اترپردیش کے دیوبندمیں جمعیۃ علماء ہند کے سالانہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے تنظیم کے دوسرے گروپ کے سربراہ مولانا محمود اسعد مدنی نے سنیچر کو کہا کہ حکومت نے ملک کے مسلمانوں کے مسائل کے تئیں آنکھیں بند کرلی ہیں۔تنظیم نے الزام لگایا کہ بی جے پی کی قیادت والی حکومت کی سرپرستی میں ملک کی اکثریتی برادری کے ذہنوں میں زہر گھولا جا رہا ہے۔
مولانا ارشد مدنی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند (ارشد مدنی گروپ) کے سربراہ مولانا ارشد مدنی نے ہفتہ کو اتر پردیش کے دیوبند میں کہا کہ اقلیتوں کی لڑائی کسی ہندو سے نہیں، بلکہ مذہب کی بنیاد پر آگ لگانے والی حکومت سے ہے، جس کا مقابلہ عدالت کے ذریعے کیا جائے گا۔
مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کا مسلمان باہر سے نہیں آیا، بلکہ ہمیشہ سے یہیں کا باشندہ ہے اور اس کا ثبوت اس کا رنگ روپ ، زبان، بول چال اور لباس ہے جو اکثریتی سماج سے الگ نہیں ہے۔
دیوبند میں جمعیۃ علماء ہند (محمود مدنی گروپ) کے سالانہ دو روزہ مجلس منتظمہ کے اجلا س سے خطاب کرتے ہوئے لوگوں سے سڑکوں پر نہ آنے کی اپیل کرتے ہوئےارشد مدنی نے کہا کہ ، ملک میں مسلمانوں کے خلاف’ بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ واقعات کی وجہ سے کچھ لوگ سڑکوں پر اترنے کامشورہ دیتے ہیں۔ میں ان سے یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ کے بزرگ بھی کبھی ناسازگار حالات کی وجہ سے سڑکوں پر نہیں آئے۔
انہوں نے کہا، ہمارے سامنے بابری مسجد سمیت کئی ایشو تھے، ہم چاہتے تو سڑک پر آ سکتے تھے، لیکن ہم نے قانونی لڑائی لڑی۔ سڑکوں پر اتریں گے تو آپ کبھی کامیاب نہیں ہو پائیں گے اور ایسا کرنے کا مشورہ دینےوالے غلطی کر رہے ہیں اور اقلیتوں کے خلاف ہیں۔
ارشد مدنی نے کہا، اگر ہم پیار اور محبت پر عمل کریں گے تو آگ لگانے والے خود ہی ختم ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا، ہمارا مقابلہ کسی ہندو سے نہیں بلکہ حکومت سے ہے جو مذہب کی بنیاد پر لوگوں کا استعمال کرکے آگ لگانا چاہتی ہے اور ہم عدالت کے ذریعے اس کا مقابلہ کریں گے۔
اتر پردیش کے داردی میں اخلاق کی ماب لنچنگ کا حوالہ دیتے ہوئےمدنی نے کہا، اخلاق کے قتل کے بعد جن لوگوں نے اپنا ایوارڈ واپس کیا تھاان میں سے زیادہ تر ہندو ہی تھے۔
ارشد مدنی نے کہا کہ حکومت ہماری ہے۔ اگر حکومت ہمیں ہمارا حق دے گی تو ہم اس کی تعریف کریں گے اور اگر نہیں دے گی تو عدالت کے ذریعے لڑیں گے۔
جمعیۃ علماء ہند دو گروپوں میں منقسم ہے۔ ایک گروپ کی سربراہی راجیہ سبھا کے سابق ممبر محمود اسعد مدنی کر تے ہیں جبکہ دوسرے گروپ کی سربراہی مولانا ارشد مدنی کر تے ہیں۔ ارشد مدنی محمود مدنی کے چچا ہیں۔
بتادیں کہ جب 2006 میں محمود کے والد اور جمعیۃ کے سربراہ اسد احمد مدنی کا انتقال ہوا تو ان کے اور ان کے چچا کے درمیان تنظیم کی قیادت کو لے کر تنازعہ پیدا ہو گیا، جس کے نتیجے میں اس کا بٹوارہ ہو گیا۔
تاہم ارشد مدنی نے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے دونوں گروپوں کے جلد متحد ہونے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ ،اس پروگرام میں میری شرکت دونوں گروپوں کو متحد کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
حکومت نے مسلمانوں کی حالت زار پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں: محمود اسد مدنی
اس کنونشن میں ارشد مدنی کے بھتیجے اور جمعیۃ علماء ہند کے دوسرے گروپ کے سربراہ مولانا محمود اسعد مدنی نے ہفتہ کو کہا کہ حکومت نے ملک کے مسلمانوں کے مسائل کے تئیں آنکھیں بند کر لی ہیں۔
دیوبند میں مولانا محمود اسعد مدنی جمعیۃ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ان کا کہنا تھا کہ ،ملک انتشار کے دور سے گزر رہا ہے لیکن اقتدار میں بیٹھے لوگوں نے اپنے ہونٹ سل لیے ہیں، جو سب کے لیے باعث تشویش ہے۔ مسلمانوں کو اپنے شہروں کی سڑکوں پر چلتے ہوئے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ ہم ہر اذیت برداشت کریں گے، لیکن کسی کو اپنے ملک کو توڑنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم تمام مسائل پر سمجھوتہ کر سکتے ہیں لیکن ملک کی قیمت پر نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت مسلم کمیونٹی کو جن مشکلات کا سامنا ہے اس کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔
مدنی نے کہا ہم ہر ظلم برداشت کر لیں گے لیکن اس کو ہماری کمزوری نہ سمجھیں۔ ہم جمعیۃ میں امن کے علمبردار ہیں اور بھائی چارے کو فروغ دینا چاہتے ہیں اس لیے ہم کسی بھی صورتحال کا مقابلہ کرنے کوتیار ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ،ہم آگ کو آگ سے نہیں بجھا سکتے۔ نفرت کے ماحول کو پیار سےہرانا ہے۔ پرسکون رہیں اور ان لوگوں کے عزائم کا شکار نہ ہوں جو ہمارے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی یقین دلایا کہ اجلاس کے دوران تنظیم کاشی وشوناتھ مندر–گیان واپی مسجد اور تاج محل کے معاملات پر قراردادیں پاس کرے گی۔
اس موقع پر دارالعلوم دیوبند کے مولانا ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ ہمارا ملک ایک گلدستے کی مانند ہے، جس میں تمام مذاہب کے لوگ امن سے رہتے ہیں۔ ہمارا اتحاد ہی ہمارے ملک کو ہندوستان بناتا ہے۔ ہمیں اپنے ملک کو بچانے کے لیے ان اقدار کو بچانا چاہیے۔
حکومت کی سرپرستی میں اکثریتی طبقے کے ذہنوں میں زہر گھولا جا رہا ہے، جمعیۃ
ملک میں مبینہ طور پر بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ملک کی سرکردہ مسلم تنظیم جمعیۃ علماء ہند نے ہفتہ کو الزام لگایا کہ اجتماعات میں اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلانے والی باتیں کہی جاتی ہیں، لیکن حکومت اس پر توجہ نہیں دے رہی ہے۔
جمعیۃ علمائے ہند کے کنونشن میں جمع ہوئے لوگ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
تنظیم نے مرکزی حکومت پر صدیوں پرانے بھائی چارے کو ختم کرنے کا بھی الزام لگایا۔ اس نے یہ بھی الزام لگایا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی حکومت کی ‘سرپرستی’ میں ملک کی اکثریتی برادری کے ذہنوں میں زہر گھولا جا رہا ہے۔
جمعیۃ نے دعویٰ کیا کہ ’سیڈو نیشنلزم‘ کے نام پر قوم کے اتحاد کو توڑا جا رہا ہے، جو نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے انتہائی مہلک ہے۔
اترپردیش کے سہارنپور ضلع کے دیوبند میں جمعیۃ علماء ہند کے سالانہ دو روزہ اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی، جس میں مرکزی حکومت سےان عناصر اور اس طرح کی سرگرمیوں پر فوراً روک لگانے کی اپیل کی گئے ، جو جمہوریت، انصاف پسندی اور شہریوں کے درمیان مساوات کے اصولوں کے خلاف ہےاور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی کو فروغ دیتا ہے۔
کنونشن میں نو مختلف قراردادیں منظور کی گئیں جن میں اسلامو فوبیا، ملکی صورتحال، تعلیم، اسرائیل فلسطین مسئلہ سمیت دیگر ایشوز شامل ہیں۔
کنونشن میں ‘اسلامو فوبیا’ کے حوالے سے بھی ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ ‘اسلامو فوبیا’ نہ صرف مذہب کے نام پر دشمنی ہے بلکہ اسلام کے خلاف خوف اور نفرت کو دل و دماغ پر حاوی کرنے کی مہم ہے۔
قرارداد میں الزام لگایا گیا کہ ،اس کی وجہ سے آج ہمارا ملک کو مذہبی، سماجی اور سیاسی انتہاپسندی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کے حالیہ واقعات اور گیان واپی اور متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد سمیت دیگر مذہبی مقامات پر تنازعات کے پیش نظر جمعیۃ کی اس کانفرنس کو اہم مانا جا رہا ہے۔ کانفرنس میں گیان واپی سمیت دیگر مذہبی مسائل سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تیار کی جائے گی۔
جمعیۃ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کنونشن میں تنظیم کے تقریباً دو ہزار اراکین اور معززین نے شرکت کی۔ کنونشن میں رکن اسمبلی بدرالدین اجمل نے بھی شرکت کی۔
جمعیۃ علماء ہندکا قیام 1920 میں عمل میں آیا تھا۔ تحریک آزادی میں اس نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ تنظیم نے 1947 میں تقسیم کی مخالفت کی تھی۔ جمعیۃ ملک میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی سب سے بڑی تنظیم ہے۔
کنونشن میں منظور کی گئی ایک اور قرارداد میں دعویٰ کیا گیا کہ ، ملک مذہبی عداوت اور نفرت کی آگ میں جل رہا ہے۔ خواہ وہ کسی کا لباس ہو، کھانا ہو، عقیدہ ہو، تہوار ہو، بولی (زبان) ہو یا روزگار، ملک کے باشندوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے کی مبینہ کوششیں ہورہی ہیں۔
قرارداد کے مطابق،سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ فرقہ پرستی کی یہ ‘کالی آندھی’ موجودہ حکمران جماعت اور حکومتوں کی سرپرستی میں جاری ہے جس نے اکثریتی طبقے کے ذہنوں میں زہر گھولنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
اس میں الزام لگایاگیا ہے کہ ،آج اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، جو ملک کی صدیوں پرانے بھائی چارے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
قرارداد میں کہا گیا کہ مسلمانوں، پہلے کے مسلم حکمرانوں اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے خلاف لغو اور بے بنیاد الزامات بہت تیزی سے پھیلائے جا رہے ہیں۔ قرارداد میں الزام لگایا گیا کہ ،اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے بجائےاقتدار میں بیٹھے لوگ انہیں آزاد چھوڑ کر اور ان کا ساتھ دے کر اس کو فروغ دے رہے ہیں۔
قرارداد میں کہا گیاکہ ،جمعیۃ علماء ہند کو اس بات پر تشویش ہے کہ کھلے عام اجتماعات میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف یہ پروپیگنڈہ پوری دنیا میں ہمارے پیارے ملک کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے اوراس سے ملک دشمن عناصر کو بین الاقوامی فورمز پر اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا موقع مل رہا ہے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ،سیاسی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے ایک طبقے کو دوسرے طبقے کے خلاف اکسانا اور اقلیتوں کے خلاف اکثریت کے مذہبی جذبات کو بھڑکانا نہ تو ملک سے وفاداری ہے اور نہ ہی ملک کے لیے اچھا ہے۔ بلکہ یہ کھلی دشمنی ہے۔
بیان کے مطابق، جمعیۃ نے تشدد پر اکسانے والوں کو سزا دلانے اور تمام کمزور طبقات بالخصوص مسلم اقلیت کو سماجی اور اقتصادی طور پر الگ تھلگ کرنے کی مبینہ کوششوں کو روکنے کے لیے ایک علیحدہ قانون کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
جمعیۃ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق، اسرائیل کوغازہ کی 15 سالہ ناکہ بندی کو فوری طور پرہٹانے اور کراسنگ پوائنٹس کھولنے کا مطالبہ کیا۔اس کے ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ مسجد اقصیٰ میں نمازیوں کی بلا روک ٹوک نقل و حرکت کو یقینی بنایا جائے اور اس پر اسرائیلی قبضہ کو جلد از جلد ختم کیا جائے۔
جمعیۃ نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ تمام مذاہب کے درمیان باہمی ہم آہنگی کا پیغام دینے کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے ہر سال 14 مارچ کو ’اسلامو فوبیا کی روک تھام کا عالمی دن‘ منایا جائے۔
جمعیۃ کے بیان کے مطابق، مسلم تنظیم نے سماجی ہم آہنگی کے لیے سدبھاونا منچ قائم کرنے کی تجویز کو بھی منظوری دی، جس کے تحت جمعیۃ نے ملک میں ایک ہزار سدبھاونا منچ قائم کرنے کا ہدف رکھا ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)