پاکستان کے شورش زدہ علاقےبلوچستان میں 11 مارچ کو مسلح باغیوں نے ایک مسافر ٹرین پر حملہ کیا تھا، جس میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ حکام نے بتایا کہ 30 گھنٹے تک جاری رہنے والے آپریشن میں 300 سے زائد یرغمالیوں کو رہا کرایا گیا ہے۔ اس دوران 21 یرغمالی اور 33 باغی مارے گئے۔
پاکستانی فوجی 12 مارچ کو کوئٹہ، پاکستان میں باغیوں کی طرف سے نشانہ بنائے گئے ٹرین سے سکیورٹی فورسز کے ذریعے بچائے گئے متاثرین اور بچے ہوئے افراد کی امداد کے لیے ریلوے سٹیشن پر پہنچے۔ (تصویر: اے پی/پی ٹی آئی)
نئی دہلی: حکام نے بدھ (12 مارچ) کو بتایا کہ جنوب -مغربی پاکستان میں ٹرین میں
درجنوں یرغمالیوں کو ہلاک کر دیا گیا ۔ یہ واقعہ بلوچستان کے شورش زدہ علاقے میں ایک ٹرین پر عسکریت پسندوں کے حملے کے ایک دن بعد پیش آیا۔
منگل (11 مارچ) کو جب بلوچ علیحدگی پسندوں نے حملہ کیا تو سرحدی صوبے میں جعفر ایکسپریس میں 450 کے قریب افراد سفر کر رہے تھے۔ پاکستانی فوج نے رات بھر اس حملے کی جوابی کارروائی کی۔
پاکستانی فوج کے ترجمان احمد شریف چوہدری نے کہا، ‘آج ہم نے بڑی تعداد میں لوگوں کو رہا کیا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں… حتمی آپریشن انتہائی احتیاط سے کیا گیا۔’
چودھری نے کہا کہ 21 یرغمالی اور 33 باغی مارے گئے۔ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے کہا کہ اس نے تقریباً 50 یرغمالیوں کو ہلاک کیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، ہلاک ہونے والے مسافروں میں سے کئی آف ڈیوٹی فوجی تھے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگتی نے کہا ،’لوگ بھی شہید ہوئے ہیں، تاہم تفصیلات بعد میں بتائیں گے۔’
سینکڑوں یرغمالیوں کو بازیاب کرایا گیا
پاکستانی فوج نے کہا کہ آپریشن اب ختم ہو چکا ہے۔ ایک فوجی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ 30 گھنٹے کی کارروائی میں 300 سے زائد یرغمالیوں کو آزاد کرایا گیا ہے۔
یہ حملہ منگل کو اس وقت ہوا جب درجنوں مسلح افراد نے علاقائی دارالحکومت کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑا دیا اور فائرنگ کی۔
بی ایل اے کے بندوق برداروں نے تمام مسافروں کو یرغمال بنا لیا اور دھمکی دی کہ اگر علیحدگی پسند عسکریت پسند گروپ کے ارکان کو جیل سے رہا نہ کیا گیا تو وہ انہیں قتل کر دیں گے۔
تاہم، پاکستانی حکومت نے بندوق برداروں کے ساتھ بات چیت کرنے سے انکار کر دیا اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے آپریشن شروع کیا۔
کچھ یرغمالیوں نے بتایا کہ بی ایل اے کے بندوق برداروں نے مسافروں پر فائرنگ کی۔
ایک یرغمال نے اے ایف پی کو بتایا،؛انہوں نے ہمیں باہر آنے کو کہا اور کہا کہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ جب تقریباً 185 لوگ باہر آئے تو انہوں نے لوگوں کو چن چن کر گولی مار دی۔’
رہائی پانے والےایک اوریرغمال نے بتایا کہ انہیں سکیورٹی تک پہنچنے کے لیےانہیں کئی گھنٹے تک پہاڑی علاقوں سے ہوکر گزرنا پڑا۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا،’مجھے یہ بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے کہ ہم کیسے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ یہ واقعی خوفناک تھا۔’
(یہ رپورٹ
ڈی ڈبلیو میں شائع ہوئی ہے۔ )