فیکٹ چیک: کیا ٹک ٹاک سمیت دوسری چینی کمپنیوں نے پی ایم کیئرس فنڈ میں چندہ دیا ہے؟

پی ایم کیئرس فنڈ کا طرزعمل شفاف نہیں ہے اور اس کوآر ٹی آئی ایکٹ کے دائرے سے بھی باہر کر دیا گیا، جس کی وجہ سے پتہ نہیں چل پا رہا ہے کہ واقعی یہ فنڈ کس طرح سے کام کر رہا ہے، کون اس میں چندہ دے رہا ہے اور اس جمع رقم کو کن کن کاموں میں خرچ کیا جا رہا ہے؟

پی ایم کیئرس فنڈ کا طرزعمل شفاف نہیں ہے اور اس کوآر ٹی آئی ایکٹ کے دائرے سے بھی باہر کر دیا گیا، جس کی وجہ سے پتہ نہیں چل پا رہا ہے کہ واقعی یہ فنڈ کس طرح سے کام کر رہا ہے، کون اس میں چندہ دے رہا ہے اور اس جمع رقم  کو کن کن کاموں  میں خرچ کیا جا رہا ہے؟

(فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر)

(فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر)

نئی دہلی: لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول(ایل اے سی )پر چینی فوج کے ساتھ کشیدہ حالات کے بیچ حکومت  نے ٹک ٹاک، یو سی براؤزر سمیت 59 چینی موبائل ایپ پرپابندی  لگا دی ہے۔مرکز کے اس فیصلے کاسیاسی  گلیاروں میں کچھ لوگوں نے استقبال  کیا ہے تو کچھ نے اس پر سوال بھی اٹھائے ہیں۔

ایک بڑا الزام یہ ہے کہ کورونا سے لڑنے کے لیے بنائے گئے پی ایم کیئرس فنڈ میں کئی چینی کمپنیوں نے چندہ دیا ہے اور لوگ اب سوال کر رہے ہیں کہ کیاحکومت اس پیسے کو واپس کرےگی۔اس سے پہلے بی جے پی نے الزام  لگایا تھا کہ راجیو گاندھی فاؤنڈیشن(آرجی ایف)کو چینی سرکار سے سال 2005-06 میں ڈونیشن ملے تھے۔اس کو لےکر جوابی حملہ کرتے ہوئے کانگریس نے کہا کہ پی ایم کیئرس فنڈ نے کئی چینی  کمپنیوں سے چندہ حاصل  کیا ہے۔

حالانکہ آرجی ایف  کے ذریعے حاصل کیے گئےچندے سے متعلق عوامی دستاویز دستیاب ہیں، جس  سے پتہ چلتا ہے کہ فاؤنڈیشن نے ریسرچ اسٹڈیز کے لیے بیجنگ سمیت دوسری سرکاروں سے فنڈ حاصل کیا ہے۔لیکن پی ایم کیئرس فنڈ کو لےکر ابھی پوری طرح یہ واضح نہیں ہے کہ کون کون سی کمپنیاں اس میں چندہ دے رہی ہیں اور ٹرسٹ نے ابھی تک ملے ڈونیشن کی فہرست بھی عوامی نہیں کی ہے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پی ایم کیئرس فنڈ کاطرز عمل شفاف نہیں ہے اور اس کو آر ٹی آئی ایکٹ کے دائرے سے بھی باہر کر دیا گیا، جس کی وجہ سے لوگوں کو پتہ نہیں چل پا رہا ہے کہ واقعی یہ فنڈ کس طرح سے کام کر رہا ہے، کون اس میں ڈونیشن دے رہا ہے، اس میں جمع رقم کو کن کن کاموں  میں خرچ کیا جا رہا ہے۔

کیا پی ایم کیئرس فنڈ نے چینی کمپنیوں سے چندہ حاصل کیا ہے؟

میڈیا رپورٹس اور کمپنی کے بیانات  کامطالعہ  کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ کم سے کم پانچ چینی کمپنیوں نے کہا ہے کہ انہوں نے پی ایم کیئرس فنڈ میں چندہ  دیا ہے یا دیں گے۔نیچے دیےگئے ایک ٹیبل میں دکھایا گیا ہے گزشتہ سوموار کوحکومت ہند کے ذریعے بین کیے گئےموبائل ایپ ٹک ٹاک نے پی ایم کیئرس فنڈ میں 30 کروڑ کا چندہ دیا ہے۔ بی جے پی حامیوں، یہاں تک کہ مرکزی وزیر رام داس اٹھاولے نے مانگ کی تھی کہ اس سوشل میڈیا اور ویڈیو شیئرنگ ایپ پر بین لگایا جائے۔

چینی کمپنیوں کی جانب سے پی ایم کیئرس فنڈ میں دیےگئےچندےکی تفصیلات۔

چینی کمپنیوں کی جانب سے پی ایم کیئرس فنڈ میں دیےگئےچندےکی تفصیلات۔

چینی نیٹ ورکنگ اور ٹیلی کام کمپنی ہواوےنے بھی فنڈ میں سات کروڑ روپے دینے کو کہا تھا۔ قبل میں ایسی کئی رپورٹس آئی ہیں جو یہ دکھاتی ہیں کہ ہواوے چین کی پیپلس لبریشن آرمی سے براہ راست  جڑی ہوئی ہے۔اس کے علاوہ چینی موبائل فون کمپنی شاؤمی، جس نے حال ہی میں یہ بتایا ہے کہ وہ ہندوستان میں فون بناتی ہے، اس نے کہا کہ اس نے پی ایم کیئرس فنڈ اورملک  بھر کے مختلف سی ایم  راحت فنڈ کو 10 کروڑ روپے دیے تھے۔

دو دیگر چینی موبائل فون برانڈ (اوپو اور ون پلس)جو کہ ایک ہی کمپنی کے ہیں، اس نے بھی مودی کے پی ایم کیئرس فنڈ میں ایک ایک کروڑ روپے کاچندہ دیا ہے۔جیسا کہ نیچے دےگئےٹیبل میں دکھایا گیا ہے کہ تین مشہورہندوستانی کمپنیاں، جس میں بہت زیادہ چینی سرمایہ نہیں ہے، انہوں نے بھی فنڈ میں چندہ  دیا ہے۔

چینی سرمایہ  والی کمپنیوں کی جانب سے پی ایم کیئرس میں چندہ دینے کا اعلان۔

چینی سرمایہ  والی کمپنیوں کی جانب سے پی ایم کیئرس میں چندہ دینے کا اعلان۔

پچھلے کچھ مہینوں میں حکومت ہندنے ہندوستان میں چینی سرمایہ کاروں  پر کڑی نگرانی رکھنے کے لیے ایف ڈی آئی پابندیوں کو سخت کر دیا ہے۔بالخصوص ان ذرائع  پرپابندی  لگائی ہے جس کے ذریعے پے ٹی ایم یا اولاسرمایہ حاصل کرتے ہیں۔

یہ چندے کب ملے تھے؟ کیا انہیں قبول کر لیا گیا ہے؟

پی ایم کیئرس فنڈ میں چندہ دینے کے زیادہ تراعلانات اپریل 2020 میں کیے گئے تھے۔ اس کے کچھ ہی ہفتوں بعد چین اورہندوستان کے بیچ حالات کشیدہ  ہونے کی خبریں آئی تھیں۔ پانچ مئی کو گشت کے دوران ہندوستان  اور چین کے بیچ جھڑپ ہوئی تھی۔حالانکہ اس کے پہلے بھی کورونا کو لےکر چین کے خلاف جذبات مشتعل تھے اور وائرس کے لیے اس کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا تھا۔ہندوستان میں بی جے پی آن لائن میڈیا کے ذریعے اس کا پروپیگنڈہ  بھی کر رہی تھی۔

پی ایم کیئرس فنڈ میں آٹومیٹک ڈونیشن قبول کرنے کا سسٹم ہو سکتا ہے۔ کئی بار اس کی وجہ سے شرمندگی بھی جھیلنی پڑتی ہے، جیسا کہ ایک بار بی جے پی کو چندہ دینے والی کمپنی کے‘دہشت گردانہ تعلقات’کو لےکر جانچ ہوئی تھی۔حالانکہ اس کو لےکر وزیر اعظم دفتر کو ہی فیصلہ لینا ہے کہ چینی کمپنیوں کی جانب سے ملےپیسے کو واپس لوٹایا جائےگا یا نہیں۔

اس بحث سے ایک اہم  سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کی طرح پی ایم کیئرس فنڈ بھی تمام چندہ دینے والوں کی فہرست کو عوامی  کرےگا؟اگر ایسا ہوتا ہے توشفافیت کی سمت  میں یہ ایک اہم  قدم ہوگا۔