مدراس کرشچین کالج(ایم سی سی)میں بیالوجی کی کم سے کم 34 طالبات نے کالج کے ایک پروفیسر پر جنسی استحصال کا الزام لگایا ہے۔ جسٹس ایس ویدیہ ناتھن نے پروفیسر کو جاری وجہ بتاؤ نوٹس کو خارج کرنے سے انکار کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔
نئی دہلی: مدراس ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ عام تصور ہے کہ عیسائی تعلیمی اداروں میں کو -ایجوکیشن کا ماحول بچیوں کے مستقبل کے لیے ‘نہایت غیر محفوظ ‘ہے۔کورٹ کے مطابق،عیسائی مشنری اچھی تعلیم تو دیتے ہیں لیکن ان کی اخلاقی تعلیم ‘ایک اہم سوال’ ہے۔مدراس کرشچین کالج(ایم سی سی)میں بیالوجی کی کم سے کم 34 طالبات نے کالج کے ایک پروفیسر پر جنسی استحصال کا الزام لگایا ہے۔ جسٹس ایس ویدیہ ناتھن نے پروفیسر کو جاری وجہ بتاؤ نوٹس کو خارج کرنے سے انکار کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔عدالت نے کہا کہ عیسائی مشنری ہمیشہ کسی نہ کسی معاملے کو لے کر سوالوں کے گھیرے میں رہتے ہیں۔
جسٹس ویدیہ ناتھن نے کہا،’طلبا خاص طور پر طالبہ کے والدین میں یہ عام تصور ہے کہ عیسائی اداروں میں کو-ایجوکیشن ان کے بچوں کے مستقبل کے لیے بے حد غیر محفوظ ہے۔’ انھوں نے کہا،’موجودہ دور میں ،ان پر دیگر مذاہب کے لوگوں کے لیے عیسائی مذہب اپنانا لازمی کرنے کے کئی الزام لگے ہیں۔بے شک وہ اچھی تعلیم دیتے ہیں لیکن ان کی اخلاقی تعلیم ہمیشہ ایک اہم سوال بنا رہے گا۔’
جسٹس ویدیہ ناتھن نے خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے بنائے گئےبنائے گئے جہیز مخالف قانون سمیت کئی قوانین کے غلط استعمال کا ذکر بھی کیا۔انھوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت ان قوانین میں اصلاح کرے تاکہ بے قصور مردوں کی بھی حفاظت کی جا سکے۔
ایم سی سی کے اسسٹنٹ پروفیسر سیمیول ٹینیسن نے اس کے خلاف جنسی استحصال کی شکایت کی جانچ کرنے والی جانچ کمیٹی(آئی سی سی)کےنتائج اور اس کے خلاف 24 مئی 2019 کو جاری کیے گئے دوسرےوجہ بتاؤ نوٹس کوخارج کرنے کی کورٹ سے گزارش کی تھی۔عدالت نے کمیٹی کے نتائج اور وجہ بتاؤ نوٹس کو لے کر دخل دینے سے انکار کر دیا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)