ایک گلوبل میڈیاکنسورشیم،جس میں دی وائر بھی شامل ہے،نے سلسلےوار رپورٹس میں بتایا ہے کہ ملک کے مرکزی وزیروں، 40 سے زیادہ صحافیوں،اپوزیشن رہنماؤں، ایک موجودہ جج، کئی کاروبا ریوں و کارکنوں سمیت 300 سے زیادہ ہندوستانی فون نمبر اس لیک ڈیٹابیس میں شامل تھے، جن کی پیگاسس سے ہیکنگ کی گئی یا وہ ممکنہ نشانے پر تھے۔
(سینئرصحافی این رام اور ششی کمار)
نئی دہلی: ملک کے دوسینئرصحافی دی ہندو کے سابق مدیر این رام اور ایشین کالج آف جرنلزم کے چیئرمین ششی کمار نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کر عدالت سے پیگاسس اسپائی ویئر معاملے کی جانچ کرنے کا حکم دینے کی مانگ کی ہے۔
گزشتہ تقریباً10دنوں سے دی وائر سہت عالمی سطح پر 17میڈیا ادارےپیگاسس پروجیکٹ کے نام سے ایک سیریز شائع کر رہے ہیں۔
ایک گلوبل میڈیاکنسورشیم،جس میں دی وائر بھی شامل ہے، نے سلسلےوار رپورٹس میں بتایا ہے کہ ملک کے مرکزی وزیروں، 40 سے زیادہ صحافیوں، اپوزیشن رہنماؤں، ایک موجودہ جج، کئی کاروباریوں و کارکنوں سمیت 300 سے زیادہ ہندوستانی فون نمبر اس لیک ڈیٹابیس میں شامل تھے، جن کی پیگاسس سے ہیکنگ کی گئی یا وہ ممکنہ نشانے پر تھے۔
وہیں اسرائیل کے این ایس او گروپ نے باربار کہا ہے کہ وہ صرف سرکاروں کو ہی پیگاسس مہیا کراتا ہے۔
فارنسک جانچ سے پتہ چلا ہے کہ ہندوستان میں سیاسی حکمت عملی کار،سینئر صحافی اور دیگر سے وابستہ 10ڈیوائس کی یا تو پیگاسس سے ہیکنگ کی جا رہی تھی یا وہ اس کے ممکنہ نشانے پر تھے۔
عرضی میں عدالت سے گزارش کی گئی ہے کہ وہ حکومت ہند کو حکم دیں کہ کہ وہ بتائیں کہ کیا سرکار نے یا اس سے متعلق کسی ایجنسی نے پیگاسس اسپائی ویئر کا لائسنس حاصل کیا ہے یا اس کا استعمال کیا ہے یا کیا ہندوستانی شہریوں کی جاسوسی کرنے کے لیے کبھی اس اسپائی ویئر کا استعمال کیا گیا۔
صحافیوں نے اپنی عرضی میں کہا، ‘ملٹری گریڈ کےاسپائی ویئر کا استعمال کرکےاتنے بڑے پیمانے پر سرولانس کئی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور یہ دراندازی ، پرائیویسی پر حملہ اورآزاد اداروں کو غیرمستحکم کرنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔ اس پر بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ مرکزی حکومت نے سرولانس کے لیے پیگاسس لائسنس لینے سے انکار نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان بے حد سنگین الزامات کی آزادانہ اور قابل اعتماد جانچ کرانے کےلیے کوئی قدم اٹھائے ہیں۔’
عرضی میں کہا گیا کہ اگر اس طرح کا سرولانس کیا گیا ہے تو یہ پرائیویسی کےبنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
عرضی میں کہا گیا،‘پیگاسس ہیکنگ مواصلات، دانشورانہ اور معلوماتی رازداری پر سیدھا حملہ ہے اور ان تناظرات میں پرائیویسی کے لیے خطرہ ہے۔’
عرضی میں کہا گیا،’ اس طرح کی نگرانی اگر جاری رہی تو یہ فرد کی اظہار رائے کی آزادی کی بھی خلاف ورزی ہے اور اس کا اظہار رائے کی آزادی پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔’
عرضی میں کہا گیا کہ صحافیوں کو نشانہ بنانا پریس کی آزادی پر حملہ ہے جو جاننے کے حق کو شدید طو رپراثرانداز کرتا ہے جو اصل میں اظہار رائے کی آزادی کا ضروری عنصر ہے۔
عرضی میں ایک دوسرا مدعا بھی اٹھایا گیا ہے کہ کس طرح ہندوستان کی قانونی سرولانس نظام کو پوری طرح سے درکنار کر دیا گیا ہے۔
عرضی میں کہا گیا،‘سرولانس صرف پبلک ایمرجنسی یا لوگوں کی سلامتی کے مفادمیں ہی منصفانہ ہے اور اس طرح کے حالات کا جواز پیش کیا جانا چاہئے اور اس کا تعین صرف حکومت کے جائزے کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے۔ موجودہ معاملے میں ان میں سے کوئی بھی لازمی شرط پوری نہیں کی گئی، جس وجہ سے یہ سرولانس پوری طرح سے غیرقانونی ہے۔’
عرضی میں سپریم کورٹ کے موجودہ یاسبکدوش جج سے جانچ کرانے کی بھی مانگ کی گئی تاکہ یہ پتہ لگایا جا سکے کہ ہندوستان میں سرکاری ایجنسیوں نے اس اسپائی ویئر کا استعمال کس حد تک کیا۔
گزشتہ لگ بھگ ایک ہفتے سے ایک گلوبل میڈیا کنسورثیم لگاتار پیگاسس سرولانس کو لےکر رپورٹ شائع کر رہا ہے۔ ان میں بتایا گیا کہ ملک کے مرکزی وزیروں، 40 سے زیادہ صحافیوں، اپوزیشن رہنماؤں، ایک موجودہ جج، کئی کاروباریوں و کارکنوں سمیت 300 سے زیادہ ہندوستانی فون نمبر اس لیک ڈیٹابیس میں شامل تھے، جن کی پیگاسس سے ہیکنگ کی گئی یا وہ ممکنہ نشانے پر تھے۔
جس میں دی وائر بھی شامل ہے۔
دی وائر نے فرانس کی غیر منافع بخش فاربڈن اسٹوریزاور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دی واشنگٹن پوسٹ اوردی گارڈین جیسے 16 بین الاقوامی میڈیااداروں کے ساتھ مل کر یہ رپورٹس شائع کی ہیں۔
یہ جانچ دنیا بھر کے 50000 سے زیادہ لیک ہوئے موبائل نمبر پر مرکوز تھی، جن کی اسرائیل کے این ایس او گروپ کے پیگاسس سافٹ ویئر کے ذریعے سرولانس کی جا رہی تھی۔ اس میں سے کچھ نمبروں کی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فارنسک جانچ کی ہے، جس میں یہ ثابت ہوا ہے کہ ان پر پیگاسس اسپائی ویئر سے حملہ ہوا تھا۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)