کیا پاکستان مودی کی جیت کے لئے جیش محمد کا استعمال کر رہا ہے؟

پاکستان کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کے لئے نریندر مودی کی ایک اور جیت سے اچھا کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔ان کی پالیسیوں نے پاکستانیوں کو یہ یقین دلانے کا کام کیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمان کبھی بھی محفوظ نہیں رہ سکتے ہیں۔

پاکستان کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کے لئے نریندر مودی کی ایک اور جیت سے اچھا کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔ان کی پالیسیوں نے پاکستانیوں کو یہ یقین دلانے کا کام کیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمان کبھی بھی محفوظ نہیں رہ سکتے ہیں۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

2001 کے آخری دنوں میں مسعود اظہر نے کراچی کے ایک طالبان حامی مدرسہ جامعہ بنوری میں اپنی نئی تنظیم جیش محمد کی  ایک ہنگامہ خیز میٹنگ بلائی ۔آئی ایس آئی نے 24 دسمبر، 1999 کو ایئر انڈیا کی فلائٹ 814 کواغوا کرنے کے بعد اس گروپ کی تشکیل کی تھی۔ یہ ہوائی جہاز ایک خطرناک سفر کے بعد طالبان کے قبضہ والے  قندھار میں اترا تھا۔

ایک تناؤ والی  بات چیت کے دور کے بعد ہندوستان کی حکومت مسافروں کے بدلے ہندوستان کی جیلوں میں بند تین دہشت گردوں ؛مشتاق احمد زگرا، احمر عمر سعید شیخ اور مولانا مسعود اظہر کو رہا کرنے کے لئے راضی ہو گئی۔رہائی کے بعد یہ دہشت گرد پاکستان کے انٹرسروس انٹلی جنس ڈائرکٹریٹ(آئی ایس آئی-ڈی) کے تحفظ میں پاکستان لے جائے گئے۔

 جیش محمد کا قیام

31 جنوری، 2000 کو اظہر نے ایک نئی دیوبندی دہشت گرد تنظیم جیش محمد کی تشکیل کا اعلان کیا۔ اس میں دوسرے کمزور پڑ رہے دیوبندی گروہوں، مثلاً، حرکت الانصار، حرکت الجہادالاسلامی وغیرہ کے ممبروں کو شامل کیا گیا۔اس کو دیوبندی افغانی طالبان کے ساتھ-ساتھ شیعہ ،احمدیہ ،بریلوی اورغیر-مسلم اقلیتوں کے قتل کرنے والے دیوبندی دہشت گرد تنظیموں، مثلاً، لشکرجھانگوی کے ساتھ قریبی رشتہ بنائے رکھنا تھا۔

آئی ایس آئی نے جلدہی اس نئی دہشت گرد تنظیم  کو کشمیر کی دہشت کے میدان میں اتار دیا، جہاں اس نے پہلی بار فدائین(خودکش) دھماکوں کی شروعات کی۔یہ گروہ 1 اکتوبر، 2001 کو جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی پر خودکش حملے اور 13 دسمبر، 2011 کو نئی دہلی میں ہندوستان کی پارلیامنٹ پر کار کے ذریعے کئے گئے خودکش حملے کے لئے بدنام ہوا۔

 جیش محمد کی تقسیم اور تحریک طالبان پاکستان کا طلوع

لیکن، ان کامیابیوں کے باوجود بھی 2001 کے آخری حصے میں اظہر کو کراچی کے ایک ایسے مدرسے میں بغاوت کا سامنا کرنا پڑا، جس کو وہ اپنا مانتا تھا۔اس کے زیادہ تر ممبر اس بات سے ناراض تھے کہ صدر اور جنرل مشرف افغانستان میں امریکی حملے میں مدد کر رہے تھے، جس کا مقصد اس ملک کے شریعہ کے واحد دیوبندی امارات کو تباہ کرنا تھا۔آئی ایس آئی کی مدد سے جس کو قائم کرنے میں طالبان نے 1994 سے اپنا پسینہ بہا یاتھا۔ اظہر کے مددگار اپنے پاکستانی آقاؤں کو سبق سکھانا چاہتے تھے۔ مسعود اس سے متفق نہیں تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ تنظیم  کے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے پاکستان کی مدد ضروری ہے۔

لیکن اظہر کی دلیلوں کو ان سنا کر دیا گیا۔ تنظیم کا زیادہ تر حصہ ٹوٹ‌کر الگ ہو گیا اور اس کے پاس صرف تنظیم کا نام رہ گیا۔اس کے زیادہ تر ممبر جماعت الفرقان کے نام کے نیچے صف آرا ہوئے، جس نے قاری حسن کی قیادت میں پاکستان میں ظلم وستم اور خودکش حملوں کی شروعات کی۔یہ اس صف بندی  کا پہلا واقعہ تھا، جس کے تحت آخرکار دیوبندی دہشت گرد کمانڈروں کا ایک معمولی قسم کا فیڈریشن تحریک طالبان پاکستان کے پرچم تلے وجود میں آیا، جس کی قیادت بیت اللہ مسعود کر رہا تھا۔

آئی ایس آئی کا وفادار بنا جیش محمد

اظہر نے اس واقعہ کی جانکاری آئی ایس آئی کو دی۔ اس نے اس کو خفیہ ایجنسی  کا دلارا بنا دیا۔ آئی ایس آئی نے پارلیامنٹ پر ہوئے حملے کا استعمال اس کو تھوڑے وقت کے لئے ‘ گرفتار کرنے ‘ کے لئے کیا۔اصل میں حراست میں لینے کا یہ سارا کھیل اس کو حفاظت دینے کے مقصد سے کیا گیا۔ کئی سالوں تک آئی ایس آئی نے مسعود اظہر پر پیسہ لگایا اور جنوبی پنجاب کے اس کے بہاولپور اڈے میں جیش محمد کو پھر سے کھڑا کرنے میں اس کی مدد کی۔

2008 میں مجھے بہاولپور پولیس کی ایک اردو میں لکھی گئی رپورٹ دیکھنے کو ملی، جو اس کی بڑھ رہی سلطنت کا دستاویز تھا۔ وہ کھلےعام یہاں وہاں گھوم‌کر ریلیاں کرتا تھا، مذہبی تقریر کرتا تھا اور یہاں تک کہ اپنی کئی کتابوں کی تشہیر بھی کرتا تھا۔2006 میں اس نے اور اس کے آئی ایس آئی آقاؤں نے تب عالمی کمیونٹی کو ناراض کر دیا، جب برمنگھم میں رہنے والے اس کے سالے راشد رؤف نے ٹرانس اٹلانٹک ایئر لائنس کو اڑانے کے مقصد سے اس میں لکویڈ بم بنانے کے سامان کو اسمگلنگ کرکے لانے کی کوشش کی۔

اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ رؤف پاکستانی پولیس کی حراست سے ‘ بھاگ نکلا ‘۔ بعد میں اس نے 2016 کے پٹھان کوٹ حملے کی سازش کی۔2009 میں عالمی میڈیا کو اس واقعہ کا  مطلب  سمجھ میں آیا۔ آئی ایس آئی کے ذریعے جیش محمد میں پیسہ لگانے کا مقصد کافی سادہ تھا، اظہر جتنے زیادہ دیوبندی دہشت گردوں کو اپنے سے جوڑتا، پاکستان کو نشانہ بنانے والوں کی تعداد اتنی کم ہوتی۔

ضرب عذاب کے بعد جیش آئی ایس آئی کا داہنا ہاتھ بن گیا

2014 تک اظہر نے اپنی افادیت ثابت کر دی تھی۔ کئی مہینوں کی  سابقہ وارننگ کے بعد جون، 2014 میں پاکستانی فوج نے پاکستان طالبان کے خلاف اپنے غیرمنظم آپریشن  ضرب عذاب کی شروعات کی۔لیکن ایسا کرنے سے پہلے اس نے ایک بار پھر اپنے بگڑیل مددگاروں کو ‘ اچھے دہشت گرد ‘ کے خطاب سے نواز‌کر بچانے کی ہرممکن کوشش کی۔ اس نے ان کو بچ نکلنے کے دو اختیار دئے۔

پہلا  افغانستان جانے کا تھا، جہاں وہ طالبان کے ساتھ لڑ سکتے تھے۔ وقت اس کے لئے پوری طرح سے سازگار تھا۔ ان کو صدر غنی کی جیت متعین کرانے کے لئے افغانستان طالبان کے ساتھ مل‌کر 2014 کے صدر انتخاب میں رکاوٹ پیدا کرنا تھا۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی جگہ غنی پاکستان کی پسند تھے۔دوسرا اختیار پھر سے جیش محمد میں شامل ہونا اور ہندوستانیوں کا قتل کرنا تھا۔ یہ دونوں ‘ گھر واپسی ‘ پروگرام تھے، جن میں سے کسی ایک کو وہ چن سکتے تھے۔ بہانے بازی یا اعتراض کرنے والوں کو بخشا نہیں جانا تھا۔

2014 میں پاکستان میں میرے ذرائع نے بتایا کہ وہ لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ جیش کی بڑی صف آرائی  دیکھ رہے ہیں۔ جنوری، 2016 میں جب جیش محمد نے پٹھان کوٹ کے ایئربیس پر بزدلانہ  حملہ کیا: تب مجھے بس ایک چیز کو لےکر تعجب ہوا تھا کہ یہ حملہ میری امید سے پہلے ہوا تھا۔اس وقت سے جیش محمد آئی ایس آئی کے نام نہاد جنگ میں اس کا داہنا ہاتھ بن گیا ہے۔

ایک طرف لشکر طیبہ (جو جماعت الدعوۃ کے نام سے کام کرتا ہے)دیوبندی دہشت گردوں کے ساتھ ہی اسلامک اسٹیٹ-آئی ایس سے لڑائی میں اور ان دیوبندی دہشت گردوں کو گھرواپسی پروگراموں میں شامل کرنے میں مبتلا تھا، وہیں جیش ایک بار پھر متوازی حکومت کا ایک بیش قیمتی اسٹریٹجک ہتھیار بن گیا۔یہ واقعہ ایک بار پھر اس عام حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ پاکستان اپنی حدود کے باہر جو بھی کرتا ہے، اس میں ایک بڑا کردار اس کی اپنی مجبوریوں کا ہوتا ہے۔

پلواما حملے کے ذریعے جیش نے دکھائی طاقت

حال کا پلواما حملہ اسی بات کی ایک اور مثال ہے۔ پاکستان کشمیر اور ہندوستان میں دوسری جگہوں پر اپنے منصوبوں کو لےکرتشویش میں مبتلا ہے۔اسلامک اسٹیٹ اور القاعدہ-انڈین سبکانٹنینٹ نے پاکستان کو بدنام کرنے اور ہندوستان میں ہندو مذہب کی سیاست کے ابھار پر سست رد عمل کے لئے کشمیری اور دوسرے ہندوستانی مسلمانوں کی لعنت ملامت کی کوشش کی ہے۔ گئورکشا سے متعلق تشدد، رام مندر تعمیرکا مطالبہ وغیرہ کا مسلم ‘جنگجوؤں ‘ کے ذریعے منہ توڑ جواب نہیں دیا گیا ہے۔

اس حملے میں 19 سال کے وقفہ کے بعد فدائین حملے کے لئے گاڑی کا استعمال کیا گیا۔ پہلے آزمائے ہوئے ایک سچے پاکستانی پنجابی کی جگہ ایک مقامی کشمیری لڑکے کا انتخاب کیا گیا۔اس کے علاوہ حملے سے پہلے کا ایک’شہید ویڈیو’بھی ہے جس میں اس نے کشمیری اور دوسرے ہندوستانی مسلمانوں کو جہاد کو آگے بڑھانے کے لئے کہا ہے۔اس طرح سے اس کو پاکستان کے نظریے سے  بھی دیکھا جا سکتا ہے ؛کہا جا سکتا ہے کہ اس کے ذریعے پاکستان نے خود کو کھیل میں آگے لانے اور اسلامک اسٹیٹ اور القاعدہ-انڈین سبکانٹننٹ کی کوششوں کو کمزور کرنے کا کام کیا ہے۔

مودی کی جیت کو یقینی بنانا چاہتا ہے پاکستان

لیکن، یہ ساری باتیں اس حملے کے وقت کی وضاحت نہیں کرتی ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اس کا ایک گہرا رشتہ انتخابات سے ہے۔پاکستان کو معلوم ہے کہ وزیر اعظم مودی کی حالت اس بار اتنی مضبوط نہیں ہے جتنی پانچ سال پہلے تھی اور وہ مشکل مقابلے کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان مودی کی ایک اور جیت کو پختہ  کرنا چاہتا ہے۔

پاکستان کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کے لئے مودی کی ایک اور جیت سے اچھا اور کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔ ان کی پالیسیوں نے پاکستان کے جوہری  چھتری کے تلے کے قاتل جنگجوؤں میں پھر سے جان ڈال دی ہے۔اس نے پاکستانی کو بھی یہ یقین دلانے کا کام کیا ہے کہ ہندوستان میں مسلم کبھی بھی محفوظ نہیں رہ سکتے ہیں اور اس نے پاکستانی فوج کے ان دعووں کو مضبوطی دینے کا کام کیا ہے کہ اگر شہری طریقوں پر منحصر رہا جائے تو ڈرپوک شہری انتظامیہ ملک کے قومی دشمن سے امن چاہے‌گا۔

پاکستان نے مودی کو اپنا سینہ ٹھونکنے کا اور ساتھ ہی اپنی حمایت کو بڑھانے کا بھی ایک سنہرا موقع دیا ہے، جس میں حال کے مہینوں میں گراوٹ آئی تھی۔ اور حملے کی گستاخی اور بدلہ لینے کی مانگوں کو دیکھتے ہوئے مودی کے سامنے پاکستان کے ذریعے بچھائے گئے اس جال میں پھنسنے سے بچنے کا بہت کم اختیار ہے۔

سی کرسٹین فیئر‘ان دیئر اون ورڈس : انڈرسٹینڈنگ دی لشکر طیبہ'(او یو پی ہرسٹ : 2018)اور فائٹنگ ٹو دی اینڈ: دی پاکستان آرمیز وے آف وار (او یو پی، 2014)کی مصنفہ ہیں۔ وہ جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں سکیورٹی اسٹڈیز پروگرام میں Provost’s Distinguished Associate Professor  ہیں۔

(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں۔ یہ مضمون بنیادی طور پر دی کوئنٹ پر شائع ہوا تھا۔ مضمون نگار کی اجازت سے اس کو انگریزی سے ترجمہ کرکے شائع کیا گیا ہے۔)