٹم ہے جو مالیاتی وسائل کے لین دین کے اینڈ ٹو اینڈ پروسیسنگ کو خودکار کرتا ہے۔ اس میں مالی لین دین کے کاموں کے سبھی عناصر کوکارروائی یاکنٹرول کرنے کے لیے سنگل سسٹم کا استعمال شامل ہے۔
سال 2018 کی رسک اسسمنٹ رپورٹ واضح طورپر دکھاتی ہے کہ ایسی کئی بڑی خامیاں تھیں جن پر شایدزیادہ توجہ دی جانی چاہیے تھی۔ یہ سب ایک ایسی رپورٹ میں شامل کیا جانا بےحداہم ہے کیونکہ اس رپورٹ کا اہم مقصد بینک کی کمیوں کو دکھانا اور اس کا حل نکالنا ہے۔
کس کی غلطی؟
فروری2018 میں بی جے پی رہنما اور سابق وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے پی این بی گھوٹالے کو لےکر آر بی آئی کوبالواسطہ طور پر نشانہ بنایا تھا۔
انہوں نے کہا تھا، ‘ریگولیٹرز بالآخر کھیل کےاصول طے کرتے ہیں اورریگولیٹرز کے پاس تیسری آنکھ ہونی چاہیے جو ہمیشہ کھلی رہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہندوستانی نظام میں ہم سیاستداں جوابدہ ٹھہرائے جاتے ہیں،ریگولیٹرز نہیں۔’حالانکہ ایسا کہتے ہوئے انہوں نے ہیرا کاروباری نیرو مودی اور میہل چوکسی کے ذریعے کیے گئے فراڈ کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔
اس کے کچھ ہفتوں بعد چیف ویجیلنس کمشنر کےوی چودھری نے بھی سینٹرل بینک کو نشانہ بنایااور کہا کہ گھوٹالے کی مدت کے دوران آر بی آئی کی جانب سے‘کوئی واضح آڈٹ’نہیں کیا گیا تھا۔
اس وقت سینٹرل بینک نے اپنے دفاع میں دلیل دی تھی کہ سرکاری بینکوں کی نگرانی کے لیے ان کے پاس کافی ‘محدود اختیارات’ ہیں۔ آر بی آئی نے کہا تھا کہ انہوں نے اگست 2016 میں ہی تمام بینکوں کو آگاہ کیا تھا کہ ایس ڈبلیوآئی ایف ٹی سسٹم میں کس طرح کے ممکنہ خطرے ہیں۔
ویسے تو اس طرح کے گھوٹالوں کے لیےہندوستانی گورننس سسٹم کو کافی حد تک ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے، لیکن یہ رپورٹ آر بی آئی کے نگرانی سسٹم پر سنگین سوالات کھڑے کرتی ہے۔
اس معاملے پر ردعمل کے لیے دی وائر نے پی این بی کو سوالوں کی فہرست بھیجی ہے۔ حالانکہ ابھی تک ان کا کوئی جواب نہیں آیا ہے۔اگر بینک کوئی جواب فراہم کرتا ہے تو اسے رپورٹ میں شامل کر دیا جائےگا۔
ایسی رپورٹ جاری نہ کرنے کو بینک بنا رہے دباؤ
سپریم کورٹ نے 16دسمبر، 2015 کو اپنے ایک تاریخی فیصلے میں آر بی آئی کی تمام دلیلیں خارج کرتے ہوئے خفیہ اسسمنٹ رپورٹ، ڈفالٹروں کی فہرست،سینٹرل بینک کے وجہ بتاو نوٹس جیسی کئی اہم اطلاعات کوعوامی کرنے کی ہدایت دی تھی۔
جسٹس ایم وائی اقبال اور جسٹس سی نگپن نے
ریزرو بینک آف انڈیا بنام جینتی لال این مستری معاملے کی شنوائی کے دوران سینٹرل انفارمیشن کمیشن(سی آئی سی)کے ان تمام احکامات کو صحیح ٹھہرایا تھا جس میں اس طرح کے دستاویزوں کا انکشاف کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
آر بی آئی نے کہا تھا کہ ڈفالٹرس کے بارے میں جو جانکاری بینکوں کی جانب سےبھیجی جاتی ہے اسے بھروسےمند صلاحیت میں رکھا جاتا ہے اور یہ جانکاری خفیہ ہوتی ہے۔ اس لیے یہ جانکاری آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8(1)(ای)کے تحت نہیں دی جا سکتی ہے۔
اس پر سپریم کورٹ نے کہا تھا، ‘آر بی آئی کو کچھ چنندہ بینکوں کے مفادکی جگہ عوامی مفادکو ترجیح دینا چاہیے۔ بینک کو شفافیت کے ساتھ کام کرنا چاہیے اور ایسی جانکاریوں کو نہیں چھپانا چاہیے جو کسی بینک کے لیےقابل اعتراض ثابت ہو سکتی ہیں۔ آر بی آئی کی یہ دلیل بالکل بے بنیاداور غلط ہے کہ ایسی جانکاریوں کو عوامی کرنے سے ملک کے اقتصادی مفاد پر اثر پڑےگا۔’
اس آرڈر کے بعد بھی آر بی آئی کئی سالوں تک اس طرح کی جانکاری دینے سے
انکار کرتا رہا، جس کی وجہ سےسپریم کورٹ کو جنوری 2019 میں سینٹرل بینک کے خلاف ہتک نوٹس جاری کرنا پڑا تھا۔
بعد میں26 اپریل2019 کو عدالت نے اپنے آرڈر میں آر بی آئی کو وارننگ دی کہ وہ اسے آر ٹی آئی قوانین کے اہتماموں کی پیروی کرنے اور اسسمنٹ رپورٹ، ڈفالٹرس لسٹ جیسی جانکاریوں کو عوامی کرنے کا آخری موقع دے رہی ہے۔ اس کے بعد جاکر ریزرو بینک نے ان معاملوں پر دائر پرانے آر ٹی آئی درخواستوں کوحل کیا تھا۔
حالانکہ اب ایک نئی مشکل آ گئی ہے۔ اب بینک آر بی آئی پر دباؤ بنا رہے ہیں کہ ایسی جانکاریوں کا انکشاف نہ کیا جائے۔ اسے لےکر کئی بینکوں نے سپریم کورٹ میں عرضیاں دائر کی ہیں۔
ا سٹیٹ بینک آف انڈیا، پنجاب نیشنل بینک، کینرا بینک، یونین بینک آف انڈیا اور ایچ ڈایف سی بینک لمٹیڈ نے سال 2015 کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں
چیلنج دیا ہے جس کی وجہ سے ریزرو بینک نے انہیں اہم جانکاریاں اور اطلاعات آر ٹی آئی کے تحت درخواست گزار کودستیاب کرانے کو کہا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 28 اپریل 2021 کو جسٹس ایل ناگیشور راؤ اور جسٹس ونیت شرن کی بنچ نے سال 2015 کے جینتی لال مستری فیصلے کو واپس لینے کی اپیل کو ٹھکرا دیا تھا۔ بنچ نے کہا تھا کہ اس فیصلے کو واپس لینے کی اپیل کرنے والی عرضیاں ٹکنےلائق نہیں ہیں۔
حالانکہ بنچ نے بینکوں کو فیصلے اور ریزرو بینک کی ہدایت کے خلاف سپریم کورٹ میں دوسرے اقدامات کو لےکر اپیل کرنے کی اجازت دی تھی۔
آر بی آئی کےذریعےآر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ11(1)کے تحت جاری نوٹسوں کو لےکر بینک ناخوش ہیں۔ نوٹسوں میں بینکوں سے اپنی اسسمنٹ رپورٹ اور رسک اسسمنٹ سے جڑی جانکاری ساجھا کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس پورے معاملے کی شنوائی جسٹس راؤ کی سربراہی والی بنچ کرےگی۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)