پاکستان کی ایک اسپیشل عدالت نے جب سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تو پہلے خوشی اس لیے ہوئی کہ شاید اب آئندہ طاقت کے نشے میں چور کوئی آمر پاکستان میں من مانی کرنے یا جمہوریت کی قبا چاک کرنے کی جرأت نہیں کر پائے گا۔ کم سے کم کچھ اور نہیں تواداروں کے عہدوں کا وقار برقرار رہےگا۔ مگر جب تفصیلی فیصلہ منظر عام پر آیا، تو تمام تر خوشی اورپر امیدی کافور ہوگئی۔
ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی میں آئین کا مسودہ پیش کرتے ہوئے معروف دلت لیڈر اور دستورساز کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے کہا تھا کہ دنیا کا کوئی بھی آئین کامل نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کو مؤثر اور قابل استعداد بنانا، روبہ عمل لانے والے افراد اور اداروں کی نیت اور ہیئت پر منحصر ہے۔ اسی تقریر میں انہوں نے مزید کہا کہ ایک اچھے سے اچھا آئین بھی اگر نااہل اور بے ایمان افراد کے ہتھے چڑ ھ جائے تو بد سے بد تر ثابت ہوسکتا ہے۔اس کو چلانے والے اداروں کے ذمہ داران اگر ذہین، فراخ دل اور بامروت ہوں تو خراب سے خراب تر آئین بھی اچھا ثابت ہوسکتا ہے۔
پاکستان کی ایک اسپیشل عدالت نے جب سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تو پہلے خوشی اس لیے ہوئی کہ شاید اب آئندہ طاقت کے نشے میں چور کوئی آمر پاکستان میں من مانی کرنے یا جمہوریت کی قبا چاک کرنے کی جرأت نہیں کر پائے گا۔ کم سے کم کچھ اور نہیں تواداروں کے عہدوں کا وقار برقرار رہےگا۔ مگر جب تفصیلی فیصلہ منظر عام پر آیا، تو تمام تر خوشی اورپر امیدی کافور ہوگئی۔ معزز جج صاحب کا یہ کہنا کہ مشرف اب ہاتھ نہ آئیں اور کہیں مردہ مل جائیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک میں لٹکائی جائے، انصاف نہیں۔ انصاف اور انتقام میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
پتہ نہیں کہ پاکستان کی مٹی میں ایسا کیا کچھ ہے کہ جب بھی کسی ادارے، چاہے سویلین حکومت، صدر، عدلیہ و ملٹری ہو، کو طاقت ملتی ہے، تو وہ بے لگام کیوں ہو جاتا ہے؟ 2014 ء سے ہندوستان میں طاقت کے نشے میں چور نریندر مودی کی مدت حکومت کو چھوڑ کر مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو ہندوستان نے ایک پختہ ‘ٹھوس اورمستحکم سیاسی نظام قائم کرنے میں واقعی کامیابی حاصل کی ہے۔اس کا اور پاکستان کے لڑکھڑاتے قدموں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے والی جمہوریت کے درمیان کوئی موازنہ نہیں ہے۔ چونکہ دونوں ممالک کے عوام کا مزاج تقریباً یکساں ہے، اس لیے اس بات کی تہہ تک جانے کی اشد ضرورت ہے کہ کون سے عوامل ہندوستان کو ایک مستحکم اور پاکستان کو ایک ناپائیدار نظام کی طرف لے جانے کے ذمہ دار ہیں؟
چونکہ میں نے ہندوستان کا نظا م نہایت قریب سے دیکھا ہے، ایسا بالکل نہیں ہے کہ وہاں سیاسی نظا م میں فوج یا سکیورٹی کا عمل دخل نہیں ہے۔ فیصلہ لیتے وقت ان کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے اوراعلیٰ ترین فیصلہ سا ز ادارہ کابینہ کی سلامتی سے متعلق امور کمیٹی میں فوج کی تینوں شاخوں اور خفیہ تنظیموں کے سربراہان کا خا صا عمل دخل ہوتا ہے۔ ہندوستان میں وزیر اعظم کو عدالتی استثنیٰ حاصل نہیں ہے ۔ مگر اس کے باوجود ملک کی کوئی بھی عدالت کسی بھی وزیر اعظم کے خلاف کوئی بھی ریفرنس یا پٹیشن سماعت کے لیےمنظور نہیں کرتی ۔
مختلف اداروں جن میں عدالت یعنی چیف جسٹس، وزیراعظم ، اسپیکر لوک سبھا، دفاعی سروسز یعنی فوجی سربراہ کے دفاتر کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدہ ہے، جس کے تحت وہ ایک دوسرے کے عہدے کے وقار کا خیال رکھتے ہیں۔ اس میں اب الیکشن کمیشن کا دفتر اور میڈیا بھی شامل ہے۔ ہندوستان میں آخری بار 1975 ء میں وزیرا عظم اندرا گاندھی کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک جج نے ریفرنس منظور کرکے ان کے لوک سبھا کے انتخاب کو کالعدم قرار دیا۔ اندرا گاندھی نے اس کے جواب میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے بنیادی حقوق معطل کرکے ، دو سال تک سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرا دی۔ جس کی وجہ سے 1977ء کے انتخابات میں ان کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔
جب ہندوستان میں پہلی بار غیر کانگریسی حکومت جنتا پارٹی کی قیادت میں برسر اقتدار آگئی تو اندارا گاندھی کے خلاف الزامات کا ایک پٹارہ کھول کر عدالتی کمیشن قائم کیا گیا۔ اسی دوران مصالحت کاروں نے اندرا گاندھی کو مشورہ دیا کہ اگر وہ کانگریس پارٹی کی صدارت سے مستعفی ہوکر بیرون ملک چلی جائے تو ان کی جان بخشی ہوسکتی ہے۔ بقول مشہور صنعت کار اور سوشلسٹ لیڈرکمل مرارکا ، جومصالحت کاروں کی ٹیم میں شامل تھے، جب وہ اس معاہدہ کی تفصیل لےکر وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی کے پاس پہنچے تو انہوں نے پوری تفصیل سننے کے بعد ان کو خوب کوسا۔ انہوں نے ٹیم سے پوچھا کہ آخر وہ کیسے اندرا گاندھی کو سیاست سے بے دخل کرسکتے ہیں؟ڈیسائی کا کہنا تھا کہ عدالت اندرا گاندھی کے دیگر امور کو دیکھنے کی اہل ہے، مگروہ خود صرف سیاسی میدان میں گاندھی کا مقابلہ کریں گے۔
اس کے ڈیڑھ سال بعد ہی وسط مدتی انتخابات میں اندرا گاندھی دوبارہ اقتدار میں آگئی۔ ہندوستان کے نویں وزیر اعظم کے طور پر نرسمہا راؤ کی مدت حکومت میں یعنی 1991ء سے 1996ء تک ایگزیکٹو کے اس اعلیٰ عہدہ کے وقار پر کئی سوالیہ نشان لگ گئے۔ بابری مسجد کی مسماری میں ان کی اعانت، اسٹاک ایکسچنج کے بروکروں سے رشوت اور حکومت بچانے کے لیے پارلیامان کے اراکین کی خرید و فروخت جیسے معاملوں نے ان کی شبیہ خاصی داغ دار کی ۔بعد میں اراکین کی خرید و فروخت کے معاملے میں ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی گئی اور ان کو سزا بھی سنائی گئی۔ مگر جب تک وہ آفس میں تھے، عدالتیں ان کے خلاف دائر رٹ پٹیشن خارج کرتی رہیں۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بار وزیر اعظم ہاؤس میں کسی تقریب کے بعد ڈنر کے موقع پر نرسمہا راؤ کی مدت حکومت کے دوران کے دو چیف جسٹس صاحبان کے ساتھ میں کھانے کی میز پر شریک تھا۔ شاید جوڈیشل ایکٹیوازم کا موضوع زیر بحث تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ نہیں سمجھتے ہیں کہ ان کی مداخلت اور نرسمہا راؤ کے خلاف ریفرنسز کو سماعت کے لیے منظور کرنے سے بابری مسجد مسماری سے بچ سکتی تھی اورمالی بد عنوانی کے لیے بھی آئندہ کسی بھی وزیر اعظم کے لیے ایک تنبیہ ہوتی ؟ آخر انہوں نے نرسمہا راؤ کو بے لگام کیوں چھوڑا ، جب کہ وہ ان پر قد غن لگا سکتے تھے؟
تو ان میں سے ایک سابق چیف جسٹس صاحب نے گلا صاف کرتے ہوئے ، کہا ’’کہ وزیرا عظم جمہوری نظام کا ایک اہم ستون ہوتا ہے۔ حکومت دھونس ، دباؤسے زیادہ وزیرا عظم کے اعتماد و اقبال پر چلتی ہے۔ اب اگر آئے دن اس کو کورٹ میں گھسیٹ کر قانونی تقاضوں کے نام پر اس کی بے عزتی کرانی مقصود ہو تو وہ حکومت کب کرےگا؟ اور کیا کوئی افسر، سکریٹری یا دیگر ادارے، اس کو قابل اعتنا سمجھیں گے؟ کیا وہ اس کے احکامات بجا لائیں گے؟ کیا وہ اس انتخابی منشور کو ، جس کی وجہ سے عوام نے اسکو مینڈیٹ دیا ہے، عملی جامہ پہناپائے گا؟ ‘‘دوسرے سابق چیف جسٹس نے بحث میں شامل ہوتے ہوئے کہا کہ اداروں کا احتساب لازمی امر ہے مگر استحکام کو اس کے لیے قربان نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں میں ایک طرح کا توازن رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ انہوں نے یا د دلایا کہ وزارت عظمیٰ سے ہٹتے ہی نرسمہا راؤ کو اراکین پارلیامان کی خرید و فروخت کے الزام پر عدالت کا سامنا کرنا پڑااور انہیں سزا بھی سنائی گئی۔
چیف جسٹس کے عہدے کے وقار کا بھی ہندوستان کے نظا م میں کس قدر خیال رکھا جاتا ہے کہ جب 2000میں اس وقت کے وزیر قانون رام جیٹھ ملانی نے بنگلور میں ایک تقریب کے دورن چیف جسٹس آدرش سین آنند کے رویہ کی بغیر ان کا نام لئے بالواسطہ شکایت کی تو وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے بذریعہ فیکس فوراً ان سے استعفیٰ مانگا۔ جب تک و ہ واپس دہلی آجاتے، واجپائی نے ان کو وزارت سے الگ کرکے نیا وزیر قانون مقرر کر دیا تھا۔ گو کہ واپسی پر جیٹھ ملانی ، جو خود بھی معروف قانون داں تھے، نے چیف جسٹس سے ملاقات کرکے معذرت ظاہر کی، مگر واجپائی کا کہنا تھا کہ ملک چیف جسٹس کے عہدے کے وقار پر کوئی حرف لانے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔
ہندوستان میں اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری حکومت اور جوڈیشری کے درمیان ایک ایشوبنا ہوا ہے۔ فی الوقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور سینئر ججوں پر مشتمل ایک کولیجیم ، نام سلیکٹ کرکے ، حکومت کو بھیجتی ہے، جو خفیہ اداروں سے کوائف وغیرہ معلوم کرکے صدر کے پاس سفارش بھیجتی ہے، جہاں سے تقرری کا آرڈر جاری ہوتا ہے ۔ ایک طرح سے جج ہی ججوں کو منتخب کرتے ہیں۔ جو کسی بھی جمہوری ملک کو جہاں پارلیامنٹ کو فوقیت حاصل ہوتی ہے، زیب نہیں دیتا ہے۔ اس عمل کو صاف و شفاف بنانے کے لیے حکومت نے پارلیامنٹ سے نیشنل جوڈیشل اپائنٹمنٹ کمیشن بنانے کا ایک قانون پاس کیا تھا ۔
جس کے ممبران میں وزیرا عظم، وزیر قانون،حکومت کی طرف سے نامزد دو معروف قانون داں ، چیف جسٹس اور دیگر جج شامل تھے۔ مگر چند سماعتوں کے بعد ہی سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے اس کو مسترد کردیا۔ حکومت نے بھی اس قانون کو پھر واپس لاگو کروانے کی ضد نہیں کی۔ یہ معاملہ ہندوستان میں ہنوز موضوع بحث ہے۔ پاکستان میں عدالتوں کو آمر حکمرانوں نے وقتاً فوقتاً استعمال کیا ہے ۔ مگر جمہوری حکمرانوں نے بھی کچھ کم کسر نہیں چھوڑی ہے۔ جس طرح وزیر اعظم نواز شریف کے حامیوں نے 1997ء میں چیف جسٹس کے چیمبر اور سپریم کورٹ پر دھاوا بول دیا، کسی بے ضابطہ ملک میں بھی اس طرح کی حرکت کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔
پھر 1998ء میں ایک آرمی چیف کو بیک جنبش قلم معطل کرنا اور پھر ایک سال بعد دوسرے آرمی چیف کو اس وقت معطل کرنا ، جب وہ غیرم ملکی دورہ سے واپس آکر جہاز میں ہی تھا۔ اور اس پر طرہ کہ جہاز کو لینڈ کرنے کی اجازت نہ دینا بس یہی ظاہر کرتا ہے کہ طاقت کے نشے میں چور حاکم دیگر اداروں کو جوتے کی نوک پر رکھ کر ان کی تذلیل کرارہا ہے۔ اس طرح کے حاکم کو پھر حالات کے پلٹتے ہی بدلہ کےلیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ہندوستان میں 1998ء میں بحریہ کے سربراہ وشنو بھاگوت کو حکومت کے ساتھ اختلافات کی بناپر عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔ ایڈمرل کا ٹائٹل بھی ان سے چھینا گیا۔ اس وقت کے وزیردفاع جارج فرنانڈس نے اپنے چیمبر میں بلا کر حکومت کے فیصلہ سے ان کو آگاہ کیا۔ واجپائی حکومت کی اتحادی پارٹی تامل ناڈو کی آل انڈیا انا ڈی ایم کے پارٹی نے اس کو ایک ایشو بناکر حمایت واپس لےکر حکومت ہی گرا دی۔ ایسا نہیں ہے کہ ہندوستان میں فوجی سربراہ بس ایک مہرہ ہوتا ہے۔ کابینہ کی سلامتی سے متعلق امور کمیٹی میں اس کا خاصا عمل دخل ہوتا ہے۔
سکیورٹی اداروں کے ان پٹ کے بغیر شاید ہی وزیر اعظم کوئی فیصلہ کرنے کامتحمل ہوسکتا ہو۔ 2007 ء میں جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سیاچن گلیشئر سے فوجوں کی واپسی کے ایک معاہدے پر دستخط ہونے ہی والے تھے، کہ آرمی چیف جنرل جوگندر جسونت سنگھ نے شمال مشرقی صوبوں کا دورہ کرتے ہوئے میڈیا میں اس کے خلاف ایسے وقت بیان دیا کہ جب پاکستان کا سکریٹری دفاع دہلی میں ایگریمنٹ پر دستخط کرنے کے لیےآیا ہوا تھا۔ سنگھ کے بیان کے بعد ایگریمنٹ پر دستخط کرنے کی تقریب ہی منسوخ کردی گئی۔2001 میں ہندوستانی پارلیامنٹ پر حملہ اور پھر 2008میں ممبئی حملوں کے وقت جب واجپائی اور پھر منموہن سنگھ نے بالترتیب کابینہ کی سلامتی سے متعلق امور میٹنگ میں آرمی اور دیگر سروسز چیف سے پاکستان کے خلاف کاروائی کرنے کےلیے کہا تو ان کو بتایا گیا کہ ملک ایک طویل جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
بتایا گیا کہ ملک میں اسٹریٹجک تیل کے ذخائر اور ایمونیشن کے 12 سے 15دن کی مکمل جنگ برداشت کر سکتے ہیں۔ مگر واجپائی نہ منموہن سنگھ نے فوج کی اس کمی کو کبھی ایشو بنایا۔ بلکہ فوج، فضائیہ اور بحریہ کے سربراہان کو بتایا گیا کہ وہ یہ بتائیں کہ وہ جنگ کے لیے تیار ہیں مگر اس کا فیصلہ سیاسی قیادت کو کرنا ہے۔ دونوں وزرائےاعظم کو ملک کے سخت گیر طبقہ نے خوب ملامت کا نشانہ بنایا ۔ مگر انہوں نے اس تنقید کو فوج تک پہنچنے نہیں دیا۔ مجھے یاد ہے، نومبر 1996ء میں پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کی معزولی کی خبر جب بی بی سی سے نشر ہو رہی تھی، میں کچھ ساتھیوں کے ہمراہ کشمیری رہنما سید علی گیلانی کے ساتھ بیٹھا تھا۔
ان کا پہلا ردعمل یہ تھاکہ کرپشن اور دیگر الزامات کے باوجود ایک منتخب حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے تھا۔جمہوریت کے ثمرات انقلابی نہیں بلکہ ارتقائی ہوتے ہیں۔دونوں ملکوں ہندوستان اور پاکستان میں جمہوری نظام میں بہتری لانے کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔جنوبی ایشیا ء کی سیاست کا ایک وصف مشترک ہے۔ وہ یہ کہ یہاں پوری سیاست ایک شخص کی انانیت اور ذات کے گرد محصور ہوجاتی ہے۔ یہاں ذاتی وفاداری کو اہمیت دےکر اور فیصلوں میں من مرضی پر اڑکر، پارٹی کی اندرونی جمہوریت کا جنازہ نکال کر رکھ دیاجاتا ہے۔ مگر نریندر مودی نے اس کی اندرونی جمہوریت کا اب جنازہ نکال کر رکھ دیاہے۔ جمہوریت کے استحکام کے لیے مڈل کلاس بھی ریڑھ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہندوستان کی 125کروڑ کی آبادی میں مڈل کلاس کا تناسب21.36فیصد ہے جبکہ پاکستان کی 25کروڑ کی آبادی میں اس طبقہ کی تعداد صرف 6.8فیصد ہے۔ دونوں ممالک میں جمہوری نظام میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔
ویسٹ منسٹر پارلیامانی نظام میں امیدوار ووٹروں کو ذات برادری اور مذہب کے خانوں میں بانٹ کر اپنا الو سیدھا کرتا ہے۔ جس طرح وزیرا عظم کی تقرری کے لیے لازم ہے کہ ایوان میں اس کو 50فیصد سے زائد اراکین کی حمایت درکار ہونی چاہیے ، اسی طرح امیدوار پر بھی لازم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے حلقہ کے 50فیصد رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرے۔ میں اس جانب اشارہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ سادگی کا مطلب پھٹے حالی ہر گز نہیں ہے۔سادگی میں ایک خوبصورتی اور کشش ہوتی ہے جسے اس خوبی کو اپنانے والا بخوبی دیکھ سکتا ہے۔ پاک صاف اور باوقاررہنے کے لئے پیسے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گاندھی جی کی نصیحتوں کو یورپ کے سیاست دانوں نے حرف بہ حرف اپنا لیا ہے لیکن مہاتما گاندھی کے پیروکارو ں نیز آخری رسول کو ماننے والوں نے ان تعلیمات کو بہت پہلے ہی بھلا دیا ہے ‘ جس کا انجام آج عوام کو بدحالی اور تباہی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں آزادی کے بعد فرسودہ اور ناقص انتخا بی نظام کے نتیجہ میں جمہوری لبادہ میں اشرافیہ (Oligarchy)کا جو طبقہ معرض وجود میں آیا، اس نے ملک کے وسائل اور دولت کو دونوں ہاتھوں لوٹا ہے۔