تریپورہ کے 24 سالہ ایم بی اے طالبعلم اینجل چکما کی اتراکھنڈ کے دہرادون میں 26 دسمبر کو ہوئی موت کے بعد تریپورہ میں مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ الزام ہے کہ نسلی تعصب کے باعث ان کے ساتھ بے رحمی سے مار پیٹ کی گئی تھی، جس کے بعد علاج کے دوران ان کی موت ہو گئی۔ اس واقعہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ یہ حکمراں بی جے پی کے ’نفرت کو نارملائز‘ کرنے کا نتیجہ ہے۔
اینجل چکما کی موت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کے دوران اگرتلہ میں ٹپرا انڈیجینس اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ٹی آئی ایس ایف) کے زیر اہتمام منعقد کینڈل مارچ میں شامل لوگ ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی:‘میں چینی نہیں ہوں… میں ہندوستانی ہوں۔’ یہ 24 سالہ ایم بی اے اسٹوڈنٹ اینجل چکما کے آخری الفاظ تھے۔ تریپورہ کے رہنے والے اینجل چکما پر 9 دسمبر 2025 کو اتراکھنڈ کے دہرادون میں وحشیانہ حملہ کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر کے مطابق، اینجل چکما اپنے بھائی مائیکل کے ساتھ سیلاکوئی کے علاقے میں گھریلو اشیاء کی خریداری کر رہے تھے، اسی وقت نشے میں دھت کچھ افراد نے ان کو نسلی تعصب کا نشانہ بناتے ہوئے گالیاں دینا شروع کر دیں۔ جب چکما نے مزاحمت کی تو حملہ آور پرتشدد ہوگئے اور انہوں نے لوہے کی راڈ اور چاقو سے ان پرحملہ کردیا۔
دہرادون کے ایک اسپتال میں 16 دن تک زندگی کی جنگ لڑنے کے بعد 24 سالہ اینجل چکما 25 دسمبر کو چل بسے۔
اس معاملے کی تحقیقات جاری ہے اور دہرادون کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اجئے سنگھ کا
کہنا ہے کہ ، ‘ابتدائی تفتیش میں کسی طرح کے نسلی تبصرے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔’
تاہم اینجل چکما کے اہل خانہ نے پولیس کے اس بیان پر سخت اعتراض کیا ہے۔ سوگوارخاندان نے پولیس کے دعوے کو ‘جلد بازی اور انتہائی غیر ذمہ دارانہ’ قرار دیا ہے۔
اینجل کے چچا مومن چکما، جو حملے کے بعد شہر پہنچنے والے خاندان کے پہلے افراد میں سے تھے، نے کہا کہ پولیس اس کیس کے واحد عینی شاہد کی باتوں کو نظر انداز کر رہی ہے۔
ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘مائیکل صرف خاندان کا فرد نہیں ہے، وہ اس معاملے میں شکایت کنندہ بھی ہے، وہ واقعے کے وقت وہاں موجود تھا۔ یہ پورا واقعہ چند منٹوں میں ہوا، تو ایسے میں کوئی شخص رک کر ویڈیو کیسے بنا سکتا ہے؟’
مومن چکماکا مزید کہنا ہے کہ ‘ جس شخص نے پورا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس کی بات سننے کے بجائے پولیس تفتیش مکمل کیے بغیر بیان دے رہی ہے۔’
مائیکل اور خاندان کے دیگر افراد کے مطابق، حملہ آوروں نے تشدد سے پہلے نسلی تعصب کا مظاہرہ کیا تھا۔ انہوں نے چنکی،چائنیز، اور مومو جیسے الفاظ استعمال کیے تھے۔
ان سنگین الزامات کے باوجود دہرادون کے ایس ایس پی اجئے سنگھ نے سوموارکو کہا کہ اب تک کی تحقیقات میں نسلی تعصب کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چھ ملزمان میں سے دو کا تعلق منی پور اور نیپال سے ہے،اس لیے نسلی مقصد کا امکان کم ہے۔
تاہم، اس دلیل پر سخت تنقید کی گئی ہے، خاص طور پر شمال-مشرق میں سول سوسائٹی کے ارکان کی طرف سے، جو خطے کے پیچیدہ نسلی اور لسانی تنوع سے بخوبی واقف ہیں۔
اس واقعے کے بعد تریپورہ میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ تریپورہ کے وزیر اعلیٰ مانک ساہا نے کہا ہے کہ انہیں اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ چکما کی موت کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔
موت کی وجہ
ایس ایس پی اجئے سنگھ کے مطابق، حملے کے دوران چکما کی ریڑھ کی ہڈی اور سر پر شدید چوٹیں آئی تھیں، جو جان لیوا
ثابت ہوئیں ۔
فی الحال اس معاملے میں پانچ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں دو نابالغ بھی شامل ہیں، جنہیں جووینائل سینٹربھیج دیا گیا ہے۔ پولیس ایک مفرور ملزم کی گرفتاری کے لیے چھاپے ماری کر رہی ہے، جس پر 25 ہزار روپے انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق، سیلاکوئی پولیس اسٹیشن کے سینئر سب انسپکٹر جتیندر کمار نے بتایا،’کلیدی ملزم یگیہ اوستھی کے نیپال فرار ہونے کا شبہ ہے۔ اسے پکڑنے کے لیے پولیس کی دو ٹیمیں روانہ کر دی گئی ہیں، اور اس پر 25000 روپے کے انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔ اینجل کی موت کے بعد بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس )کی دفعہ 103 (قتل) اور دفعہ 3 (یکساں ارادے سے جرم کرنا) بھی شامل کی گئی ہیں۔
ابتدائی ایف آئی آر بی این ایس کی دفعہ 115 (رضاکارانہ طور پر چوٹ پہنچانا)، 118 (خطرناک ہتھیار سے چوٹ پہنچانا) اور 351 (مجرمانہ دھمکی) کے تحت درج کی گئی تھی۔ 14 دسمبر کو ڈاکٹروں کے بیانات کی بنیاد پر دفعہ 109 (قتل کی کوشش) اور 61 (مجرمانہ سازش) کا اضافہ کیا گیا۔
طلباء کا احتجاج
اتوار (28 دسمبر) کو تریپورہ چکما اسٹوڈنٹس یونین نے ملک کے مختلف حصوں میں شمال-مشرق کے طلباء پر بار بار ہو رہے
حملوں کا مسئلہ اٹھایا اور مرکزی حکومت سے مداخلت کا مطالبہ کیا ۔ اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں چکما کی موت کا ذکر کرتے ہوئے طلبہ تنظیم نے کہا کہ اس طرح کے واقعات سنگین نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔
تنظیم نے ملک کے دیگر حصوں میں شمال-مشرقی طلباء پر اسی طرح کے حملوں کی طرف بھی اشارہ کیا اور توہین آمیز تبصروں اور نفرت انگیز جرائم کے خلاف سخت قوانین کا مطالبہ کیا۔
چکما کے خاندان کی مالی امداد
دی ہندو کے مطابق، اتراکھنڈ حکومت نے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کی ہدایت پر چکما خاندان کو مالی امداد فراہم کی۔ خاندان کو پہلی قسط کے طور پر 4.12 لاکھ روپے کا چیک بھیجا گیا ہے۔
یہ مالی امداد درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل (مظالم کی روک تھام) ایکٹ، 1989 اور شہری حقوق کے تحفظ کے قانون، 1955 کے تحت منظور کی گئی ہے۔
این ایچ آر سی کانوٹس
قومی انسانی حقوق کمیشن نے 30 دسمبر کو دہرادون کے ڈی ایم اور پولیس کے سینئر سپرنٹنڈنٹ کو اس واقعہ کے بارے میں نوٹس جاری کیا ہے۔
این ایچ آر سی نے مقامی انتظامیہ کو ان الزامات کی مکمل تحقیقات کرنے کی ہدایت کی ہے اور اس معاملے میں کی گئی کارروائی پر سات دنوں کے اندر رپورٹ طلب کی ہے۔
علاقائی جماعتوں نے واقعے کی مذمت کی
علاقائی سیاسی جماعتوں نے چکما کے قتل کی
مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ شمال-مشرق میں لوگوں کے خلاف اس طرح کے ٹارگٹڈ نفرت انگیز جرائم کوئی نئی بات نہیں ہے۔
تریپورہ کے شاہی خاندان کے رکن اور ٹپرا موتھا کے بانی پردیوت کشور مانیکیا نے کہا کہ ان کی پارٹی اینجل چکما کو انصاف دلانے کے لیے لڑائی جاری رکھے گی۔ انہوں نے کہا،’یہ افسوسناک ہے کہ شمال مشرق کے محب وطن لوگوں کو ‘چینی’ کہہ کر نشانہ بنایا جاتاہے۔ جو لوگ نسلی تبصرہ کرتے ہیں وہ بھول جاتے ہیں کہ شمال-مشرق کے بہادر لوگوں کی وجہ سے ہی چین ملک میں داخل نہیں ہوپاتا۔’
ٹپرا انڈیجینس اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر ساجرا دیب برما نے کہا کہ چکما کی موت صرف ایک شخص کی موت نہیں، بلکہ پورے شمال-مشرق کی موت ہے۔ انہوں نے کہا، ‘شمال مشرق کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب ہم شمال-مشرق سے باہر جاتے ہیں تو ہمیں طعنہ دیا جاتا ہے۔ آج اینجل چکما کی موت صرف اینجل چکما کی موت نہیں ہے، یہ پورے شمال-مشرق کی موت ہے۔ اس سے پہلے بھی کرناٹک، کیرالہ اور دہلی میں شمال-مشرق کے لوگوں کو ذلیل کیا گیا ہے۔ میں مرکزی حکومت براہ راست کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ شمال-مشرق کے لوگوں کو عزت اور احترام نہیں دے سکتےتو ہمیں ایک الگ ملک دے دیجیے، ہم خود اپنا خیال رکھ لیں گے۔’
انہوں نے مزید کہا،’جب ملک کے دوسرے حصوں سے لوگ شمال-مشرق میں آتے ہیں، تو ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔ ہم ان کی توہین نہیں کرتے، کیونکہ یہ ہماری ثقافت نہیں ہے۔’
راہل گاندھی کا ردعمل
لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے سوموار (29 دسمبر) کو اتراکھنڈ کے دہرادون میں تریپورہ کے طالبعلم کے قتل کو ‘خوفناک نفرت انگیز جرم’ قرار دیا اور کہا کہ یہ حکمراں بی جے پی کے’نفرت کو نارملائز کرنے’ کا نتیجہ ہے۔ کانگریس نے ایف آئی آر درج کرنے میں ‘غیر معمولی تاخیر’ پر بھی سوال اٹھایا اور اب تک فرارکلیدی ملزم کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
ایکس پر ایک پوسٹ میں راہول گاندھی نے کہا،’نفرت راتوں رات پیدا نہیں ہوتی۔ برسوں سے اسے روزانہ – خاص طور پر نوجوانوں میں – زہریلے مواد اور غیر ذمہ دارانہ بیانیے سے بھڑکایا جا رہا ہے۔ اور حکمراں بی جے پی کی نفرت پھیلانے والی قیادت کی طرف سے اسے نارملائز کیا جا رہا ہے۔’
انہوں نے کہا،’ہم محبت اور تنوع کا ملک ہیں۔ ہمیں ایک مردہ معاشرہ نہیں بننا چاہیے جو اپنے ہی شہریوں کو نشانہ بنائے جاتے دیکھ کر منھ پھیر لے۔ ہمیں اس حقیقت پر غور کرنا چاہیے اور اس حقیقت کا سامنا کرنا چاہیے کہ ہم اپنے ملک کو کیا بننے دے رہے ہیں۔’
گاندھی نے مزید کہا،’میری تعزیت چکما خاندان، تریپورہ اور شمال-مشرق کے لوگوں کے ساتھ ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم آپ کو اپنے ہندوستانی بھائی -بہن کہتے ہیں ۔