پی ایم کیئرس فنڈ کو لے کر اتنی رازداری سے کیوں کام لے رہی ہے حکومت؟

07:32 PM Jun 06, 2020 | دھیرج مشرا

پی ایم کیئرس فنڈ میں حاصل ہوئی رقم اور اس کے خرچ کی تفصیلات عوامی کرنے سے منع کرنے کے بعد اب وزیر اعظم دفتر نے فنڈ میں چندہ کوٹیکس فری کرنے اور اس کوسی ایس آر خرچ ماننے کے سلسلے میں دستاویزوں کا انکشاف کرنے سے منع کر دیا ہے۔

(فوٹو بہ شکریہ: پی آئی بی)

نئی دہلی: پی ایم کیئرس فنڈ کی رازداری کو لے کر تنازعہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اس سلسلےمیں جانکاری حاصل کرنے کے لیے دائر کئے گئے کئی آر ٹی آئی درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے وزیر اعظم دفتر نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ایم کیئرس آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کے تحت ‘پبلک اتھارٹی’ نہیں ہے، اس لیے جانکاری نہیں دی جائے گی۔

حالانکہ پی ایم اوکی اس دلیل کو کئی سابق انفارمیشن کمشنروں، آر ٹی آئی کارکنوں اورماہرین نے چیلنج دیا ہے۔ پی ایم کیئرس فنڈ میں حاصل ہوئی کل رقم کا انکشاف کرنے کو لے کر بامبے ہائی کورٹ میں ایک عرضی بھی دائر کی گئی ہے، جس پر کورٹ نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔

کو رونا سے لڑنے کے نام پر عوام سے اقتصادی مدد حاصل کرنے کے لیے 28 مارچ کو پی ایم کیئرس فنڈ بنایاگیا تھا۔لیکن اس فنڈ کے کام کرنے کے طریقے کو خفیہ رکھنے کی حکومت کی کوششوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم دفتر نے آر ٹی آئی کے تحت یہ جانکاری بھی دینے سے بھی منع کر دیا ہے کہ کس تاریخ کو اس فنڈ کو ٹرسٹ کے طورپررجسٹر کیا گیا اور کس تاریخ سے اس کو شروع کیا گیا۔

پی ایم او نے یہ بھی نہیں بتایا کہ کس قانون/ضابطے کے تحت اس ٹرسٹ کو رجسٹر کیا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے پی ایم کیئرس فنڈ کی تشکیل‘ایک چیرٹیبل ٹرسٹ’ کے طورپرکی گئی ہے۔کوموڈور لوکیش بترا (ریٹائرڈ)نے آر ٹی آئی دائر کرکے پی ایم کیئرس فنڈ کے سبھی ٹرسٹی کے نام اور عہدہ، رجسٹریشن اتھارٹی کا نام اور وہ قانون یا ضابطہ، جس کے تحت یہ ٹرسٹ رجسٹر کیا گیا ہے، کے بارے میں جانکاری مانگی تھی۔

اس کے علاوہ انہوں نے فائل نوٹنگس سمیت ان سبھی دستاویزوں کی کاپی مانگی تھی جس کے ذریعے پی ایم کیئرس فنڈ میں چندہ کو انکم ٹیکس ایکٹ، 1961 کی دفعہ 80(جی) کے تحت 100 فیصدی ٹیکس فری کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بترا نے پی ایم کیئرس فنڈ میں ڈونیشن کو کمپنی ایکٹ، 2013 کے تحت سی ایس آر خرچ ماننے کے فیصلے کے سلسلے میں دستاویزوں کی کاپی  مانگی تھی۔

حالانکہ وزیر اعظم دفتر نے ان سبھی نکات پر جانکاری دینے سے منع کر دیا۔ شعبہ کے سی پی آئی او پروین کمار نے قبل میں اس سے جڑے آر ٹی آئی درخواستوں پر دیے گئے جواب کو ہوبہو یہاں بھی چھاپ دیا تھا۔دو جون کو بھیجے اپنے جواب میں کمار نے لکھا، ‘پی ایم کیئرس آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کی دفعہ 2(ایچ) کے تحت پبلک اتھارٹی نہیں ہے۔ پی ایم کیئرس سے جڑی متعلقہ جانکاری pmcares.gov.in ویب سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہے۔’

حالانکہ پی ایم کیئرس کی ویب سائٹ ایسی کوئی بھی جانکاری نہیں دیتی ہے۔

کسے کہتے ہیں پبلک اتھارٹی

آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 2(ایچ) میں پبلک اتھارٹی کی تعریف  دی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح کے ادارے اس کے دائرے میں ہیں۔دفعہ 2(ایچ) میں ضمنی دفعہ (اے) سے لے کر (ڈی) تک میں بتایا گیا ہے کہ کوئی بھی اتھارٹی یا باڈی یا ادارہ  جس کا قیام آئین ، پارلیامنٹ کے ذریعےبنائے گئے کسی قانون، مجلس قانون ساز کے ذریعے بنائے گئے قانون، حکومت کی جانب سے جاری کئے گئے کسی آرڈر یا گزٹ کے تحت کیا گیا ہو، اس کو پبلک اتھارٹی مانا جائےگا۔

اس کے علاوہ دفعہ 2(ایچ)(ڈی)(ون)کے مطابق کوئی بھی اتھارٹی جس کا قیام حکومت کے آرڈریا گزٹ کے ذریعے کیا گیا ہو اور یہ یا تو حکومت کی ملکیت میں ہو یا اس کو کنٹرول کیا جاتا ہو یا حکومت کی جانب سے کافی حد تک مالی امداد حاصل ہو، اس کو پبلک اتھارٹی کہا جائےگا۔

دفعہ 2(ایچ)(ڈی)(ٹو) کے تحت وہ غیرسرکاری تنظیم  جن کو حکومت براہ راست  یابالواسطہ  طور پر فنڈ دیتی ہے، اس کو پبلک اتھارٹی کہا جائےگا اور ایسے اداروں کو آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت جانکاری دینی ہوگی۔پی ایم او کی یہ دلیل ہے کہ پی ایم کیئرس فنڈ ان میں سے کسی بھی تعریف کے دائرے میں نہیں آتا ہے۔ پی ایم کیئرس پبلک اتھارٹی ہے یا نہیں، سینٹرل انفارمیشن کمیشن اور دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے اورماہرین کے ساتھ بات چیت کی بنیاد پر ہم اس کا جواب دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مرکزی حکومت کی دلیل ہے کہ پی ایم کیئرس ایک چیرٹیبل ٹرسٹ ہے اور حکومت اسے فنڈ نہیں دیتی ہے اور نہ ہی اسے کنٹرول  کرتی ہے۔

حالانکہ جانکاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کے اعلیٰ عہدیداران اس فنڈ کے ٹرسٹی ہیں اورمختلف  ذرائع سے حکومت کی  مشینری کا استعمال کر کےاس فنڈ کو مشتہر کیا جا رہا اور ٹیکس دینے والوں کے پیسے چندہ کے طورپر اس میں دیےجا رہے ہیں، اس لیے یہ صاف  ہے کہ حکومت اور حکومت کے لوگ اس کو کنٹرول کر رہے ہیں۔

ملک  کے پہلے وزیر اعظم  جواہر لال نہرو کی اپیل پر پی ایم کیئرس کی طرح ہی پرائم منسٹر نیشنل ریلیف  فنڈ(پی ایم این آرایف)کا قیام  کیا گیا تھا۔اس میں حاصل چندہ کو قدرتی آفات، حادثات  کےمتاثرین  کی مدد میں خرچ کیا جاتا ہے۔سال 1973 میں انکم ٹیکس ایکٹ، 1961 کی دفعہ 12اے کے تحت اسے ‘ٹرسٹ’ کے طور پر رجسٹر کیا گیا۔ آگے چل کر سال 1985 میں پی ایم این آرایف کی مینیجنگ کمیٹی نے فنڈ کی ساری ذمہ داری  وزیر اعظم کو سونپ دی، جنہیں یہ اختیار دیا گیا کہ وہ فنڈ کودیکھنےکے لیے ایک سکریٹری کی تقرری  کر سکتے ہیں۔

سال 2005 میں آر ٹی آئی ایکٹ پاس ہونے کے بعد پی ایم این آرایف میں چندہ دینے والے لوگوں اور اس کے مستفیدکی تفصیلات جاننے کے لیے کئی آر ٹی آئی درخواست  دائر کئے گئے۔ اس میں سے ایک عرضی گزار  تھے شیلیش گاندھی، جو کہ بعد میں سینٹرل  انفارمیشن کمشنر بھی بنے۔

پی ایم کیئرس کے سلسلے میں دیے جا رہے جواب کی طرح ہی پی ایم اونے پی ایم این آرایف کو لے کر گاندھی کی درخواست کو خارج کر دیا اور کہا کہ یہ پبلک اتھارٹی نہیں ہے۔ گاندھی نے اس کے خلاف اپیل کی اور یہ معاملہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن(سی آئی سی)پہنچا۔

سی آئی سی میں پی ایم اوکے حکام  نے کہا کہ چونکہ پی ایم این آرایف نہ تو حکومت کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے اور نہ ہی اسے مالی امداد دی جاتی ہے، اس لیے یہ آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت پبلک اتھارٹی نہیں ہے۔اس پر سی آئی سی نے کہا کہ چونکہ پی ایم این آرایف وزیر اعظم دفتر کے صوابدیدی اختیارات میں  ہے اور یہیں سےاس کوچلایا جاتا ہے، اس لیےپی ایم اوعوام کو پی ایم این آرایف سے جڑی جانکاری دے۔

حالانکہ کمیشن نے کہا کہ جہاں تک مستفید کے نام بتانے کا سوال ہے تو ایسی جانکاری نہیں دی جا سکتی ہے کیونکہ یہ پرائیویسی کے دائرے میں ہے۔ لیکن اگر اداروں  کو فائدہ دینے کے بارے میں جانکاری مانگی جاتی ہے تو اس کا انکشاف آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت کرنا ہوگا۔

اسی طرح ایک دوسری آر ٹی آئی درخواست  پر شنوائی کرتے ہوئے سی آئی سی نے پی ایم این آرایف بنام اشیم تکیار معاملے میں چھ جون 2012 کو آرڈر دیا کہ محکمہ جاتی چندہ دینے والوں کے بارے میں جانکاری عوامی کی جانی چاہیے۔سی آئی سی کے اس آرڈر کو 19 نومبر 2015 کو دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس راجیو اینڈلا کی ایک رکنی بنچ نے برقرار رکھا اور کہا کہ پی ایم این آرایف محکمہ جاتی چندہ  کی جانکاری آر ٹی آئی کے تحت مہیا کرائے۔ حالانکہ اس بنچ  نے یہ نہیں طے کیا کہ پی ایم این آرایف پبلک اتھارٹی ہے یا نہیں۔

پی ایم این آرایف نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی اور معاملہ دہلی ہائی کورٹ کے اس وقت کے جج جسٹس رویندر بھٹ اور سنیل گوڑ کی بنچ کے پاس پہنچا۔ حالانکہ یہ بنچ بھی حتمی  فیصلہ نہیں دے پائی کیونکہ دونوں ججوں نے الگ الگ فیصلے دیے، اور فی الحال معاملہ زیر سماعت ہے۔

جسٹس بھٹ نے اپنے فیصلے میں مانا کہ آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 2(ایچ)(ڈی)(ون)کے تحت پی ایم این آرایف ایک پبلک اتھارٹی ہے اور حاصل ہوا چندہ، چندہ دینے والوں اور مستفید کے نام اور دوسری  تفصیلات کوعوامی کیا جانا چاہیے۔جج نے کہا کہ وزیر اعظم کی جانب سے فنڈ میں چندہ دینے کی اپیل کرنا اور فنڈ کی کمیٹی میں وزیر اعظم  سمیت نائب وزیر اعظم ، وزیر خزانہ اور دوسرے اہم اعلیٰ عہدیداران  کا ہونا یہ نہیں مانا جا سکتا کہ یہ کوئی ذاتی فیصلہ ہے۔ ان کاموں کو حکومت کی کارروائیوں کے طورپر مانا جاتا ہے جس کی نمائندگی وزیر اعظم  کرتے ہیں۔

پی ایم کیئرس کی بھی تصویر ایسی ہی ہے جس کے چیئرمین وزیر اعظم  اور اس کے ممبر وزیر خزانہ،وزیر داخلہ اور وزیر دفاع ہیں۔اس فنڈ کی کمیٹی میں حکومت کے اعلی عہدیداران کےشامل ہونے کے باوجودپی ایم اوکی دلیل ہے کہ یہ پرائیویٹ ٹرسٹ ہے اور اس کے ممبر آئینی عہدوں پر ہونے کے باوجود نجی بنیادپر فیصلے لیتے ہیں۔

جسٹس رویندر بھٹ نے کہا تھا کہ چونکہ چندہ دینےوالوں کو ٹیکس چھوٹ دینے کے لیے پی ایم این آرایف کو ٹرسٹ کے طورپر رجسٹر کیا گیا ہے اور اسے پین نمبر بھی دیا گیا ہے، اس لیے یہ مانا جائےگا کہ ‘حکومت نے اسے لے کر آرڈر’ جاری کیا ہے۔ اس طرح یہ آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 2(ایچ)(ڈی) کی تعریف میں فٹ بیٹھتا ہے اور یہ پبلک اتھارٹی ہے۔

پی ایم کیئرس کو لے کر حکومت کی یہی دلیل ہے کہ چونکہ یہ کسی حکومت کے آرڈر کے ذریعے قائم  نہیں کیا گیا اس لیے یہ پبلک اتھارٹی کی تعریف  کے دائرے میں نہیں۔حالانکہ یہ دلیل بالکل سہی نہیں ہے۔ وزیر اعظم دفتر نے خود 28 مارچ کو پی آئی بی، جو کہ سرکاری ادارہ  ہے، اس کے ذریعے پریس ریلیز جاری کرکے پی ایم کیئرس کے قیام کے بارے میں جانکاری دی تھی۔

اس کے علاوہ حکومت نے ایک بل  جاری کرکے انکم ٹیکس ایکٹ میں ترمیم کرایا تاکہ پی ایم کیئرس فنڈ میں چندہ دینے والے لوگوں، اداروں کو 100 فیصدی ٹیکس چھوٹ دلایا جا سکے۔ اتنا ہی نہیں، مرکزی  کارپوریٹ وزارت نےگزشتہ 26 مئی کو کمپنی ایکٹ، 2013 کی دفعہ 467 میں ترمیم کیا ہے اور اس فنڈ میں چندہ کو سی ایس آر خرچ بھی مانا ہے۔

ان دونوں ترمیمات سے جڑے دستاویزوں کا انکشاف کرنے سے حکومت نے انکار کر دیا ہے۔لوکیش بترا کہتے ہیں،‘اگر حکومت سی ایس آر کا پیسہ اس فنڈ میں لے رہی ہے تو وہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ پی ایم کیئرس پبلک اتھارٹی نہیں ہے۔ سی ایس آر کا اہتمام  پارلیامنٹ نے کیا ہے اور پارلیامنٹ کا فیصلہ آر ٹی آئی کے دائرے میں ہوتا ہے۔’

جسٹس بھٹ نے پی ایم این آرایف پر اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آر ٹی آئی ایکٹ کا مقصد سبھی پبلک اتھارٹی کے کام کاج میں شفافیت لانا ہے اورجمہوریت میں ایک انفارمڈ سماج ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا، ‘جمہوریت کےکام کرنے کے طریقے میں جانکاری کی شفافیت کو اہم  مانا گیا ہے، تاکہ کام کاج میں رازداری کو ختم  کیا جا سکے اور حکومتوں اور ان کے سسٹم  کو عوام کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جا سکے۔’

اس بنیاد پر جسٹس بھٹ ‘پبلک اتھارٹی’ کی کھل کر تشریح کرنے کے لیے کہتے ہیں۔جج نےکہا کہ ایک لمحہ  کے لیے مان لیتے ہیں کہ پی ایم این آرایف کاقیام  حکومت کے کسی آرڈر یا نوٹیفیکیشن کے ذریعے نہیں ہوا ہے، پھر بھی پی ایم این آرایف آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 2(ایچ) (ڈی) (ون)  کے دائرے میں ہے۔

جسٹس بھٹ نے تھل پلم سروس کوآپریٹو بینک لمٹیڈ بنام اسٹیٹ آف کیرل معاملے میں سپریم کورٹ کے ذریعےکی گئی تشریح  کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دفعہ 2(ایچ)(ڈی)(ون) کے تحت پی ایم این آرایف حکومت کے ذریعے بڑے پیمانے پر ‘کنٹرول’ کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ایم این آرایف کسی عام سرکاری افسر نہیں، بلکہ آئینی عہدہ یعنی کہ ہندوستان  کے وزیر اعظم  کی دیکھ ریکھ میں ہے۔ اس فنڈ کے بارے میں وزیر اعظم  کے ذریعےلیے گئے فیصلے کو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ان کا نجی فیصلہ ہے۔ اس بارے میں وزیر اعظم  کے فیصلے کو سرکاری فیصلہ مانا جانا چاہیے۔

بہرحال اس فیصلہ کو حتمی فیصلہ نہیں مانا جا سکا کیونکہ دوسرے جج جسٹس سنیل گوڑ نے اسے لے کر اعتراض کیا۔ حالانکہ جو لوگ پی ایم کیئرس کو آر ٹی آئی کے تحت پبلک اتھارٹی قرار دیے جانے کی مانگ کر رہے ہیں، ان کے دلائل اسی طرح کے ہیں۔اس میں ایک بنیادی  بات یہ ہے کہ پی ایم کیئرس فنڈ کا کوئی الگ سے آفس نہیں ہے۔ یہ وزیر اعظم دفتر میں واقع ہے اور وہیں سے چلایاجا رہا ہے۔ یعنی کہ بالواسطہ طور پریہاں پبلک کا پیسہ خرچ ہو رہا ہے۔ پی ایم کیئرس کے لیے کوئی الگ سے اسٹاف بھی نہیں ہے۔

اس کے علاوہ پبلک کمپنیوں(پی ایس یو)سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ اس میں چندہ دیں اور بہت ساری کمپنیوں نے اس میں ڈونیٹ بھی کیا ہے۔ پی ایس یو کوئی پرائیویٹ کمپنی نہیں، بلکہ اس میں ٹیکس دینے والوں  کا پیسہ لگا ہوتا ہے۔اس کے علاوہ مرکزی حکومت مشینری کا استعمال کرکےسرکاری  ویب سائٹس کے ذریعے اشتہار دےکر لوگوں سے پی ایم کیئرس میں چندہ کرنے کی گزارش بھی کر رہی ہے۔