گرونانک کے یوم پیدائش پر ملک کے نام خطاب میں وزیر اعظم نریندرمودی نے ایک سال سے زیادہ سے تنازعہ میں گھرےتین زرعی قوانین کو واپس لیے جانے کااعلان کرتے ہوئے کہا،‘میں ملک سے معافی مانگتا ہوں کیونکہ لگتا ہے کہ ہماری کوششوں میں کچھ کمی رہ گئی ہے،جس کی وجہ سے ہم کچھ کسانوں کو سچائی سمجھا نہیں سکے۔’
نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ: اسکرین گریب)
نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے پچھلےتقریباً ایک سال سے زیادہ سےتنازعات میں گھرے تین زرعی قوانین کو واپس لیے جانے کااعلان کیا اور کہا کہ اس کے لیےپارلیامنٹ کے آئندہ سیشن میں بل لایا جائےگا۔
تینوں زرعی قوانین کی مخالفت میں کسان مظاہرہ کر رہے تھے۔وزیر اعظم نے (ایم ایس پی سے جڑے مدعوں پر ایک کمیٹی بنانے کا بھی اعلان کیا۔
معلوم ہو کہ کئی کسان تنظیم پچھلے تقریباًایک سال سےتین قوانین – کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کے پاس ہونے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
ان قوانین کی مخالفت پچھلے سال نومبر میں پنجاب سے شروع ہوئی تھی، لیکن بعد میں یہ دہلی، ہریانہ اور اتر پردیش میں پھیل گیا۔ کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں کے رحم پر جینا پڑےگا۔دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل نظام بنا رہے ہیں۔
اب تک کسان یونینوں اور سرکار کے بیچ 11 دور کی بات چیت ہوئی تھیں، لیکن تعطل جاری رہا، کیونکہ دونوں فریق اپنے اپنے رخ پر قائم ہیں۔ 26 جنوری کو یوم جمہوریہ کے لیے کسانوں کی جانب سے نکالے گئے ٹریکٹر پریڈ کے دوران دہلی میں ہوئےتشدد کے بعد سے اب تک کوئی بات چیت نہیں ہو سکی تھی۔
جمعہ کو مدعے پر آنے سے پہلے مودی نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی حکومت نے ہندوستان کے کسانوں کی بھلائی کی ہے اور ان کی مدد کے لیے‘ہرممکن کوشش’ کی ہے۔ اپنی سرکار کی حصولیابیوں کی تعریف میں دس منٹ بتانے کے بعد انہوں نے تین متنازعہ زرعی قوانین کی تعریف کی۔
وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ان کی سرکار تین نئے زرعی قانون کے فائدوں کو کسانوں کے ایک طبقےکو تمام کوششوں کے باوجودسمجھانے میں ناکام رہی۔انہوں نے کہا کہ ان تینوں زرعی قوانین کا مقصد کسانوں بالخصوص چھوٹے کسانوں کا بااختیار بنایا تھا۔
وزیر اعظم نے کہا، ‘ملک کے کونے کونے میں بہت سے کسانوں، کئی کسان تنظیموں نے اس کا استقبال کیا، حمایت کی۔ میں آج ان سبھی کا شکرگزار ہوں۔ ہماری سرکار، کسانوں کے فلاح کے لیے،بالخصوص چھوٹے کسانوں کی فلاح کے لیے،ملک کی زرعی دنیا کےمفاد میں، ملک کے مفادمیں،گاؤں کے غریبوں کے روشن مستقبل کے لیے، پورے خلوص سے، کسانوں کے لیے سپردگی سے، نیک نیت سے یہ قانون لےکر آئی تھی۔ لیکن اتنی مقدس بات بالکل خالص، کسانوں کےمفاد کی بات، ہم اپنی کوششوں کے باوجود کچھ کسانوں کو سمجھا نہیں پائے۔’
انہوں نے کہا کہ ماہرین اقتصادیات نے،سائنسدانوں نے، ترقی پسند کسانوں نے بھی انہیں زرعی قوانین کی اہمیت کو سمجھانے کی بھرپور کوشش کی۔ ‘آج میں آپ کو، پورے ملک کو، یہ بتانے آیا ہوں کہ ہم نے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا فیصلہ لیا ہے۔اس مہینے کے آخرمیں شروع ہونے جا رہے پارلیامانی سیشن میں، ہم ان تینوں زرعی قوانین کو رد کرنے کےآئینی عمل کو پورا کر دیں گے۔’
انہوں نے کہا،‘میں ملک سے معافی مانگتا ہوں کیونکہ لگتا ہے کہ ہماری کوششوں میں کچھ کمی رہ گئی ہے، جس کی وجہ سے ہم کچھ کسانوں کو سچائی سمجھا نہیں سکے۔آج گرو نانک کا یوم پیدائش ہے اور کسی کو قصور دینے کا وقت نہیں ہے۔میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ ہم نے ان قوانین کو رد کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ مظاہرہ کر رہے کسان اب اپنے گھروں، اپنے کھیتوں کو لوٹیں گے اور ہم نئے سرے سے شروعات کر سکتے ہیں۔”
وزیر اعظم نے یہ بھی کہا، ‘ایم ایس پی کو اور زیادہ مؤثر اور شفاف بنانے کے لیے،ایسے تمام موضوعات پر، مستقبل کو دھیان میں رکھتے ہوئے، فیصلہ لینے کے لیےایک کمیٹی کاقیام کیا جائےگا۔اس کمیٹی میں مرکزی حکومت، ریاستی حکومتوں کے نمائندہ ہوں گے، کسان ہوں گے، زرعی سائنسداں ہوں گے، زراعت کے ماہرین اقتصادیات ہوں گے۔’
وزیر اعظم کے اعلان کے بعد 40 کسان تنظیموں کی یونین سنیکت کسان مورچہ (ایس کے ایم)نے کہا، ‘ہم تین زرعی قوانین کو ردکرنے کے سرکار کے فیصلے کا استقبال کرتے ہیں، اس اعلان کے پارلیامانی عمل کے ذریعے پورا ہونے تک انتظار کریں گے۔’
ایس کےایم نے کہا کہ تحریک صرف نئے زرعی قوانین کے خلاف ہی نہیں تھا، فصلوں کے منافع بخش قیمت کی آئینی حیثیت کی گارنٹی کی مانگ اب بھی زیر التواہے۔
ادھر، بھارتیہ کسان یونین کے لیڈر راکیش ٹکیت نےجمعہ کو کہا کہ پارلیامنٹ میں متنازعہ قوانین کورد کرنے کے بعد ہی، وہ زرعی مخالف قوانین کے خلاف چل رہی تحریک کو واپس لیں گے۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سرکار کو فصلوں کےایم ایس پی اور دوسرے مدعوں پر بھی کسانوں سے بات کرنی چاہیے۔
ٹکیت نے ٹوئٹ کیا،‘تحریک فوراً واپس نہیں ہوگی، ہم اس دن کا انتظار کریں گے جب زرعی قوانین کو پارلیامنٹ میں رد کیا جائےگا۔ سرکار، ایم ایس پی کے ساتھ ساتھ کسانوں کے دوسرے مدعوں پر بھی بات چیت کرے۔’
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)