پی ایم او کی جانب سے یہ جواب عدالت میں دائر ان عرضیوں کے سلسلے میں آیا ہے،جن میں پی ایم کیئرس فنڈ کو سرکاری قراردینے کامطالبہ کیا گیا ہے۔
نئی دہلی:پی ایم اونے ایک بار پھر سے اپنی پرانی دلیلوں کو دہراتے ہوئے کہا ہے پی ایم کیئرس فنڈ ‘سرکاری’ نہیں ہے، کیونکہ اس کا پیسہ حکومت کے خزانے میں نہیں جاتا ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، پی ایم او کے انڈرسکریٹری پردیپ کمار شریواستو نے دہلی ہائی کورٹ کو دیےایک جواب میں کہا کہ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 12 کے تحت یہ ٹرسٹ ‘سرکاری’ ہو یا نہ ہو، یا پھر آر ٹی آئی قانون کی دفعہ2(ایچ)کے تحت ‘پبلک اتھارٹی’ ہو یا نہ ہو، لیکن آر ٹی آئی قانون کی دفعہ آٹھ کے ذیلی دفعات(ای اور جے)میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تھرڈ پارٹی سےمتعلق جانکاری نہیں دی جا سکتی ہے۔
پی ایم او کا یہ جواب کورٹ میں دائر ان عرضیوں کے سلسلے میں آیا ہے،جن میں پی ایم کیئرس فنڈ کو سرکاری قراردینے کامطالبہ کیا گیا ہے۔
عرضی گزاروں نے دلیل دی ہے ملک کے شہری اس بات سے ناخوش ہیں کہ وزیر اعظم کے ذریعے بنائے گئے اور پی ایم،وزیر داخلہ ،وزیر خزانہ جیسے لوگوں کی رکنیت والے ٹرسٹ کو لےکریہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس پر سرکار کا کنٹرول نہیں ہے۔
شریواستو نے عدالت کو بتایا کہ وہ ٹرسٹ میں اعزاری طور پر کام کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ٹرسٹ شفافیت کے ساتھ کام کرتا ہے اور اس کے فنڈ کا آڈٹ ایک آڈیٹر کے ذریعے کیا جاتا ہے، جو ہندوستان کے کنٹرولر اور آڈیٹر جنرل آف انڈیا (سی اے جی)کے تیارکردہ پینل سے ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔
افسر نے کہا، ‘شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ٹرسٹ کو ملنے والے پیسےکےاستعمال کی تفصیلات کے ساتھ آڈٹ رپورٹ ٹرسٹ کی ویب سائٹ پر ڈال دی جاتی ہے۔’
اس میں کہا گیا ہے کہ ٹرسٹ کو ملنے والے تمام چندے آن لائن ، چیک یا ڈیمانڈ ڈرافٹ کے ذریعے حاصل ہوئے ہیں۔ اس طرح ملے پیسے کا آڈٹ کیا جاتا ہے اور ٹرسٹ فنڈ کےخرچ کو ویب سائٹ پر درج کیا جاتا ہے۔
سمیک گنگوال کی جانب سے دائر عرضی میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم کے ذریعے مارچ 2020 میں کووڈ 19 مہاماری کے مدنظر شہریوں کی امداد کے لیے پی ایم کیئرس فنڈ بنایا گیا تھا اور اسے بہت زیادہ چندہ ملا تھا۔
حالانکہ ٹرسٹ ڈیڈ کی ایک کاپی پی ایم کیئرس فنڈکی جانب سےدسمبر 2020 میں اپنی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تھی، جس کے مطابق اس کو آئین یا پارلیامنٹ کے بنائے ہوئے کسی قانون کے ذریعہ یا اس کے تحت نہیں بنایا گیا ہے۔
معلوم ہو کہ
آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 2(ایچ) میں پبلک اتھارٹی کی تعریف دی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح کےانسٹی ٹیوٹ اس کے دائرے میں ہیں۔دفعہ2(ایچ)میں ضمنی دفعہ (اے) سے لےکر(ڈی)تک میں بتایا گیا ہے کہ کوئی بھی اتھارٹی یا باڈی یا انسٹی ٹیوٹ جس کی تشکیل آئین ، پارلیامنٹ کے ذریعے بنائے گئے کسی قانون،مجلس قانون سازکے ذریعے بنائے گئے قانون، سرکار کے ذریعے جاری کیے گئے کسی آرڈر یا گزٹ کے تحت کی گئی ہو، اس کو پبلک اتھارٹی مانا جائےگا۔
اس کے علاوہ دفعہ2(ایچ)(ڈی)(آئی) کے مطابق کوئی بھی اتھارٹی جس کی تشکیل سرکاری آرڈریاگزٹ کے ذریعے کی گئی ہو اور یہ یا تو سرکار کی ملکیت میں ہو یا اس کو کنٹرول کیا جاتا ہو یا سرکار کے ذریعےکافی حد تک مالی امداد حاصل ہو، اس کو پبلک اتھارٹی کہا جائےگا۔
دفعہ2(ایچ)(ڈی)(ii)کے تحت وہ غیر سرکاری تنظیم جن کو سرکار براہ راست یا بالواسطہ فنڈ دیتی ہے، اسے پبلک اتھارٹی کہا جائےگا اور ایسے اداروں کو آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت جانکاری دینی ہوگی۔
پی ایم او کی یہ دلیل ہے کہ پی ایم کیئرس فنڈ ان میں سے کسی بھی تعریف کے دائرے میں نہیں آتا ہے۔ مرکزی حکومت کا دعویٰ ہے کہ پی ایم کیئرس ایک چیرٹیبل ٹرسٹ ہے اور سرکار اسے فنڈ نہیں دیتی ہے اور نہ ہی اسے کنٹرول کرتی ہے۔
حالانکہ جانکاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کے اعلیٰ عہدیداران اس فنڈ کے ٹرسٹی ہیں اورمختلف ذرائع سے حکومت کی مشینری کا استعمال کر کےاس فنڈ کو مشتہر کیا جا رہا اور ٹیکس دینے والوں کے پیسے چندہ کے طورپر اس میں دیےجا رہے ہیں، اس لیے یہ صاف ہے کہ حکومت اور حکومت کے لوگ اس کو کنٹرول کر رہے ہیں۔