حال ہی میں عوامی کیے گئے پی ایم کیئرس ٹرسٹ کے دستاویز میں جہاں ایک طرف‘کارپوریٹ چندہ حاصل کرنے کےلیےاس کی تعریف سرکاری ٹرسٹ کے طور پرکی گئی ہے، وہیں ایک کلاز میں اس کو پرائیویٹ ٹرسٹ بتایا گیا ہے۔
نئی دہلی: متنازعہ پی ایم کیئرس فنڈ کو لےکر ایک بار پھر سے تنازعہ تیز ہو گیا ہے۔ سرکار نے حال ہی میں اس ٹرسٹ کے دستاویزیعنی ٹرسٹ ڈیڈ– کو عوامی کیا، جس پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔اس نے سرکار کے دعووں پر تضادات کو نمایاں کر دیا ہے کہ پی ایم کیئرس فنڈ پرائیویٹ ہے یا سرکاری۔ ایک طرف اس کو‘کارپوریٹ چندہ حاصل کرنے کے لیے سرکاری ٹرسٹ کے طور پر’دکھایا گیا ہے۔
وہیں دوسری طرف ایک کلاز میں اسے پرائیویٹ یا نجی ٹرسٹ بتایا گیا ہے، جو پی ایم کیئرس فنڈ کو آر ٹی آئی ایکٹ کے دائرے میں آنے سے بچا لیتا ہے۔دستاویز کے مطابق، پی ایم کیئرس ٹرسٹ کو دہلی کے محکمہ ریونیو میں رجسٹرڈ کیا گیا ہے۔وزیر اعظم اس کے صدر ہیں اور حکومت کےسینئروزیروں کو اس کا ٹرسٹی بنایا گیا ہے۔
اس میں سرکار کے اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے لوگوں کے شامل ہونے کے باوجود ٹرسٹ ڈیڈ میں اسے پرائیویٹ بتایا گیا ہے۔
اس کےپوائنٹ نمبر5.3 میں کہا گیا،‘ٹرسٹ کی نہ تو کوئی ایسی منشا ہے اور نہ ہی یہ کسی سرکار کی ملکیت، کنٹرول یامالی امداد یافتہ ہے۔کسی بھی طرح سے ٹرسٹ کے کام کاج میں مرکزی حکومت یا کسی بھی ریاستی سرکار کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔’
معلوم ہو کہ کو رونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہوئےحالات سے لڑنے کے مقصد سے عوام اور کارپوریٹ سے اقتصادی مدد حاصل کرنے کے لیے27 مارچ کو پی ایم کیئرس فنڈ کا قیام کیا گیا تھا۔ حالانکہ یہ فنڈ اپنے قیام سے ہی تنازعات میں گھرا ہوا ہے۔
پی ایم کیئرس فنڈ کی مخالفت کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ سرکار اس سے جڑی بےحدبنیادی جانکاریاں جیسے اس میں کتنی رقم حاصل ہوئی، اس رقم کو کہاں کہاں خرچ کیا گیا، تک بھی مہیا نہیں کرا رہی ہے۔پی ایم اوآر ٹی آئی ایکٹ کے تحت اس فنڈ سے متعلق تمام جانکاریاں دینے سے لگاتار منع کرتا آ رہا ہے۔
پی ایم اوکا دعویٰ ہے کہ چونکہ یہ پبلک چیرٹیبل ٹرسٹ ہے اور یہ کسی سرکاری آرڈ کے تحت نہیں بلکہ وزیراعظم کی اپیل پر بنایا گیا ہے، اس لیے اس پر آر ٹی آئی ایکٹ نافذ نہیں ہوتا ہے۔
حالانکہ دی وائر نے قبل میں رپورٹ کرکے بتایا تھا کہ آر ٹی آئی کے تحت حاصل کیے گئے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ کارپوریٹ وزارت نے اپنی فائلوں میں یہ لکھا ہے کہ پی ایم کیئرس فنڈ کا قیام مرکزی حکومت کے ذریعے کیا گیا ہے۔
مرکزی حکومت کے ذریعے بنایاگیا کوئی بھی محکمہ آر ٹی آئی ایکٹ کے دائرے میں آتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 28 مارچ کی تاریخ میں کارپوریٹ امور کی وزارت میں‘کمپنی ایکٹ،2013 کے شیڈول VII کے آئٹم نمبر (viii)کے تحت اہل سی ایس آر سرگرمی کے طور پر پی ایم کیئرس فنڈ میں چندہ پر وضاحت’ کے نام سے تیار کی گئی ایک فائل میں کہا گیا ہے کہ اس فنڈ میں ہندوستانی کمپنیوں کی جانب سے سے دیے گئے تمام چندےکو کارپوریٹ سماجی ذمہ داری(سی ایس آر)سرگرمی مانا جائےگا، کیونکہ مرکزی حکومت کے ذریعےپی ایم کیئرس کا قیام کیا گیا ہے۔
حالانکہ اس سے ایک دن پہلے کی تاریخ والے ‘ٹرسٹ ڈیڈ’ میں لکھا ہے کہ یہ فنڈ سرکاری نہیں پرائیویٹ ہے، اس طرح پی ایم کیئرس کو کارپوریٹ چندے کے لیے اہل نہیں مانا جا سکتا تھا۔
ضابطہ کے مطابق، سی ایس آر رقم کو ان کاموں میں خرچ کرنا ہوتا ہے، جس سے لوگوں کے سماجی، اقتصادی، تعلیمی،اخلاقی اورہیلتھ وغیرہ میں اصلاح ہو اوربنیادی اسٹرکچر، ماحولیات اورثقافتی امورکو بڑھانے میں مدد مل سکے۔
پی ایم کیئرس فنڈ کے قیام کے دو مہینے بعد 26 مئی کو مرکزی حکومت نے کمپنی ایکٹ میں ہی ترمیم کر دیا اور اس میں پی ایم کیئرس فنڈ بھی جوڑ دیا گیا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ پی ایم کیئرس فنڈ کا قیام مرکزی حکومت کے ذریعے کیا گیا ہو یا نہیں، کمپنیوں کے ذریعےدیے گئے اس میں چندے کو سی ایس آر خرچ مانا جائےگا۔