نگرانی فہرست میں جیٹ ایئر ویز، اسپائس جیٹ سمیت پی ایس یو کے عہدیداروں کے نام شامل

05:12 PM Jul 31, 2021 | انوج شریواس

پیگاسس پروجیکٹ: لیک ہوئے دستاویز دکھاتے ہیں کہ پیگاسس کے ذریعے ممکنہ نگرانی کے دائرے میں ریلائنس کی دو کمپنیوں، اڈانی گروپ کے عہدیدار،گیل انڈیا کے سابق سربراہ، میوچل فنڈ  سے وابستہ  لوگوں اور ایئرسیل کے پرموٹر سی شیوشنکرن کے نمبر بھی شامل تھے۔

بائیں سے دائیں جیٹ ایئرویز کے نریش گوئل،اسپائس جیٹ کے اجئے سنگھ اور گیل انڈیا کے سابق چیف ۔(فوٹو: دی وائر/فیس بک)

نئی دہلی: سرولانسنگ سےمتعلق  لیک ہوئی فہرست میں ہندوستان  کےمختلف شعبوں  سے وابستہ لوگوں کے ناموں کاانکشاف  ہونے کے بعد اب جیٹ ایئرویز کے بانی اور چیئرمین نریش گوئل جیسےبزنس مین سے لےکر بڑی سرکاری کمپنیوں کے عہدیداروں کے نام سامنے آئے ہیں۔

بین الاقوامی  میڈیا اداروں ،جس میں دی وائر بھی شامل ہے کے پیگاسس پروجیکٹ کے تحت اس کا انکشاف  ہوا ہے۔

گوئل کے علاوہ فہرست میں اسپائس جیٹ کے چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر اجئے سنگھ اور ایسسارگروپ کے پرشانت رئیا کے ذریعے استعمال کیے گئے نمبر شامل ہیں۔

بی جے پی کے ساتھ اپنی وابستگی  کےلیےمعروف اجئے سنگھ نے پچھلے کچھ سالوں میں ایئرلائن کو کلاندھی مارن سے واپس لینے کے بعد قابل ذکر اصلاحات کے ساتھ آگے بڑھایا ہے۔

اس فہرست میں ایسے کئی کاروباری یا کمپنیوں کے عہدیدار بھی شامل ہیں،جنہیں پچھلے کچھ سالوں میں قانونی معاملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، زیادہ تر لون فراڈ کی جانچ کی وجہ سے۔اس میں روٹومیک پین کے وکرم کوٹھاری(اور ان کے بیٹے راہل)اور ایئرسیل کے سابق پرموٹر اور کاروباری  سی شیوشنکرن شامل ہیں۔

فرانس واقع  میڈیا نان پرافٹ فاربڈین اسٹوریز نے سب سے پہلے 50000 سے زیادہ  ان نمبروں کی فہرست حاصل کی تھی، جن کی اسرائیل کے این ایس او گروپ کے ذریعے بنےپیگاسس اسپائی ویئر سےنگرانی کیے جانے کا امکان ہے۔اس میں سے کچھ نمبروں کی ایمنسٹی انٹرنیشل نے فارنسک جانچ کی،جس میں یہ پایا گیا کہ ان پر پیگاسس کے ذریعے حملہ کیا گیا تھا۔

فاربڈین اسٹوریز نےاس ‘نگرانی فہرست’ کو دی وائر سمیت دنیا کے 16میڈیا اداروں کے ساتھ ساجھا کیا،جنہوں نے پچھلے ایک ہفتے میں ایک کے بعد ایک بڑے انکشاف کیے ہیں۔ اس پوری رپورٹنگ کو ‘پیگاسس پروجیکٹ’ کا نام دیا گیا ہے۔

این ایس او گروپ کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے پروڈکٹ پیگاسس کو صرف ‘سرکاروں’ کو ہی بیچتے ہیں۔ وہیں حکومت ہند نے پیگاسس کے استعمال کو لےکر نہ توقبول  کیا ہے اور نہ ہی انکار کیا ہے۔ پیگاسس نے اس فہرست کے کسی بھی نمبر کی ہیکنگ سے انکار کیا ہے۔

پچھلے کچھ سالوں میں جیٹ ایئرویز کے باس نریش گوئل کے کریئر نے عرش سے فرش تک کا سفر طے کیا ہے۔ سال 2018 کے آخر میں کئی میڈیا رپورٹس میں اشارہ کیا گیا تھا کہ پیسے کی کمی سے جوجھ رہی ان کی ایئرلائن دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے۔ کافی اٹھاپٹک کے بعد آخرکارگوئل اور ان کی بیوی  نے مارچ 2019 میں بورڈ سے استعفیٰ  دے دیا اور ایئرلائن کے رہنماؤں نےمینجمنٹ  سنبھال لیا۔

گوئل کا نمبر پیگاسس پروجیکٹ کی فہرست میں اس دوران دکھائی دیتا ہے جس وقت انہیں مئی 2019 میں ممبئی ایئرپورٹ پر روکا گیا تھا۔ بعد میں جولائی 2019 میں کارپوریٹ معاملوں کی وزارت (ایم سی اے)نےسرکاری طور پر جیٹ ایئرویز گروپ کی کئی کمپنیوں کی جانچ کا حکم دیا تھا۔

اس کے علاوہ کوٹھاری اور شیوشنکرن کا نمبر اس وقت فہرست میں درج ہوا جب ان کے خلاف سی بی آئی جیسی قانونی ایجنسیاں جانچ کر رہی تھیں۔

بڑے کارپوریٹ گھرانوں میں کام کرنے والے کم از کم تین بزنس ایگزیکٹو اس فہرست میں شامل ہیں۔ ان کےعہدے الگ الگ تھے، لیکن وہ کمپنی سے وابستہ پالیسی سے متعلق مدعوں پر کام کرتے تھے۔

ان میں اڈانی گروپ کے مڈ لیول کے ایک عہدیدار،ایسسار گروپ کے ایک شخص اور اسپائس جیٹ کے سابق ملازم شامل ہیں۔ دی وائر ان کے ناموں کا انکشاف نہیں کر رہا ہے کیونکہ وہ ٹاپ مینجمنٹ کا حصہ نہیں ہیں اور انہوں نے نام نہ چھاپنے کی گزارش  کی ہے۔

اس کے علاوہ اپنی کمپنیوں سےمتعلق تنازعات  میں رہنے والے ریلائنس انڈسٹری کے وی بال سبرامنیم اور ریلائنس انل دھیروبھائی امبانی گروپ کے ااے این سیتھرمن کے نمبر بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

دونوں ملازم ایک وقت میں غیرمنقسم  ریلائنس گروپ کا حصہ تھے۔ ان پر سرکاری رازاداری  ایکٹ  کے تحت سرکاری دستاویز چوری کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

حالانکہ اگست 2019 میں دہلی ہائی کورٹ  نے مبینہ طور پر خفیہ دستاویز رکھنے کے لیے ریلائنس انڈیا لمٹیڈ اور اس کے تین عہدیداروں کے خلاف مجرمانہ مقدمہ چلانے کی اجازت دینے والے ایک ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو رد کر دیا تھا۔

لیک ہوئی فہرست میں ہندوستان کے میوچل فنڈصنعت سے وابستہ کم از کم پانچ کارپوریٹ عہدیداروں کے نمبر درج ہیں۔ ان میں فرینکلن ٹیمپلٹن، ڈی ایس پی بلیک راک اور موتی لال اوسوال جیسی کمپنیوں کے پیشہ ور شامل ہیں۔

اس کے ساتھ ہی دی وائر اس بات کی بھی تصدیق  کر سکتا ہے کہ سرکاری کمپنی گیل انڈیا کے سابق چیف  اور جنوری 2020 میں نان ایگزیکٹو چیئرمین کے طور پر ایسسار کمپنی میں شامل ہونے والے بی سی ترپاٹھی کا نمبر درج ہے۔

نگرانی کے لیےممکنہ نشانے کے طورپرترپاٹھی کا انتخاب نیچرل گیس کارپوریشن میں اعلیٰ عہدہ سنبھالنے کے ایک مہینے بعد ہوا اور لیک ریکارڈ میں لگ بھگ ایک سال بعد تک ان کا نمبر دکھائی دیتا ہے۔

لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا کے سابق چیف  اور گجرات نرمدا ویلی فرٹیلائزر کارپوریشن کے سابق  ایگزیکٹو ڈائریکٹرکے نمبر بھی اس فہرست میں دکھائی دیتے ہیں۔

چار سال تک ایک اہم  سرکاری کمپنی کی سربراہی  کرنے والے ایک سابق  نوکرشاہ نے دی وائر کو بتایا کہ ان عہدوں  کو سنبھالنے والے زیادہ تر لوگ مانتے ہیں کہ ایک حد تک ان کی نگرانی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘میں نے کبھی پیگاسس جیسی چیز کے بارے میں نہیں سنا تھا۔ لیکن جب آپ کسی ایسے عہدے کو سنبھالتے ہیں جو ملک  کے اسٹریٹجک مفادسےقریب سے جڑا ہوتا ہے، تو یہ امید کی جاتی ہے کہ ایک حد تک نگرانی ہوگی۔ ایسا تب ہوتا ہے جب نوکری کے لیے آپ کو جانچا جا رہا ہوتا ہے، لیکن بعد میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ بالخصوص اگرآپ ایسے شعبے میں ہیں جس میں کارپوریٹ مفاد ہیں یا پالیسی سے متعلق سخت فیصلے ہیں۔’