اتر پردیش اسمبلی میں ایک بی جے پی ایم ایل اے نے ریاست میں برہمنوں کے قتل، ہتھیارکےلائسنس کے لیےدرخواست دینے والے اور لائسنس رکھنے والے برہمنوں سے متعلق اعدادوشمار کو لےکر ایک سوال پوچھا تھا، جس کے جواب میں یوپی حکومت نے تمام ضلع حکام کو خط لکھ کر تفصیلات طلب کی تھی۔
نئی دہلی: اتر پردیش حکومت نے تمام ضلع حکام کو خط لکھ کر ہتھیارکےلائسنس کے لیےدرخواست دینے والے اور لائسنس حاصل کرنے والے ریاست کےتما برہمنوں کی تفصیلات مانگی ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق،اسمبلی میں بی جے پی کے ایک ایم ایل اےکی جانب سے برہمنوں کے قتل اور بندوقوں کے لائسنس سے متعلق اعدادوشمار کو لےکر ایک سوال پوچھا تھا۔
اس کےجواب میں یوپی حکومت نے تمام ضلع حکام کو خط لکھ کر پوچھا کہ کتنے برہمنوں نے ہتھیاروں کےلائسنس کے لیے درخواست دیے اور کتنے لوگوں کو لائسنس جاری کیا گیا۔یہ خط 18 اگست کو جاری کیا گیا اور21 اگست تک اضلاع سے اس سلسلے میں تفصیلات مانگی گئی ہے۔ اس پر ریاست کے محکمہ داخلہ کے ایڈیشنل سکریٹری پرکاش چندر اگروال کے دستخط ہیں۔
حالانکہ ایک سینئر افسر کا کہنا ہے کہ اسے لےکرحکومت بہت فعال نہیں رہی اور اب قدم پیچھے کھینچ لیے گئے ہیں۔حالانکہ ایک ضلع کے ڈی ایم نے خط کی مانگ کے مطابق برہمنوں کے پاس ہتھیاروں کے لائسنس سے متعلق اعدادوشمار بھیج دیا ہے۔سلطانپور کے لمبھوآ سے بی جے پی ایم ایل اے دیومنی دویدی نے 16اگست کو اتر پردیش اسمبلی کے چیف سکریٹری پردیپ دوبے کو ایک نوٹ بھیجا تھا، جس میں اسمبلی کے ضابطوں اور طریقہ کار کے حساب سے سوال اٹھائے گئے تھے۔
خط میں دویدی نے ریاست کے وزیر داخلہ(جس کا چارج وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے پاس ہے)سے یہ جانکاری مانگی تھی کہ گزشتہ تین سال میں ریاست میں کتنے برہمنوں کے قتل ہوئے؟ کتنے قاتلوں کو گرفتار کیا گیا؟ کتنے مجرم ثابت ہوئے اور برہمنوں کو تحفظ فراہم کرانے کے لیے حکومت کے کیا منصوبے ہیں؟
ان کایہ بھی سوال تھا کہ کیا حکومت ترجیحات کی بنیاد پر برہمنوں کو ہتھیاروں کالائسنس جاری کرےگی؟ کتنے برہمنوں نے ہتھیاروں کے لائسنس کے لیےدرخواست دیا اور ان میں سے کتنوں کو لائسنس جاری کیا گیا؟
حکومت نے اس کے جواب میں تمام ضلع حکام کو خط لکھ کر پوچھا کہ کتنے برہمنوں نے لائسنس کے لیےدرخواست دیا اور کتنوں کو لائسنس جاری ہوا ہے۔ اس سلسلے میں نقطہ وار ترتیب سے اضافی مواد کے ساتھ حکومت کو 21 اگست تک ای میل پر جانکاری دستیاب کرائیں۔
اس پر اسمبلی کے چیف سکریٹری پردیپ دوبے نے کہا، ‘ہم نے حکومت سے اس طرح کی کوئی جانکاری نہیں لی اور اس طرح کے کوئی بھی سوال قبول نہیں کیے گئے۔’پچھلے کچھ مہینوں میں کئی اپوزیشن رہنماؤں نے اتر پردیش میں برہمنوں کے مدعے کو لےکر ریاستی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
کانپور میں 10 جولائی کو وکاس دوبے کے مبینہ طور پر پولیس انکاؤنٹر میں مارے جانے کے بعد اس طرح کی بحث اور تیز ہو گئی تھی۔اس مبینہ انکاؤنٹر میں وکاس دوبے سے پہلے ان کے پانچ ساتھی بھی مارے گئے تھے اور سب برہمن تھے۔وکاس دوبے اور ان کے ساتھیوں پر تین جون کو کانپور میں ایک ڈی ایس پی سمیت آٹھ پولیس اہلکاروں کے قتل کا الزام تھا۔
بتا دیں کہ اتر پردیش میں10 فیصدی برہمن ووٹر ہیں، جو ریاست میں کافی بااثر ہیں۔